ہمارے حالات حاضرہ
ہمارے وطن عزیزکو پسماندہ ملک کا درجہ دیا جاتا ہے جس کی کئی ایک وجوہات بیان کی جا سکتی ہیں
SHANGHAI:
سیاست کے بے رحم بازار میں جو صورتحال ہے اسے واقعی بے رحم کہا جا سکتا ہے ۔ بڑی بے رحمی عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈالا جارہا ہے ۔اس بوجھ سے عوام بلبلا اٹھے ہیں بلکہ معلوم یوں ہوتا ہے کہ تنگ آکر کہیں اشرافیہ پر دھاوا نہ بول دیں ۔ مہنگائی نے کئی گھروں کے چولہے ٹھنڈے کردیے ہیں۔
اب تو ذرا اچھی کوالٹی کا ایک کلو گھی بھی بمشکل خریدا جا سکتا ہے چہ جائیکہ مہینے بھرا کا راشن ایک ہی بار خریدا جائے۔ عموماً ہم مڈل کلاسیے بازار میں کسی بھی پھل اور سبزی کی خریداری کے وقت ریڑھی والے سے بھاؤ تاؤ بہت کرتے ہیں لیکن ضروریات زندگی کی یہی اشیاء اگر کسی بڑے اسٹور سے خریدیں تو خاموشی سے ادائیگی کر دیتے ہیں۔
میں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ آ یندہ کسی چھوٹے دکاندار سے بھاؤ تاؤ بالکل نہیں کروں گا۔ ضرویات زندگی کی اشیاء فروخت کرنے والا یہ وہ طبقہ ہے جو جسم و جاںکا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے مسلسل تگ و دو میںرہتا ہے اور ہم کسی ریستوران میں کھانا کھا کرکئی ہزار روپے کا بل ہنستے مسکراتے کی ادا کر دیتے ہیں لیکن کسی ریڑھی والے سے جنس کی خریداری کے وقت چند روپوں کی خاطراسے بے ایمانی اور گراں فروشی کا خطاب فوری دے دیتے ہیں۔
ہمارے وطن عزیزکو پسماندہ ملک کا درجہ دیا جاتا ہے جس کی کئی ایک وجوہات بیان کی جا سکتی ہیں جن میں سے سر فہرست مالیاتی اور معاشی پالیسیوں میں تسلسل کا نہ ہونا اور ان میں توڑپھوڑ ہے۔ ہمارے ہاں جس بے ہنگم طریقے اور تیز رفتاری سے حکومتوں میں تبدیلی لائی جاتی ہے اور حکومتوں کی تبدیلی کے ساتھ ہی پالیسیاں بھی تبدیل ہو جاتی ہیں اور نئی پالیسیوںکا نفاذ شروع ہو جاتا ہے، یوں معاشی پالیسیوںکے تسلسل میںتعطل آنے سے قومی زندگی کا اہم ترین شعبہ ناکامی کی ایک مثال بن جاتا ہے۔ ہمارے سابقہ وزیر خزانہ شوکت عزیز جو عالمی سطح پر مالیاتی امور کا تجربہ رکھتے ہیں ان کے خیال میں قومی معاشی پالیسیوں کی مسلسل تبدیلی اور عد م استحکام ہماری معاشی پسماندگی کی ایک اہم ترین وجہ ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ اپنی ملازمت کے سلسلے میں وہ ملائیشیا گئے اور وہاں کی اقتصادی پالیسیوں کا مطالعہ کیا۔ اس کے کوئی دس برس بعد انھیں پھرملائیشیا میں کام کرنے کا موقع ملا تو انھوں نے دیکھا کہ دس برس پہلے جو لوگ مالیاتی امور چلا رہے تھے اور قومی اقتصادی پالیسیوں پر عمل پیرا تھے اب بھی وہی لوگ یہ کام جاری رکھے ہوئے تھے ،اس کا نتیجہ آج دنیا کے سامنے ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ معاشی پالیسیوں میں تسلسل کی کس قدر اہمیت ہے۔ ایک وقت تھا کہ مشرق بعید کے آج کے خوشحال ممالک ہمارے ہاں ہمارے منصوبوں کا جائزہ لینے آیا کرتے تھے ان کے لیے ترقی کی جانب بڑھتا پاکستان ایک کامیاب ماڈل تھا، لیکن اس کے بعد کیا ہوا یہ ایک دردناک اور افسوسناک کہانی ہے۔
آج کے حالات حاضرہ یہ ہیں کہ پاکستان اربوں ڈالر کے قرضوں میں جکڑا جا چکا ہے اور وزیراعظم شہباز شریف نے بالکل درست کہا ہے کہ مانگنے والی کی اپنی کوئی مرضی نہیں ہوتی ۔ اس محاورے کی آج ہم عملی تصویر بن چکے ہیں ۔ ان قرضوں کی وجہ سے ہمیں مغربی دنیا کا ہر مطالبہ تسلیم کرنا پڑتا ہے۔
آج مہنگائی کے جس عفریت کا غریب اور متوسط طبقے کو سامنا ہے اس میں ہماری اشرافیہ جس کو میرے مرحوم والد بدمعاشیہ کہتے تھے نے اپنا بھر پور حصہ ڈالا ہے بلکہ سارا کیا دھرا اسی کا ہے، اسی طبقے کی وجہ سے عالمی سطح پر ہمارے مسلسل بے عزتی جاری ہے، کوئی بھی ہماری قومی آزادی کی پروا نہیں کرتا ۔ہمارے حکمران یہ بجا کہتے ہیں کہ کیاکریں مقروض ملک کی کون مانتا اور کون اس کی عزت کرتا ہے لیکن حکمران یہ نہیں بتاتے کہ پاکستان پر آج جو وقت گزر رہا ہے وہی اس کے ذمے دار ہیں، عوام تو بے چارے ہر دور میں مظلوم رہے ہیں۔
تازہ ترین خبر کے مطابق ہمارے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بجلی کی قیمتوں میں مزید آٹھ روپے کے اضافے کی نویدسنائی ہے اور ان کے بقول جون میں فیول ایڈجسٹمنٹ چارجزکے بعدبجلی کے بل ایسے آئیںگے ۔ حکومت کے لیے ریونیو حاصل کرنے کا سب سے آسان ذریعہ بجلی، گیس اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ کرنا ہے جو مسلسل جاری ہے۔ میں کہنا چاہتا ہوں کہ حکمران ڈریں اس وقت سے جب عوام اپنے حکمرانوں کے ہوش اڑا دیں گے مگر عوام کی پروا کون کرتا ہے، عوام کی کون سنتا ہے ۔