تھر کا کوئلہ توانائی کا منظرنامہ تبدیل کرسکتا ہے ماہرین

بجلی کی پیداوار میں تھر کے کوئلے کے استعمال سے صارفین کو بھرپور ریلیف مل سکتا ہے


Business Reporter June 14, 2022
کثیرزرمبادلہ کی بھی بچت ہوگی،  پاور پالیسی میں تسلسل ناگزیر ہے،آصف ارسلان سومرو (فوٹو : انٹرنیٹ)

ISLAMABAD: ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی اور علاقائی معیارات کے مقابلے میں پاکستان کے انرجی مکس میں کوئلے کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

تھر میں کوئلے کے وسیع ذخائر ہونے کے باوجود پاکستان میں ان ذخائر سے توانائی کے حصول پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا ورنہ تھر کا کوئلہ پاکستان کے توانائی کا منظرنامہ یکسر بدل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

سینئر معاشی تجزیہ کار آصف ارسلان سومرو کے مطابق تھر میں کوئلے کی کان کی توسیع اور پیداوار بڑھا کر پاکستان ایندھن کی درآمد پر خرچ ہونے والے سالانہ کروڑوں ڈالر کے زرمبادلہ کی بچت کرسکتا ہے۔ آصف سومرو نے کہا کہ حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات، گیس اور بجلی پر سبسڈی میں کمی کا فیصلہ اگرچہ اپنی جگہ درست ہے تاہم اس کے نتیجے میں عام طبقے کی قوت خرید بری طرح متاثر ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ توانائی کے بحران کے حل کے لیے حکومت کو طویل مدتی حل پر توجہ مرکوزکرنا ہوگی ، یوکرین اور روس کی جنگ طول پکڑنے اور اس کے اثرات دونوں ملکوں کی سرحدوں سے باہر تک پھیلنے کے ساتھ اوپیک ملکوں کی جانب سے تیل کی قیمت میں کمی کے لیے سرد مہری سے خام تیل، آر ایل این جی اور فرنس آئل کی قیمتیں بلند رہنے کا خدشہ ہے۔

اس صورتحال میں ظاہر ہے کہ توانائی کی قیمت بلند تر رہے گی، ساتھ ہی مہنگے درآمدی کوئلے سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت بھی 7.26روپے فی کلو واٹ کے مقابلے میں71فیصد اضافے سے 12.41 روپے فی کلو واٹ تک پہنچ گئی ہے۔ تھر کے مقامی کوئلے سے بجلی کی پیداوار کی صورت میں بجلی کی لاگت 3.63 روپے فی کلو واٹ کی سطح پر آجائے گی جس سے صارفین کو بھرپور ریلیف ملے گا، دوسری جانب زرمبادلہ کی بچت ہوگی اور ملک کی معیشت کو مستحکم بنانے میں مدد ملے گی۔

رپورٹ کے مطابق نیپرا نے یکم جولائی 2022سے بجلی کے نرخ 7روپے سے 7.5روپے فی یونٹ بڑھانے کی اجازت دیدی ہے جس سے بجلی کے اوسط نرخ 16.64 روپے فی یونٹ سے بڑھ کر 24.14روپے فی یونٹ تک پہنچ جائیں گے۔

آصف سومرو کے مطابق مقامی اور غیرملکی سرمایہ کاروں کو توانائی کے مقامی وسائل میں سرمایہ کاری کی ترغیب دینے کے لیے پاور پالیسی میں تسلسل ناگزیر ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں