ایک چانس اور
قومی سلامتی پالیسی منظورہوچکی ہے اور طے پاچکا ہے کہ جو جیسا کرے گا اسے ویسی ہی کھانی پڑے گی
قومی سلامتی پالیسی منظورہوچکی ہے اور طے پاچکا ہے کہ جو جیسا کرے گا اسے ویسی ہی کھانی پڑے گی۔ اس پورے عرصے پاکستان کی سرزمین پر ظالمانہ وارداتوں میں ضایع ہونے والی ہزاروں جانیں انسان بیزار عناصر کے ٹیگ تلے ریکارڈ پر موجود ہیں۔ یہ جانیں کن لوگوں کی تھیں اب وہ لوگ جو ان وارداتوں میں بچ کر بقیہ زندگی اندھیرے خوابوں میں بسر کر رہے ہیں کیا مستقبل میں نارمل لائف گزار سکیں گے۔ کیا ہمارے ملک میں ایسے لوگوں کی زندگی کو پھر سے زندہ رکھنے اور ایک معمول کی زندگی گزارنے کے لیے مواقعے حاصل ہیں؟ یہ ایک بہت بڑا اور مشکل سوال ہے جس کا جواب ہے نہیں۔۔۔۔پاکستان جیسے قرضوں میں پھنسے بیرونی آزمائشوں میں جکڑے اندرونی خلفشاروں سے اٹے ملک کے لیے یہ سب کچھ تعیشات ہی ظاہر ہوتی ہے کیونکہ مہنگائی کے اونچے گراف نے اب بات دو وقت کی روٹی تک محدود کردی ہے۔
ہمارا ملک ان دنوں زبانی کلامی نہیں بلکہ واقعی نازک دور سے گزر رہا ہے لیکن ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا جب پاکستان کے نقشے پر شامل بہت سے مقامات کو دوسرے ممالک میں شامل دکھایا گیا تھا۔ نجانے یہ کس دیوانے کا خواب تھا پر وہ دیوانے ہماری طرح پلکوں پر خواب نہیں بنتے باقاعدہ فریم ورک اور پلاننگ کے بعد خوابوں کو حقیقتوں تک پہنچنے کا ٹائم پیریڈ بھی مقرر کرتے ہیں۔ پاکستان کو نہایت معذرت کے ساتھ زندہ لاش بنانے کا خواب تو شاید کبھی بھی مکمل نہ ہوسکے اس لیے کہ اس ملک کے نام کے ساتھ پاک کا لفظ جڑا ہوا ہے یہ آنے والی نسلوں کو جب تک کرہ زمین موجود ہے یاد دلاتا رہے گا کہ یہ ملک بڑی قربانیوں کے بعد لاکھوں جانوں کا نذرانہ دے کر حاصل کیا گیا ہے۔ اور اس کے بانی حضرات بھی اپنے قول و فعل میں کھرے تھے جو اپنے ملک سے ایک آنہ بھی زائد وصول کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے ۔خود قائد اعظم محمد علی جناح سرکاری خزانے سے علامتی طور پر ایک روپیہ تنخواہ وصول کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا ''پیسے کا ضیاع گناہ ہے اور اگر سرمایہ سرکاری خزانے کا ہے تو اسے ضایع کرنا بدترین گناہ ہے۔''
افسوس صد افسوس آج ہمارے قائدین گناہ ثواب کے جھنجھٹ سے دور ہی رہنا چاہتے ہیں، ہاں اگر عوام سے چندہ وصولی کرنا ہے تو ابھی دیکھیے دھڑا دھڑ مختلف بینکوں میں اکاؤنٹ کھل جائیں گے کہ آئیے اپنے پیسوں سے حکام اور خداکو خوش کیجیے اور بے چارے عوام اپنے مذہبی جذبے سے سرشار ہوکر اس عمل سے گزر جاتے ہیں ورنہ انگلیاں ٹیڑھی کرکے بھی لوگوں کو گھی نکالنا آتا ہے خیر اب جانے بھی دیں کہ ''عادت سی ہوگئی ہے تیرے درد سہنے کی''
جب (ن)لیگ کی حکومت آئی تھی تو بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ یہی بہتر ہے لیکن اس بات کا اندازہ کم ہی تھا کہ پچھلی حکومت گزرنے کا پانچ سال انتظار کرنے والے بہت دور کی کوڑی لانے کے منتظر ہیں اور اب یہ تخت سرکار کس کے سپرد ہے اب کیا کیا قلم زد کریں۔
سعودی شہزادے پاکستان آئے تھے تو یہاں بہت سے حواریوں کے منہ کھلے تھے کہ اب نجانے کیا کیا ملے گا لیکن خواہشات کا تو سمندر ہے جو بھرتا ہی نہیں چاہے تخت کوئی بھی ہو اگر اس پر بیٹھنے والا عدل کا دامن پکڑے گا تو اسے کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ مجھے اس وقت قائد اعظم کا مذہبی حوالے سے ایک نامور پاکستانی مورخ ڈاکٹر صفدر محمود کی تحریر یاد آرہی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ قائد اعظم کا مذہبی حوالے سے لچکدار رویہ اپنے ایمان پر کمزوری نہیں بلکہ مسلمانوں کا عملی کاہلی کی بدولت تھا جیساکہ جون 1948 میں جنرل اکبر خان نے قائد اعظم کو تجویز دی کہ شراب قرآن میں حرام ہے لہٰذا فوجی یونٹوں میں اس پر پابندی ہونی چاہیے قائد اعظم نے فرمایا:
''کیا تم سمجھتے ہو کہ قائد اعظم کا حکم قرآن مجید کے احکامات سے زیادہ موثر ہوگا، ہرگز نہیں، جو لوگ قرآن مجید کے احکامات پر عمل نہیں کرتے وہ قائد اعظم کے احکامات پر عمل پیرا نہیں ہوں گے' جنرل اکبر کے مطابق قائد اعظم نے فوج کے یونٹوں میں شراب پینے پر پابندی کا حکم جاری کردیا۔''
یہ وہی پاکستان ہے جس کے پارلیمنٹ کی لاجز میں شراب و سرور کی محفلوں کی داستانیں بیان کی جا رہی ہے چرس و افیون کی خوشبوؤں کا چرچا ہو رہا ہے دستی صاحب پر جرم بھی عاید کردیا جائے تو اخبار میں چھپی ان تصاویر کا کیا کریں گے جہاں ہمارے ایک منتخب شدہ رکن پارلیمنٹ کی سرکاری قیام گاہ کے باہر کئی شراب کی بوتلیں پڑی عوام کا منہ چڑا رہی ہیں۔ ہاں یہی ہیں پاکستان کے حکومتی نمایندے جو اپنی جیبوں میں عوام کی درخواستیں اور عرضیاں نہیں شادی اور محبت کے نامے لیے پھرتے ہیں۔ چلیے شادی کرنا قانوناً اور مذہباً جرم نہیں ہے پر خدا کے بندو جہاں تک جرم ہے اس سے تو بچو۔۔۔۔ہم کیسے اس پاکستان کی نمایندگی کرنے والوں کو اس بات کا اختیار دیں کہ انھیں اعلیٰ ترین مقام دے کر اپنے ہی مذہب کی دھجیاں بکھیرنے دیں، اخلاقیات کے اسباق ریزہ ریزہ کردیں۔ عیاشی، منافقت، اقربا پروری اور شرافتی غنڈوں کی اس بھیڑ میں کون سے ان سفید پاکیزہ ہاتھوں کو تلاش کریں جس کے سپرد اپنے ملک کا آئین کریں؟بقول قتیل شفائی
ہم کو تو انتطار سحر بھی قبول ہے
لیکن شب فراق ترا کیا اصول ہے
ہم دھڑلے سے حضرت عمر فاروقؓ جیسے حاکم کا ذکر تو کرتے ہیں جن کی مثالیں اعلیٰ درجوں کی ہیں۔ اجی وہ تو جنتی ہیں ہم آج کی اس دنیا کے بستے کچھ زیادہ دور نہیں ساٹھ پینسٹھ برس پہلے کے لیاقت علی خان کو ہی یاد کرلیں جنھوں نے جام شہادت نوش کیا تو آخری الفاظ ''خدا پاکستان کی حفاظت کرے'' یہ تھے آج کے لیڈروں کے لیے ایک مثال۔ لیکن نہیں آج تو اپنے پیر مضبوط کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں ہم پاکستانی قوم اتھلے پانیوں پر کھڑے ہیں ہم نے خود اپنی ناعاقبت اندیشی سے اپنے گرد ناپسندیدگی اور کمزوری کی فصلیں کھڑی کردیں ۔ خدارا امریکا اور اسرائیل کو کوسنا بند کردیں پہلے اپنے اندر اپنی ذات میں ایک اچھا اور عادل انسان ڈھونڈیں ایک بار ہمت کرکے قدم اٹھائیے پھر دیکھیے اس باری تعالیٰ کی رحمتیں کیسے برستی ہیں۔ فروری کا مہینہ بہت مبارک تھا بہرحال اوپر والے کی رضا اب بھی وقت ہے ہاتھی والوں کے کھیل کا رخ بدل رہا ہے اور اگر اب بھی آپ نہ بدلے تو۔۔۔۔؟