بیمار جنرل ر پرویز مشرف کی وطن واپسی
جنرل موصوف کے مرض کی خبریں پچھلے چار برس سے گردش کر رہی ہیں
ISLAMABAD:
پاکستان کے سابق آمر صدر اور سابق آرمی چیف جنرل (ر)پرویز مشرف پچھلے تقریباً 6سال سے پاکستان سے باہر مقیم ہیں۔ پہلے وہ لندن میں اپنے ذاتی گھر میں رہائش پذیر رہے، پھر دبئی چلے آئے۔
اُن کا اور اُن کے خاندان کا دعویٰ ہے کہ لندن اور دبئی میں اُن کا قیام بغرضِ علاج تھا۔ دبئی کے ایک اسپتال میں زیر علاج جنرل(ر) پرویز مشرف کی زندگی بارے، چند روز قبل، سوشل میڈیا پر تشویشناک خبریں آئی تھیں۔ جنرل موصوف کے خاندان نے ان خبروں کی تردید کرتے ہُوئے کہا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف صاحب شدید بیمار تو ہیں لیکن وہ وینٹی لیٹر پر نہیں ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ پرویز مشرف ایسی بیماری کا شکار ہو چکے ہیں جہاں سے صحت کے ساتھ واپسی، شاید، ممکن نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق ہے۔ وہ ہر ناقابلِ علاج مرض کو بھی شفا بخشنے کی طاقت رکھتا ہے ؛ چنانچہ اس پس منظر میں ہماری دعاہے کہ اللہ تعالیٰ اپنا کرم فرمائے اور پرویز مشرف کو صحتِ کامل و عاجلہ عطا فرمائے۔ ( آمین۔)
جنرل موصوف کے مرض کی خبریں پچھلے چار برس سے گردش کر رہی ہیں۔ اِسی بیماری سے نجات حاصل کرنے کے لیے وہ پہلے لندن اور پھر دبئی کے جدید ترین اسپتالوں میں مسلسل زیر علاج رہے۔ اب تو مبینہ طور پر، اِسی بیماری کی بنیاد پر، آئی سی یو میں داخل ہیں۔ جب وہ لندن میں پہلی بار اسپتال میں داخل ہُوئے تو یہ خبر آئی تھی کہ اُن کا اعصابی نظام بُری طرح سے متاثر ہُوا ہے۔
ا ب تو جنرل صاحب کے خاندانی ذرایع بھی مبینہ طور پر کہہ رہے ہیں کہ اُن کے جسم کے کئی اندرونی اعضا (Organs) درست کام نہیں کررہے اور یہ بھی کہ ان اعضا کی صحت مندی کے کم کم امکانات ہیں ۔
جنرل (ر) پرویز مشرف، اپنے کئی فیصلوں کے کارن پاکستان میں متنازع بن چکے ہیں ۔ اُن کا نو، ساڑھے نو سالہ اقتدار وطنِ عزیز اور پاکستانیوں کے لیے بوجوہ مستحسن نہیں گردانا جاتا۔ اب وہ مبینہ طور پر شدید بیمار ہیں اور دیارِ غیر میں مقیم ہیں تو ہمارے ہاں یہ بحث زوروں سے چھڑ گئی ہے کہ کیا پرویز مشرف کوپاکستان واپس آنا چاہیے تاکہ وہ بقیہ زندگی کے آخری ایام اپنے وطن میں گزار سکیں؟ کئی اطراف سے اس تجویز کی حمایت کی جارہی ہے اور کئی اطراف سے اس کی سخت مخالفت۔ حمایت اور مخالفت کی یہ جنگ اور بحث صرف سوشل میڈیا پر جاری ہے۔
پاکستان کا مین اسٹریم میڈیا ابھی اس بحث میں نہیں کودا ہے۔اِس سلسلے میں سب سے پہلے وزیر دفاع، جناب خواجہ آصف، نے (11جون کو( یوں ٹویٹ کیا: '' جنرل پرویز مشرف کو خرابیِ صحت کے پیشِ نظر وطن واپس آنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ ماضی کے واقعات کو اس سلسلے میں مانع نہیں ہونے دینا چاہیے۔ اللہ اُن کو صحت دے اور وہ عمر کے اِس حصے میں وقار کے ساتھ اپنا وقت گزار سکیں۔''
خواجہ محمد آصف صاحب نون لیگ کے مرکزی رہنما ہیں ۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ پرویز مشرف کے بارے میں ٹویٹ کرتے ہُوئے انھوں نے اپنی اعلیٰ ترین سیاسی قیادت سے مشورہ نہ کیا ہو ۔ یوں خواجہ صاحب کی مذکورہ ٹویٹ سے ہم یہ معنی اخذ کر سکتے ہیں کہ اُن کے پیغام میں سبھی نون لیگی قیادت کی مرضی ، منشا اور رضا شامل ہے۔
اِس بحثابحثی میں نون لیگ کے تاحیات قائد اور لندن میں مقیم سابق وزیر اعظم، جناب محمد نواز شریف، کی طرف سے بھی ایک ٹویٹ یوں سامنے آیا ہے: ''میری پرویز مشرف سے کوئی ذاتی دشمنی یا عناد نہیں ہے ۔نہیں چاہتا کہ اپنے پیاروں کے بارے میں جو صدمے مجھے سہنا پڑے ، وہ کسی اور کو بھی سہنا پڑیں۔ اُن (پرویز مشرف) کی صحت کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہُوں۔ وہ واپس آنا چاہیں تو حکومت سہولت فراہم کرے۔'' نواز شریف کی اس ٹویٹ کو تقریباً سبھی اخبارات نے بھی شایع کیا ہے۔
جنرل (ر)اور سابق آمر صدر پرویز مشرف کے دس سالہ دَورِ جبر میں نواز شریف ، اُن کے سارے خاندان اور اُن کے اقتدار کو ،مشرف کے ہاتھوں جو زیادتیاں اور صدمے سہنا پڑے تھے، نواز شریف نے اُن سب کا ذکر کیے بغیر اشارتاً سب کچھ کہہ دیا ہے۔ واقف کارانِ حالیہ تاریخ سے سبھی آگاہ ہیں۔ نواز شریف نے مگر انتقام اور بدلے کی آگ میں جلنے کے بجائے معافی ، عفو و درگزراور صبر کرنے کی راہ اختیار کرتے ہُوئے کھلے قلب و نظر کا مظاہرہ کیا ہے ، اس جذبے کی تحسین اور تعریف بھی کی جانی چاہیے لیکن نواز شریف کے اس بیان پر سخت تنقید بھی ہو رہی ہے ۔
نواز شریف نے جنرل (ر) پرویز مشرف کو وطن واپسی کی راہداری دے دی ہے تو نون لیگ کی باقی قیادت، اس ضمن میں، پیچھے کیوں رہتی ؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ فوری طور پر خواجہ آصف نے بھی نواز شریف کی مذکورہ ٹویٹ کی تعریف کی ہے ۔ اُن کی دیکھا دیکھی سابق نون لیگی وزیر اعظم، شاہد خاقان عباسی صاحب ، نے بھی اپنی ٹویٹ میں کہا: '' نواز شریف نے پرویز مشرف کے حوالے سے آج جو بیان دیا ہے، وہ اُن کے بڑے اور نرم دل ہونے کی دلیل ہے ۔'' اِس ضمن میںکئی دیگر نون لیگی رہنما بھی نواز شریف کے ہمنوا بن گئے ہیں۔
جب نواز شریف نے پرویز مشرف کی وطن واپسی کی راہیں کشادہ کر دی ہیں تو وزیراعظم جناب شہباز شریف کو بھلا کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ حکومت میں شامل بقیہ سیاسی جماعتوں کی قیادت، اس ضمن میں، مہر بہ لب ہے۔
البتہ جے یو آئی (ایف) اور پیپلز پارٹی کے دو سینیٹرز نے پرویز مشرف کی یوں آمد کی مخالفت کی ہے۔ سابق وزیر اعظم ، یوسف رضا گیلانی، نے سینیٹ کے فلور پر کھڑے ہو کر طنزاً کہا ہے :'' جب پرویز مشرف باہر جا رہے تھے ہم اُن کو روک نہ سکے اور اب جب وہ واپس آنا چاہتے ہیں تو ہم کہاں روک سکتے ہیں؟۔'' ایسے میں ڈی جی آئی ایس پی آر، میجر جنرل بابر افتخار صاحب، نے ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہُوئے کہا ہے : '' آرمی لیڈر شپ کا موقف ہے کہ سابق آرمی چیف کو واپس آنا چاہیے۔'' اس واضح اور مستحکم بیان کے بعد کسی دوسرے بیان کی گنجائش کہاں رہ جاتی ہے؟