اس میں کسی کو کچھ کہنا ہے
ایک تو اتنا لمبا نام اور اس پر ہماری تنخواہوں کی بری حالت
لاہور:
یہ ان دنوں کی بات ہے جب اخباروں میں فلموں کے اشتہارات آیا کرتے تھے چنانچہ ہماری تنخواہوں کاانحصار بھی ان اشتہاروں پرہوتا تھا، اس لیے آپس میں ان پر تبصرہ بھی چلتا رہتا تھا، ایک دن ایک اردوفلم کا اشتہار آیا۔ نام تھا، ''اف اللہ ہم توکچھ کہہ بھی نہیں سکتے''۔
ایک تواتنا لمبا نام اوراس پر ہماری تنخواہوں کی بری حالت،چنانچہ اس اشتہارکوہم بھی دہراتے رہتے،اف اللہ ہم توکچھ کہہ بھی نہیں سکتے۔ نہ تو فلم ہم نے دیکھی تھی نہ اس کی کاسٹ اوربنانے والوں کاپتہ تھا لیکن اس کانام آج بھی ہمارے ذہن پرمسلط ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ہم کبھی اس مرحلے سے نکلے ہی نہیں کہ۔ اف اللہ ہم توکچھ کہہ بھی نہیں سکتے۔
ہرطرف کفن کش اوراس کے بیٹوں کاراج ہے اورہمارا حال ''مردے'' جیسا ہے اورمردہ اگربولنے کی طاقت پا بھی لے توصرف یہی کہہ سکتاہے کہ اف اللہ ہم توکچھ کہہ بھی نہیں سکتے۔
حالات میں تھوڑی سی تبدیلی یہ آئی ہے کہ پہلے ہم کچھ کہہ نہیں سکتے تھے اوراب کوئی ہمارا ''کہا'' سنتا ہی نہیں۔۔اف اللہ ہم توکچھ کہہ بھی نہیں سکتے۔
بلکہ حالت اب وہ ہوگئی جو شاید پہلے بھی ہم بتاچکے ہیں کہ پشاور کے قصہ خوانی بازارمیں کوئی لمبا تڑنگا پاگل نہ جانے کہاں سے آگیا، یقیناً سات فٹ سے تواس کا قد زیادہ تھا، وہ ایک لمباخرقہ نماملیشے کاکرتا پہنتا تھا جو ٹخنوں تک درازتھا، وہ کچھ بھی نہیں بولتا لیکن قصہ خوانی میں ہمہ وقت کہیں نہ کہیں موجود ہوتا تھا لیکن زیادہ وقت قصہ خوانی کے عین بیچ میں یادگارشہداء میں ان کے آس پاس ہوتا،یہ دویادگاریں ایک مسلم لیگ نے بنائی اور دوسری خدائی خدمت گاروں نے اورانھوں نے ان یادگاروں کوبھی اپنے رنگوں میں رنگا ہواہے، مسلم لیگ کی یادگار سبزاوردوسری کی سرخ ہے۔
دراصل بیچ میں ایک اورحقیقہ آگیاہے۔ ایک دن ہم اپنے ایک دیہاتی دوست کو سیرکروا رہے تھے،اسے ان یادگاروں کے بارے میں بتایا کہ انگریزوں کے وقت میں یہاں فائرنگ ہوئی تھی جس میں بہت سے لوگ شہید ہوگئے تھے، وہ دونوں یادگاروں کودیکھ رہا تھا۔ پھر بولا، یہ سرخ یادگارتو ان لوگوں کی ہوگی جنھیں گولی ماری گئی لیکن یہ سبز؟ کیاان کوزہردے کر ماراگیاتھا؟
ہم چپ رہے ہم ہنس دیے کہ بات میں کچھ ''بات'' توہے لیکن ہم اسے زیرلب بھی نہیں کہہ سکتے۔
ہونٹوں میں ساری بات میں دباکے چلی آئی
کھل جائے ایسی بات تودہائی ہے دہائی
چلیے پھر اپنے اصل موضوع پرلوٹتے ہیں، وہ لمباتڑنگا پاگل،جب موڈ میں ہوتا تو اکثر کہتا۔
'' کسی کوکچھ کہناہے۔''بخدا ہم نے نہ اس وقت ''اس میں''کچھ کہنے کی جرات کی تھی اورنہ آج کرسکتے ہیں حالاں کہ ہم تصور میں اس کی حرکت دیکھ سکتے ہیں لیکن اف اللہ ہم توکچھ کہہ بھی نہیں سکتے۔
آپ نے وہ بیانات پڑھے ہوں گے بلکہ پڑھ رہے ہوں گے جو شہید امریکا اوراس کے ماتم گساروں کی توپوں، بندوقوں اورکلاشن کوفوں سے نکل رہے ہیں۔نہیں چھوڑیں گے، انتقام لیں گے، غداروں کوکیفرکردار تک پہنچاکررہیں گے، امپورٹڈ کوایکسپورٹ کریں گے۔اب ایسے میں ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ اف اللہ ہم توکچھ کہہ بھی نہیں سکتے۔اگرکہنے کی جرات کربھی لیں تو اتنے بڑے ڈرموں، ڈھولوں اورنقاروں میں طوطی کوکس نے سناہے۔
بیوی نے شوہرکو پورا ہدایت نامہ ازبرکراتے ہوئے کہا، یہ بھی لانا، وہ بھی لانا،یہ بھی کرنا، وہ بھی کرنا۔شوہرنے درمیان میں اپنی منخنی آوازاٹھاتے ہوئے کہا، دیکھو! تم میری بات سنو۔اس پربیوی بھڑک گئی،دونوں ہاتھ کولہو پر رکھتے ہوئے بولی، میں نے آج تک تیری کوئی بات سنی ہے؟ شوہر نے کہا، نہیں۔ اس پربیوی بولی، توپھر آج کیوں سنوں۔
کتناعرصہ ہواہے بلکہ صدیاں گزرگئیں حکومت نے عوام کی کبھی سنی ہے ؟تم بولتے رہو، چیختے رہو،چلاتے رہو،گرانی ہے، منہگائی ہے، یہ ہے وہ ہے ،وہ آپس کی ''تقسیم قبور'' سے فارغ ہوں تو سنیں ۔
اسی لیے ہم بھی صرف یہ کہہ سکتے کہ اف اللہ ہم توکچھ کہہ بھی نہیں سکتے، اگر کوئی کچھ کہہ رہے ہوں تو ان کا مسلہ لیکن ہمیں تواس حال میں کچھ کہنے کایارانھیں ہے،
خود اپنے سے ملنے کا بھی یارانہ تھا مجھ میں
میں بھیڑمیں گم ہوگیا تنہائی کے ڈر سے