ملک ہی سے تو سب کچھ ہے
اتحادی حکومت سخت فیصلے کرکے اپنی مقبولیت داؤ پر لگا چکی ہے جو کبھی نہیں چاہے گی کہ اس سال الیکشن ہوں
سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی کا سیاسی ڈائیلاگ شروع کرنے کا مشورہ اہم ہی نہیں بلکہ ملک کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم سب کو مل کر بیٹھنا ہوگا کہ ملک کو کیسے چلائیں۔ سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر آئین کے مطابق وسیع اصول طے کرلیں اور آگے بڑھنے کا راستہ بنائیں کہ سیاسی نظام کیسے چلے گا۔
کیا گالم گلوچ اور لوگوں کو حملہ آور ہونے کی شے دینے سے ملک کا نظام چل سکے گا؟ ہمیں طے کرنا ہوگا کہ ملک میں سیاسی نظام ہے دشمنی پر مبنی نظام نہیں ہے، ہمیں کوشش تو کرنا پڑے گی۔ سابق وزیر اعظم کے مشورے کے جواب میں وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے بھی سیاسی مذاکرات کی حمایت کردی جس کا جواب پی ٹی آئی کی قیادت کی طرف سے سوچ سمجھ کر آنا چاہیے تھا مگر پارٹی کے سیکریٹری اطلاعات فرخ حبیب کو جلدی تھی اور انھوں نے بیان جاری کرنا ضروری سمجھا اور پارٹی کی کور کمیٹی کے اجلاس کا بھی انتظار نہیں کیا اور نمبر بڑھانے کے لیے بیان داغ دیا۔
قبل ازیں وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے سوال کیا کہ کیا ہم اس سے بات کریں جو روز ہمیں گالیاں دیتا ہے جس نے اقتدار سے محروم ہو کر ملک میں سیاسی انتشار پیدا کر رکھا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جس شخص نے وزیر اعظم ہوتے ہوئے ملک کے اہم معاملات پر اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنا گوارا نہیں کیا تھا، کیا وہ سابق وزیر اعظم اس اپوزیشن کے ساتھ بیٹھے گا جس نے متحد ہو کر اسے آئین کے مطابق اقتدار سے محروم کیا۔
جو شخص اقتدار میں تحریک عدم اعتماد کا خیر مقدم اس لیے کر رہا تھا کہ اسے اپنے خلاف تحریک پیش ہونے کا یقین ہی نہیں تھا اور اس کے وزیر اپوزیشن کو جلد سے جلد تحریک پیش کرنے کا کہہ رہے تھے مگر جب تحریک پیش ہوگئی تب بھی تحریک ناکام بنانے کی سنجیدگی سے کوشش ہی نہیں کی گئی کیونکہ حکومت کو خود کو بچانے کی فکر اس لیے نہیں تھی کہ وہ سمجھ رہی تھی کہ جو اسے اقتدار میں لائے تھے وہی حکومت کو بچا بھی لیں گے۔
سابق حکومت والوں کو اپنے اتحادیوں کے ٹوٹ جانے کی فکر کیا ہوتی وہ تو مطمئن تھے اور واضح کر رہے تھے کہ حکومت کہیں نہیں جا رہی۔ جب اتحادیوں نے ساتھ چھوڑ دیا اور حکومت خطرے میں آ پڑی تب ہوش آیا کہ نیوٹرل ہوجانے والے مدد نہیں کر رہے تو پینترا بدلا گیا کہ تحریک غیر ملکی سازش ہے پھر نیوٹرلز کے خلاف بیان بازی کی گئی مگر اپنی غلطی پر توجہ دینے کی ضرورت پھر بھی محسوس نہیں کی گئی اور اب معاملہ یہاں تک آ گیا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان بضد ہیں کہ موجودہ حکمران امپورٹڈ ہیں اور ان کے خلاف سازش میں امریکا، بھارت اور اسرائیل ملوث ہیں۔
سابق حکومت کی رہنما شاندانہ گلزار نے اعتراف کیا ہے کہ ہر حکومت اپنی کارکردگی کی خود ذمے دار ہے، اگر اچھا کرے گی تو اسے کریڈٹ ملے گا لیکن اگر کارکردگی اچھی نہیں ہوگی تو اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ اگر ہماری حکومت کو مدت پوری کرنے دی جاتی تو 2023 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کی حکومت دوبارہ کبھی نہیں آسکتی تھی۔ سابق حکومت کے رہنماؤں میں جو یہ احساس ہے وہ سب سو فیصد درست ہے مگر اپنی غلطیاں نہ ماننے، ہٹ دھرمی اور اقتدار بچانے کے لیے عمران خان جس مقام پر پہنچ گئے تھے۔
اس مقام پر آنے کے بعد ان سے یہ امید ہی نہیں کہ وہ تحریک عدم اعتماد کو ہر حالت میں اپنے خلاف بیرونی سازش قرار دیتے رہیں کیونکہ ان کے پاس عوام کو بتانے کے لیے کارکردگی تو ہے ہی نہیں اس لیے اپنی سیاست بچانے کے لیے واحد راستہ یہی ہے کہ وہ آئین کے تحت آنے والی حکومت سے مصالحت یا مذاکرات کا نہ سوچیں کہ اس کے ساتھ کسی صورت بیٹھا جاسکتا ہے۔ ان کا واضح موقف بلکہ شرط ہے کہ حکومت پہلے نئے انتخابات کا اعلان کرے جس کے بعد ہی کسی مسئلے پر حکومت سے مذاکرات کیے جاسکتے ہیں۔ عمران خان کی یہ اتنی سخت شرط ہے کہ جو اتحادی حکومت کی طرف سے مان لینا ممکن نہیں ہے اور اتحادی حکومت صاف کہہ چکی ہے کہ وہ آیندہ سال اگست تک برقرار رہے گی جس کے بعد عام انتخابات منعقد کرائے جاسکتے ہیں۔
عمران خان 2014 میں بھی یہ کر چکے ہیں اور طویل دھرنے کے باوجود حکومت کو قبل ازوقت انتخابات پر مجبور نہیں کرسکے تھے اور مجبوراً انھیں 2018 کا انتظار کرنا پڑا تھا۔ اس وقت تو (ن) لیگی حکومت کو ایک سال ہوا تھا اور چار سال باقی تھے جب کہ اب حکومت کے پاس صرف سوا سال ہے۔ اس وقت کیسے ممکن ہے کہ وہ حکومت کو قبل از وقت انتخابات پر مجبور کرسکیں۔ ملکی حالات کسی سیاسی بحران کے متحمل ہو سکتے ہیں نہ حکومت کو معاشی حالات اجازت دے رہے ہیں کہ وہ عمران خان کے دباؤ میں آجائے۔ حکومت کی بھی مجبوری ہے کہ وہ اپنے موقف پر ڈٹی رہے اس لیے عمران خان کو لچک دکھانا ہوگی۔
پی ٹی آئی نے اپنی کور کمیٹی کے اجلاس میں وزیر اعظم شہباز شریف کی گرینڈ ڈائیلاگ کی تجویز سیاسی توقعات کے مطابق مسترد کردی ہے کہ جو حکمران مسلط کیے گئے ہیں ان سے مذاکرات کسی صورت ممکن نہیں۔ شیخ رشید نے بھی کہا ہے کہ الیکشن کی تاریخ دے کر ہی عمران خان کو مذاکرات پر آمادہ کیا جاسکتا ہے۔
عمران خان نے سخت گرمی میں لانگ مارچ اور دھرنے کا انجام دیکھ لیا ہے مگر انھیں سوچنا چاہیے کہ ملکی حالات اور معیشت فوری الیکشن کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اتحادی حکومت سخت فیصلے کرکے اپنی مقبولیت داؤ پر لگا چکی ہے جو کبھی نہیں چاہے گی کہ اس سال الیکشن ہوں۔ لگتا ہے کہ پی ٹی آئی میں قیادت کو کوئی سمجھانے والا نہیں ہے کہ ہم سب کے لیے یہ ملک ہی سب کچھ ہے، جو رہا تو اقتدار بھی ملے گا اور سیاست بھی جاری رہے گی۔ ملک دانشمندانہ فیصلوں سے ہی محفوظ رہ سکتا ہے۔ حکومت کو معیشت سنبھالنے کا موقعہ ملنا چاہیے اور سیاسی کشیدگی کے خاتمے کے لیے باہمی اختلاف کم کرکے سب کو ملک کا سوچنا ہوگا۔