سندھ کا بجٹ

سندھ اسمبلی میں مالی سال 2022-23 کے لیے 33ارب 84کروڑ روپے خسارے پر مشتمل 17 کھرب، 13 ارب روپے کا بجٹ پیش کردیا


Editorial June 16, 2022
سندھ اسمبلی میں مالی سال 2022-23 کے لیے 33ارب 84کروڑ روپے خسارے پر مشتمل 17 کھرب، 13 ارب روپے کا بجٹ پیش کردیا۔ فوٹو: فائل

کراچی: وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے منگل کو سندھ اسمبلی میں مالی سال 2022-23 کے لیے 33ارب 84کروڑ روپے خسارے پر مشتمل 17 کھرب، 13 ارب روپے کا بجٹ پیش کردیا ہے ۔ اس بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا،سرکاری ملازمین کے گزشتہ چھ سال کے ایڈہاک ریلیف الاؤنس کو بنیادی تنخواہ میں ضم کردیا گیا ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15فیصد اور پنشن میں5 اضافہ ہوگا۔

بجٹ میں 3653 نئی آسامیاں رکھی گئی ہیں۔ پولیس کانسٹیبل کا گریڈ5سے بڑھا کر7کردیا گیا ہے۔اس فیصلے سے پولیس کانسٹیبلز یقینی طور پر خوش ہوں گے۔ صوبائی بجٹ میں تعلیم کے لیے 326.80ارب روپے،صحت کے لیے 206.98ارب روپے اور امن وامان کے لیے 124.873 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

سندھ کے غریب عوام کے لیے 26.85ارب روپے کا ریلیف پیکیج، کاروباری لاگت کم کرنے اور معاشی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے کاٹن سیس، پروفیشنل ٹیکس اور انٹرٹیمنٹ ڈیوٹی کو معطل کرنے، کھانے پینے کی اشیاکی گھروں پر ڈیلیوری کرنے والے پلیٹ فارمز کے لیے کمیشن چارجز پر سیلز ٹیکس کی شرح آیندہ دو سال کے لیے 13سے کم کرکے8فیصد کردی گئی ہے دیگر شعبوں پر کمیشن ایجنٹس پر صوبائی سیلز ٹیکس 13فیصد برقرار رکھنے، برآمدی شعبہ کے لیے انفرااسٹرکچر سیس کی چھوٹ کی تجویز بھی بجٹ میں شامل کی گئی۔

کراچی میں مجموعی ترقیاتی اخراجات 118ارب روپے ہوں گے، کراچی کے لیے نئی پرانی 18اسکیموں کے لیے10ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ کراچی جیسے بڑے شہر کے لیے ترقیاتی بجٹ کہیں زیادہ ہونا چاہیے۔ کراچی کے مسائل کیا ہیں، اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ سب ان مسائل سے اچھی طرح واقف ہیں۔کراچی سے جو ٹیکس اکٹھا ہوتا ہے، اگر اسے ہی کراچی کی ترقی پر خرچ کردیا جائے تو اس کے اچھے نتائج نکلیں گے کیونکہ کراچی شہر سے تو ٹریفک چالان کی مد میں اچھا خاصا ریونیو اکٹھا ہوتا ہے اور سندھ حکومت اسے تسلیم بھی کرتی ہے۔

بجٹ میں سندھ کے کسانوں کو3ارب روپے سبسڈی دینے کا بھی اعلان کیا گیا۔ یہ ایک اچھا فیصلہ ہے کیونکہ سندھ کا کسان اور ہاری سبسڈی کا مستحق ہے ۔ صوبائی حکومت کو چاہیے کہ سندھ میں چھوٹے کاشتکاروں کے لیے مزید مراعات کا اعلان کرے۔انھیں سستی بجلی فراہم کی جائے اور ٹریکٹرزاور دوسری زرعی مشینوں میں استعمال ہونے والا ڈیزل یا پٹرول بھی سستا فراہم کرے۔ سندھ کی زراعت کو بچانے کے لیے پانی کے ذخائر تعمیر کرنا اشد ضروری ہے۔

سندھ حکومت کو مجموعی بجٹ میں سمندری پانی کو قابل استعمال بنانے کے منصوبوں کے لیے رقم مختص کرنی چاہیے تاکہ اس اہم ترین منصوبے پر کام کا آغاز ہوسکے۔سمندری پانی کوقابل استعمال بنانے کے لیے طویل المدتی منصوبہ بنایا جائے' اگرتھوڑا تھوڑا بجٹ بھی اس منصوبے پر بلارکاوٹ مسلسل خرچ کیا جائے تو دس برس میں کراچی' ٹھٹھہ اور دیگر ساحلی علاقوںکے مکینوں کے لیے پینے کے صاف پانی کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہو جائے گا بلکہ سمندری پانی کوزرعی مقاصد کے لیے بھی استعمال میں لایا جا سکے گا۔

سندھ کے بجٹ میں غریبوں کے لیے ہاؤسنگ یونٹس بنانے کے لیے2ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے بجٹ تقریرمیں کہاکہ یہ بجٹ سندھ کے عوام کی سماجی بہبود،غربت کے خاتمے کے ساتھ ساتھ ایک ترقیاتی بجٹ ہے۔

بجٹ میں مجموعی آمدنی کا تخمینہ 16کھرب79ارب 73کروڑ48لاکھ روپے لگایا گیا ہے۔ صوبہ کے نان ٹیکس اور ٹیکس آمدن کا تخمینہ 374ارب 50کروڑ روپے لگایا گیا جس میں 167ارب روپے کے صوبائی محاصل، خدمات پر صوبائی سیلز ٹیکس وصولیوں کا تخمینہ 180ارب روپے جب کہ نان ٹیکس آمدن کا تخمینہ 27ارب روپے لگایا گیا۔ آیندہ مالی سال کے بجٹ کیلیے وفاقی حکومت سے سندھ کو 1055ارب روپے موصول ہونے کا تخمینہ لگایا گیا۔

سندھ کو آیندہ مالی سال میں غیرملکی معاونت سے چلنے والے منصوبوں کے لیے 91.46ارب روپے، وفاقی گرانٹس کی مد میں 6ارب روپے جب کہ غیرملکی گرانٹس کی مد میں 8ارب روپے وصول ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

آیندہ مالی سال کے بجٹ اخراجات کو پورا کرنے کے لیے سندھ حکومت بینکوں سے 45ارب روپے لے گی محصولات اور صوبائی سیلز ٹیکس کی مد میں 79ارب روپے زائد وصول کیے جائیں گے۔ وفاق سے ترقیاتی کاموں کے لیے 6ارب روپے کی گرانٹ ملی گی اس طرح صوبے میں مجموعی طور پر ترقیاتی کاموں پر 459ارب روپے خرچ ہوں گے جو مالی سال 2021-22کے مجموعی ترقیاتی اخراجات 269ارب 63کروڑ روپے سے 190ارب روپے زیادہ ہیں۔ بجٹ میں سندھ کے سات اضلاع میں نئی یونیورسٹیزیا یونیورسٹی کیمپس بھی قائم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

موجودہ معاشی بحران میں سندھ حکومت نے ایک متوازن بجٹ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر معاشی بحران نہ ہوتا تو شاید ترقیاتی منصوبوں پر زیادہ خرچ کیا جاتا۔ بہرحال حالات جیسے بھی ہوں کچھ شعبے ایسے ہیں جن پر زیادہ خرچ کرنا چاہیے۔

مثال کے طور پر کراچی اور حیدر آباد سندھ کے بڑے شہر ہیں۔ ان شہروں میں انفراسٹرکچر کی تعمیر بہت ضروری ہے۔ حکومت عوام کو سہولت فراہم کرنے کے لیے ٹرانسپورٹ کا شعبہ فعال کرے۔ ٹرانسپورٹ کو صرف نجی شعبے کے حوالے کرنے سے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ اگر کراچی میں نجی ٹرانسپورٹ کے متوازی پبلک ٹرانسپورٹ چلے تو اس سے شہریوں کو بھی سہولت ملے گی اور نجی ٹرانسپورٹ کمپنیوں کی اجارہ داری ختم ہو جائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں