سوشل میڈیا کو نظرانداز نہ کریں
ہماری سیاست سوشل میڈیا کو بہت ہلکا لے رہی ہے
قارئین گرامی! ملک نہ جانے کن مراحل سے گزر رہا ہے نہ سیاسی حضرات کو معلوم ہے نہ قوم کو، سیاسی بے سری بانسری پر سب واہ واہ کرتے ہیں جس کی چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ ڈاکو حضرات جس طرح اس ملک میں خوشحالی کی زندگی گزار رہے ہیں کسی سرمائے کی ضرورت نہیں بغیر لائسنس چوری کی موٹر سائیکل اور پستول اس کاروبار کے لیے بس اس اثاثے کی ضرورت ہے۔
دن میں یہ ڈاکو حضرات 3 سے 4 موبائل اور نقد کیش تقریباً روزانہ ہزاروں روپے تک بڑے آرام سے چھین لیتے ہیں۔ مزاحمت پر آپ دنیا کا سفر بہت آسانی سے ختم کرکے اگلے جہاں چلے جاتے ہیں اور اگر زخمی ہوگئے تو پھر معذوری کی زندگی گزارتے ہیں مگر چاروں صوبوں میں کوئی پوچھنے والا نہیں، قانون بے فکری سے خراٹے لے رہا ہے اور جنھیں اس کا سدباب کرنا ہے وہ بہ حفاظت زندگی گزار رہے ہیں۔
اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ غم زدہ ہے جو کم اور غیر تعلیم یافتہ ہیں وہ کسی دانشمندانہ فیصلے کا انتظار کرتے رہتے ہیں نہ جانے مملکت خداداد میں یہ کیا ہو رہا ہے؟ کسی تحریر پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی مگر کب تک دل آزاری کا یہ سلسلہ یقینا ایک دن ختم ہوگا۔
چوروں کو گرفت میں لینا اور ان کا خاتمہ کرنا بہت مشکل کام نہیں ہے۔ بہت ہی آسان ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس پر توجہ کون دے، ازراہ مذاق نہیں اضطرابی کیفیت کے تحت اس کا حل بتا رہا ہوں اور قانون کے رکھوالے اسے دو دن میں نافذ کر سکتے ہیں اور نافذ ہونے کے بعد صرف 10 دن میں قوم کو اس ذلت سے نجات مل جائے گی اس کا دائرہ وسیع نہیں ہے اگر گزارشات پر عمل کیا جائے۔
میں نے پہلے بھی اپنے کالم میں لکھا تھا آج پھر لکھ رہا ہوں کہ P.R کے سیکشن اعلیٰ افسران کو کچھ بتاتے نہیں ہیں اگر ان کے ادارے سے منسلک خبر ہے تو سینئر افسران کو ضرور بتائیں ہمارے جو CSS افسران ہیں وہ بہت سوجھ بوجھ رکھتے ہیں مگر انھیں اندھیرے میں رکھا جاتا ہے وہ معاملات کو کیسے حل کریں گے انھیں پتا ہی نہیں ہوتا کہ شہر میں کتنے لوگ بے موت مارے جاتے ہیں اور کتنے زخمی ہوتے ہیں۔ راقم کے پاس ایک تجویز ہے اسے پڑھ لیں ہو سکتا ہے کہ اس کو پڑھنے کے بعد یا تو اسے نظر انداز کر دیا جائے گا یا پھر قانون کے رکھوالے اعلیٰ افسران اس پر عمل کرکے صرف 15 دن میں یہ ڈکیت اپنی موت آپ مر جائیں گے۔
ڈکیت گزشتہ دنوں راقم کی گاڑی کا شیشہ توڑ کر بیگ نکال کر لے گئے نماز مغرب ادا کرکے آیا تو یہ واردات ہو چکی تھی۔ بیگ میں موبائل تھا وہ بھی گیا، شیشہ جو توڑا تھا اس کی لگوائی کے 26000 ہزار دیے، تھانے میں رپورٹ کروائی تاکہ موبائل کا غلط استعمال نہ ہو سکے ، ہمارا موبائل جب چھن جاتا ہے لوگ گھر چلے جاتے ہیں وہ تھانے جانا پسند نہیں کرتے۔ قانون نافذ کرنیوالے افسران اس کا سدباب کریں لوگ تنگ آگئے ہیں اگر پولیس کا ایک شعبہ توجہ سے کام کرے تو اس داداگیری کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
ڈاکو موبائل کا ڈیٹا میموری کارڈ، تصاویر، وڈیوز کا غلط استعمال کرتے ہیں، ویڈیو میں ڈاکوؤں کی شکلیں واضح نظر آتی ہیں۔ آج سے تیس سال قبل پولیس ملزمان کو بغیر کسی ویڈیو کے 2 دن میں گرفتار کرلیتی تھی، ہزاروں اور لاکھوں کے موبائل انتہائی کم قیمت میں یہ ڈاکو فروخت کرتے ہیں اور پھر مزے کی بات دیکھیں ماہانہ ہزاروں روپے کماتے ہیں کہ ان کے لیے یہ معزز پیشہ ہے۔
اب اس کا سدباب کیسے کیا جائے میری ناقص رائے کے مطابق یہ کوئی بہت بڑا مسئلہ نہیں، قانون قدم تو بڑھائے موبائل کی قیمت 3 ہزار ہو یا ایک لاکھ، جب موبائل فروخت کرنے کوئی شہری موبائل مارکیٹ جائے تو اس پر سختی سے عمل کیا جائے (اصل رسید بائیومیٹرک ویری فکیشن) کے بغیر اس کی فروخت پر سختی سے پابندی ہونی چاہیے۔ یہ کام شہری نہیں کرسکتے قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی کرسکتے ہیں، اس کی خرید و فروخت کو اصولوں کے تحت ضابطے کی شکل دی جائے، موبائل رکھنے والوں کو بھی چاہیے کہ موبائل میں پاس ورڈ لاک لگا کر رکھیں، قانون کے اداروں سے قوم اب تحفظ چاہتی ہے کہ وہ تنگ آگئی ہے۔
ذرا آہستہ چل اے شہر کی ہوا
لوگ اکیلے ہوتے ہیں خونی ہوا ڈراتی ہے
(ن) لیگ کے سابق وزیر اعظم فرما رہے تھے کہ پچھلی حکومت نے کوئی اضافی گیس لائن نہیں بچھائی۔ ارے جناب! اب تو مملکت پر کراچی سے لے کر خیبر تک آپ کی حکومت ہے تو کیا آنے والی اگلی حکومت بھی یہ جملہ دہرائے گی کہ ماضی کی حکومت کوئی گیس لائن نہ بچھا سکی۔ اول تو آپ سابق وزیر اعظم رہ چکے ہیں، یہ کام آپ نے اپنے دور اقتدار میں کیوں نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے جس ہمدردی سے آپ نے یہ بیان دیا ہے غریب بہت خوش ہے کہ اس کی زندگی تو گیس کے علاوہ سلنڈر کی نذر ہو جاتی ہے، آپ بھرپور اکثریت سے عزت کی چٹان پر بیٹھے ہیں، احکامات صادر کیجیے اگر دن رات کام ہوا تو آنے والے الیکشن سے قبل یہ کام مکمل ہو جائے گا۔
ماضی کے صدر پاکستان نے بھی ایران کے ساتھ گیس کے حوالے سے معاہدہ کیا تھا بڑا شور تھا، خوشحالی کی طرف جب صدر صاحب چلے گئے تو پھر گیس کے چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ اس معاہدے کا کیا ہوا کچھ پتا نہیں، آنے والی حکومتیں پچھلی حکومت کی ناقص کارکردگی کا ٹوکرا اٹھا کر سر پر رکھتی ہیں، پھر آنے والے وزرا اور مشیر وزیر اعظم کے سر سے یہ وزن بہت خوبصورتی سے مل جل کر اتارتے ہیں پھر آنے والا وزیر اعظم سوچتا ہے کہ اب ان تلوں میں کتنا تیل ہے، برسر اقتدار طبقہ سے وابستہ ایک خاتون لیڈر فرما رہی تھیں کہ سابق وزیر اعظم وہ انقلاب جو گلی گلی سے نکالنا چاہ رہے تھے وہ آج اپنی ضمانتیں کرا رہا ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کو پاکستان لا کر ان کا علاج ہمدردی کے تحت یہاں کرایا جائے تو جناب اگر پرویز مشرف کے اہل خانہ نے اجازت دے دی تو پھر وہ پاکستان آ سکتے ہیں، سیاسی طور پر پاکستان میڈیکل میں اتنا ایڈوانس کب سے ہو گیا کہ ان کے علاج کا مشورہ پاکستان کے لیے دیا جا رہا ہے۔ سابقہ قیادت کا دل بگڑ جائے تو اس کو سمیٹنے کے لیے لندن کا رخ کرتی تھی یہ ایک بہت زبردست سیاسی بیان ہے اور اس بیان کے تحت پھر تو کوئی بھی پاکستان آسکتا ہے۔ بات بہت گہری ہے ایڈیٹوریل کا کالم اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات پڑھتے ہیں وہ اس بیان کو پڑھنے کے بعد ساری بات سمجھ جائیں گے بس اتنا کافی ہے۔ وفاقی وزیر فرما رہے تھے کہ ایک ڈیڑھ ماہ مشکل گزریں گے پھر آسانیاں ہوں گی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اشرافیہ اس کے لیے کتنی قربانی دے گی محترم اس پر بھی روشنی ڈالیں کہ اشرافیہ کے لیے مفت سہولت اور عوام کو کولہو کا بیل بننے کا سبق پڑھایا جا رہا ہے جو عوام سے مذاق کے علاوہ کچھ نہیں۔ سوشل میڈیا تو بار بار کہہ رہا ہے کہ مراعات یافتہ طبقہ پہلے اپنی مراعات کے خاتمے کا دروازہ خود کھولے قوم قربانی دینے کو تیار ہے اب تو مڈل کلاس طبقہ بھی غربت کی دہلیز پر قدم رکھ چکا ہے۔ ہماری سیاست سوشل میڈیا کو بہت ہلکا لے رہی ہے وہ اسے غور سے دیکھا کریں پھر بیانات دیا کریں۔