بجلی عوام کا حق
ساری صورتحال کا فائدہ پٹرول مافیا اور جنریٹر مافیا کو ہوتا ہے
STOCKHOLM:
حسن اطہر زندگی کی پچھتر بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ نوجوانی میں سوشل ازم کے نعرے سے متاثر ہوئے اور مزاحمتی تحریکوں کا حصہ بن گئے، ٹریڈ یونین میں کام کیا ، ایدھی ٹرسٹ میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
اب انسانی حقوق کے بارے میں آگہی کی تحریک کا حصہ بنے اور مختلف تعلیمی اداروں میں انسانی حقوق کی اہمیت کے بارے میں لیکچر دیتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ بجلی بھی اب بنیادی انسانی حق ہے اور ریاست کی ذمے داری ہے کہ ہرگھر میں بجلی کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ وہ کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں رہتے ہیں، اس علاقے کو کے الیکٹرک نے اسٹارکا درجہ دیا ہوا ہے۔ جن علاقوں میں صد فیصد بلنگ ادائیگی ہوتی ہے۔
اس علاقے کو اسٹارکا درجہ دیا جاتا ہے ، مگر آجکل یہاں بھی اوسطاً دس سے بارہ تک گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ کراچی میں بجلی فراہم کرنے والی کمپنی کے افسران کا کہنا ہے کہ گلشن میں جن فیڈرز سے بجلی آتی ہے ، ان فیڈرز کی دوسری لائنوں سے استفادہ کرنے والے صارفین بل ادا نہیں کرتے ، جس کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ زیادہ کرنا پڑتا ہے۔ یوں جو گھرانے بجلی چوری کرتے ہیں، ان کے جرم کی سزا باقاعدگی سے بل ادا کرنے والے صارفین کو بھگتنی پڑتی ہے۔
کے الیکٹرک کی لوڈ شیڈ نگ پالیسی کے تحت کراچی میں کئی زون قائم کیے گئے ، جن علاقوں میں صد فی صد بلنگ ہوتی ہے، انھیں لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے اور جہاں بلوں کی ادائیگی کی شرح تھوڑی کم ہے، ان علاقوں کو چند گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ کے زون میں شامل کیا گیا اور جہاں بلوں کی بہت کم ادائیگی ہوتی ہے اور بجلی چوری کی شرح بہت زیادہ ہے، وہاں 10 سے 12 گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔
زیادہ لوڈ شیڈنگ والے علاقے نچلے متوسط طبقہ کے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس پالیسی نے شہرکو طبقاتی بنیاد پر بانٹ دیا۔ ایک لسانی تنظیم نے اس فارمولے کی حمایت کی۔ باقی جماعتوں کے رہنماؤں نے خاموشی اختیار کر لی۔یہ بیانیہ کہ بجلی کی چوری کی بناء پر خسارہ ہوتا ہے اور لوڈ شیڈنگ کرانا پڑتی ہے لیکن کے الیکٹرک کے کئی ریٹائرڈ افسران کہتے ہیں کہ بجلی کی چوری کی شرح غریب علاقوں کی نسبت امراء کے علاقوںمیں زیادہ ہے۔ حسن اطہرکا کہنا ہے کہ ملازمین کے تعاون سے ہی بجلی چوری ہوتی ہے۔ بجلی چوری کی نشاندہی بھی کی جائے تو عملہ کارروائی نہیں کرتا۔
حسن اطہر کا یہ بیانیہ بھی ہے کہ ہمیں بھارت اور دیگر ممالک کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے ایسا نظام قائم ہونا چاہیے کہ ہر گھر میں بجلی 24 گھنٹے آئے۔ وہ کہتے ہیں کہ دو کمرے کے مکان کے مکینوں کو اتنی بجلی فراہم کی جائے کہ دو بلب، ایک ٹی وی ، دو پنکھے اور فریج چل سکے اور ایک مقررہ رقم مکین ہر ماہ ادا کرنے کے پابند ہوں اور جو صارف مزید الیکٹرانک آلات استعمال کرنا چاہے تو اس سے زائد رقم وصول کی جائے اور یہ رقم اتنی ہوکہ صارفین آسانی سے ادا کرسکیں۔ امراء اور متوسط طبقہ کے لیے بجلی کی فراہمی کو بھی ریگولیٹ کیا جائے اور مقررہ لوڈ سے زیادہ بجلی استعمال کرنے والے صارفین سے اضافی فیس وصول کی جائے۔
حکومت نے بجلی کی بچت کے لیے مارکیٹوں کو 8:30 بجے بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تاجر اس فیصلے کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ ماضی میں بھی حکومتوں نے اس طرح کے فیصلے کیے مگر تاجر مافیا کی مزاحمت پر ان فیصلوں پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ پاکستان کے تاجر دنیا سے نرالے ہیں ، وہ ایک بجے دکان کھول کر رات ایک بجے تک کاروبار کرنے کو بہتر جانتے ہیں۔
پوری دنیا میں علی الصبح بازارکھلتے ہیں اور سورج غروب ہونے تک بند ہوجاتے ہیں مگر اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ تاجروں کو واضح طور پر بتایا جائے کہ رات 8:30 بجے بجلی کی فراہمی بند ہوجائے گی ، جو تاجر اپنا کاروبار رات گئے تک جاری رکھنا چاہے، وہ بجلی کے حصول کے لیے متبادل ذرائع استعمال کرے، مگر دن بھر کوئی لوڈ شیڈنگ نہیں ہونی چاہیے اور اس فیصلہ پر سختی سے عمل ہونا چاہیے۔
ساری دنیا میں بجلی کے متبادل ذرائع پر انحصارکیا جاتا ہے۔ دنیا کے بڑے شہروں میں کوڑے کو جلا کر پیدا ہونے والی بجلی استعمال کی جاتی ہے۔ کراچی شہر میں گزشتہ 14برسوں سے کوڑا بہت بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے ، اگر کسی فرم کو کوڑے سے بجلی بنانے کا ٹھیکہ دیا جائے اور اس کمپنی کی یہ ذمے داری بھی ہوکہ وہ ہر علاقے سے خود کوڑا اٹھائے گی تو صفائی کا معیار بھی بلند ہوگا اور نیشنل گرڈ پر بوجھ کم ہوجائے گا۔ سندھ میں بجلی کے متبادل ذرائع کا محکمہ قائم ہے۔
اس محکمہ میں کئی لائق انجنیئر فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ان انجنیئززکا بیانیہ ہے کہ صرف صوبہ سندھ میں ونڈ انرجی اور سولر انرجی کے بھرپور استعمال سے سندھ بجلی کے معاملہ پر خود کفیل ہوسکتا ہے مگر وفاق ان ذرائع کو استعمال کی ممانعت کرتا ہے۔
یہ عجیب بات ہے اور ساری صورتحال کا فائدہ پٹرول مافیا اور جنریٹر مافیا کو ہوتا ہے۔ سندھ میں کئی تعلیمی ادارے مکمل طور پر سولر سسٹم کو اپنا چکے ہیں اور کچھ صنعتی ادارے تو سولر سسٹم کے استعمال سے بچنے والی بجلی کے الیکٹرک کو فروخت کر رہے ہیں۔ میرے ایک جاننے والے کاگھر مکمل طور پر سولر سسٹم پر چل رہا ہے ، وی فالتو بجلی کے الیکٹرک کو دینا چاہتے ہیں مگر میٹر فراہم نہیں کیا جارہا ہے۔
سندھ کے وزیر توانائی کا کہنا ہے کہ جلد کے الیکٹرک سے معاہدہ ختم ہو جائے گا۔ انجینئر رشید ابراہیم جن کی زندگی بجلی کے محکمے میں گزری ہے ، ان کی تجویز ہے کہ ہر ضلع میں ایک الگ کمپنی کو بجلی کی ترسیل کا کام سونپا جائے۔ وفاقی بجٹ میں بجلی کے متبادل ذرائع کی ترقی کے لیے خاطر خواہ رقم نہیں رکھی گئی ہے۔ صوبہ سندھ کو اپنے بجٹ میں اس مد میں زیادہ رقم رکھنی چاہیے۔
ریاست کی یہ ذمے داری ہے کہ ہر گھر تک بجلی کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ اس سال بجلی کے متبادل ذرائع پر توجہ دینی چاہیے تو لوڈ شیڈنگ کا بھی خاتمہ ہوگا اور پٹرول، فرنس آئل، سوئی گیس پر آنے والے اخراجات بہت کم ہوجائیں گے مگر اس ملک میں کون ہے جو مافیازکو شکست دے گا۔؟