ڈپریشن اور ایگریشن
میرے خیال میں مرحومین کی اچھائیوں کو یاد کرنا یا ان کا ذکر کرنا تو جائز اور بہتر ہے
کراچی:
Depressionاور aggression انگریزی زبان کے دو ایسے الفاظ ہیں جوآج کل ماضی کی نسبت بہت زیادہ استعمال ہوتے ہیں، ڈپریشن کا تعلق کسی شخص کی اُس نفسیاتی حالت سے ہے جب مسلسل ناکامیاں اُسے ایک ایسی غم زدگی کی حالت میں لے جاتی ہیں کہ اُس کا دل دنیا سے اُچاٹ ہوجاتا ہے اور وہ اس کیفیت سے نہ نکل سکنے کی وجہ سے نہ صرف ہمت ہار بیٹھتا ہے بلکہ بعض صورتوں میں اُس کے اندر خود کشی کا رجحان بڑھنے لگتا ہے جب کہ ایگریشن جارحیت کی ایک شکل ہے۔
جب کوئی شخص تعصب ، خودفریبی یا طاقت کے ایک ایسے احساس میں مبتلا ہوجاتا ہے جہاں و ہ اپنی پسند کے خلاف ہر چیز کو گھٹیا ، بے بنیاد، غلط اور مجبوری سمجھ کر اُس کی ہر قسم کی اخلاقیات اور انسان حقوق کو بالائے طاق رکھ کر انتہائی غرور اور بدتمیزی سے دوسروں کی توہین کرتا ہے اور بجائے شرمندہ ہونے کے اپنی جارحیت کو جائز اور اپنا آزادانہ اظہار ِ رائے کا حق گردانتا ہے اور سوائے اپنے سے بڑی طاقت کے کسی کی بات سننے کو تیار نہیں ہوتا۔
فی الوقت یہ دونوں لفظ یا تراکیب بالترتیب عامر لیاقت حسین کی وفات اور بھارتی ٹی وی اور ٹویٹر پر توہینِ رسالت کے مرتکب بھارتی جنتا پارٹی کے اہم لیڈر اور ترجمان سے متعلق ہیں کہ اب تک کی موصول شدہ معلومات کے مطابق عامر لیاقت حسین وفات سے قبل شدید ڈپیریشن کا شکار تھے اور بی جے پی کے دونوںمتعلقہ افراد ہندو توا ، حکومت، طاقت اور تعصب کی وہ منہ بولتی تصویریں تھیں جن کی بہت دن بعد پہلی بار اپنی مسلم دشمنی پر ایسے ردّعمل کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے (دنیا کو دکھانے کے لیے ہی سہی ) اُن کی پارٹی کو اُن کے خلاف سخت اقدامات لینے پڑے۔
ڈاکٹر عامر لیاقت حسین ہر اعتبار سے ایک مختلف اور منفرد قسم کے انسان تھے جن کی زندگی بلندی اور پستی ، شہرت اور تنقید کے ساتھ ساتھ ہمیشہ خبروں میں رہی۔ ایک طرف ''عالم آن لائن'' جیسے مذہبی اور جیو پاکستان جیسے کمرشل پروگراموں میں اپنی شخصیت کے مختلف رُوپ دکھاتے گزری اور بلاشبہ ایک ٹی وی اینکر کے طور پر اُن کا نام اُن چند احباب میں ہوتا ہے جن کو ''صاحبِ طرز'' کہا جاسکتاہے، یہ اور بات ہے کہ کسی باقاعدہ پروگرام کی عدم موجودگی میں بھی انھیں خبروں میں رہنے کا فن آتا تھااور اس کے لیے وہ کچھ بھی کر گزرنے کو غلط نہیں سمجھتے تھے مگر یہ سب باتیں اُن کی وفات کے بعد بے معنی ہوگئی ہیں کہ اب وہ ایک ایسی عدالت میں چلے گئے ہیں جہاں کے فیصلوں کے بارے میں اُن سمیت کوئی کچھ نہیں جانتا۔
اُن کی تعلیم، ذاتی اور عائلی زندگی اور سیاسی اونچ نیچ کے بارے میں اُن کے ہوتے بہت سی باتیں ہر طرح کے میڈیا پر ہورہی تھیں اور ان میں کوئی ایسا حر ج بھی نہیں تھا کہ مشہور لوگوں کے بارے میں اُن کے حامی اور مخالفین ہر طرح کے تبصرے کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں لیکن میں بھی کسی شخص کی اس دنیا سے رخصت کے بعد اُس کے قلمی یا بصری پوسٹ مارٹم کو جائز اور پسند نہیں کرتا۔
میرے خیال میں مرحومین کی اچھائیوں کو یاد کرنا یا ان کا ذکر کرنا تو جائز اور بہتر ہے کہ اس سے لوگوں میں اچھے کاموں اور کردار کے لیے عزت کے شعور اور اثر میں اضافہ ہوتا ہے لیکن اُن کی مبینہ خطائوں، کمزوریوں یا برائیوں کا ذکر کرنا اور اس حوالے سے خود ساختہ بیانات کو حقائق کا روپ دینا اور اُن باتوں پر تبصرہ کرنا جن کا تعلق جاننے والے کی ذاتی زندگی سے ہو،کسی طور بھی جائز یا مستحسن نہیں۔
اخلاق اور دین دونوں کی تربیت کا یہ تقاضا ہے کہ مرنے و الے کے حق میں اُس کی بخشش کی دعا کی جائے اور ربِ کریم سے التجا کی جائے کہ وہ اُس کی غلطیوں اور گناہوں کو معاف فرمائے اور اُس کے ساتھ رحمت والا سلو ک کرے ۔ سو اب اُس کی وفات کی وجوہات پر غیر ذمے داری سے صرف لوگوں کو متوجہ کرنے کی خاطر افواہیں پھیلانا یا خیال آرائیاں کرنا ایک ایسا روّیہ ہے جس کی ہر ممکن حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔
رہی یہ بات کہ وہ اپنی تیسری بیوی کے ساتھ بگاڑ اور اُس سے متعلقہ تنقید اور تنقیس کی وجہ سے ڈپریشن میں چلا گیا تھا تو ہم کو یہ بات یہیں تک رکھنی چاہیے، اس کی تفصیلات میں جانا اور پھر خود ہی جج بن کر فیصلے صادر کرنا یا مرحوم سے منسوب کچھ منفی باتوں کو مزے لے لے کر بیان کرنا ایک بہت ہی گھٹیا کام ہے۔ اس ضمن میں، میں عزیزی عروج اور رابی پیرزادہ کے تاثرات اور ردّعمل سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں کہ اگر ہمیں اس سلسلے میں کچھ کہنا ہی ہے تو اسے صرف بخشش کی دعا تک محدود رکھیں کہ کل کلاں کو ہم سب نے بھی ا ُسی عدالت میں پیش ہونا ہے جہاں عامر لیاقت گیا ہے اور یہ بات ہی خاص طور پر سوشل میڈیا کے احباب کو مخاطب کرکے کہہ رہا ہوں۔
اب جہاں تک بھارت کے اسلام دشمن روّیے اور اُس کی جارحیت کا تعلق ہے تو یہ سلسلہ تو تقسیم ِ ہند کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا لیکن تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ عوام اور حکومت دونوں کی سطح پر یہ روّیہ نسبتاً محدود بھی تھا اور قابلِ برداشت بھی مگر گزشتہ چھ برس بی جے پی اور مودی کی حکومت کے قیام کے بعد سے صورتِ حال بہت بدل گئی ہے کہ اب سرکار خود کو اور عوام کو کنٹرول میں رکھنے کے بجائے اس روّیئے کی اس حد تک حوصلہ افزائی کرر ہی ہے کہ اب وہاں مسلمان نام کے ساتھ زندہ رہنے اور معاشرے میں اپنا جائز مقام حاصل کرنے کے مواقع بھی باقاعدہ پلاننگ سے بند کیے جارہے ہیں۔
اسی پارٹی کے ایک بڑے لیڈر اٹل بہاری واجپائی وہ پہلے بھارتی وزیراعظم تھے جنھوں نے پاکستان کو ایک حقیقت کے طور پر قبول کیا اور بھارتی مسلمانوں کو بھی وہ تمام حقوق دینے کی بات کی جو بھارت کے ہندو شہر یوں کو حاصل تھے لیکن مودی سرکار نے دنیا کے انسانی حقوق کے بارے میں ہر اصول کو اتنی بُری طرح سے پامال کیا جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
اب یہ انتہائی قابلِ افسوس بات ہے کہ اتنی بڑی دنیا کے بیشتر مسلمان ممالک سمیت کسی نے بھی اُس کا ہاتھ روکنے کی کوشش تو کُجا زبان سے بھی اُس کی مذمّت نہیں کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب اُن کے کچھ اہم ترجمانوں نے اپنے ملک کے بیس کروڑ اور دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی تکلیف اور دل شکنی کا احساس کیئے بغیر ہمارے پیغمبر رحمت دو جہاں کی بھی انتہائی ڈھٹائی اور بے حیائی سے میڈیا پر کردار کشی کی اور اُن کی اس ایگریشن کو ہمیشہ کی طرح بھارت کے مسلمان پی بھی گئے مگر پھر اچانک یہ بات مسلمان دنیا کے سربراہوں تک پہنچ گئی۔
عین ممکن تھا کہ بھارتی حکومت اُن کی ناراضی اور احتجاج کو اپنے مخصوص ہتھکنڈوں سے دبانے میں کامیاب ہوجاتی مگر اس دفعہ معاملہ کچھ مختلف ہوگیا کہ بہت سے ملکوں نے عوامی اور حکومتی سطح پر بھارت کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کردیا جس سے گھبرا کر مودی حکومت نے متعلقہ دونوں افراد کو ایک طرح سے پارٹی اور میڈیا سے نکال بھی دیا ہے مگر اب خود اپنی لگائی ہوئی آگ پر اُن سے قابو نہیں پایا جارہا اور اُن کی ایگریشن سے بھرپور مسلمان دشمنی پالیسی اب اُن کے لیے مشکل کا باعث بن گئی ہے۔ ایک موہوم سی امید ہے کہ اس صورت حال کے باعث شاید بھارتی مسلمانوں پر آئی ہوئی سختی میں بھی کچھ کمی ہوجائے اور وہ بھی آزاد اور باوقار انسانوں کی طرح زندگی گزار سکیں۔