زباں فہمی نعت کے ایک شعر کی تفہیم
نعت (سے متعلق کسی مضمون) پر تنقید نہیں ہوسکتی، یہ تو محض عقیدت کا معاملہ ہے
نعت کے ایک شعر کی تفہیم ۔ فوٹو : فائل
زباں فہمی144
برادرم صابرؔ جوہری نے بھدوہی (ہندوستان) سے گزشتہ دنوں، واٹس ایپ پر، ایک نعتیہ شعر ارسال فرمایا جو ایک اچھی علمی بحث کا باعث بن گیا۔ ہمارے بزرگ معاصر محترم جمیل الدین عالیؔ مرحوم زندہ ہوتے تو اس انوکھی بحث کا مطالعہ کرنے کے بعد، اپنے اس دیرینہ خیال سے رجوع کرلیتے کہ ''نعت (سے متعلق کسی مضمون) پر تنقید نہیں ہوسکتی، یہ تو محض عقیدت کا معاملہ ہے''۔ (عزیزم صبیح رحمانی اور محترم عزیز احسن جیسے صاحبان کی اس باب میں مسلسل مساعی بہرحال اپنی جگہ مقدم ہیں)۔ صابرؔ صاحب کے شعر کی ابتدائی شکل یہ تھی:
میری گردن میں ہے عشق شہ دیں (ﷺ) کی زنجیر
فخر کرتا ہوں مَیں خود اَپنی گرفتاری پر
خاکسار نے حسب ِ عادت (اور اس حقیقت کے پیش نظر کہ صابرؔ صاحب مجھے بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ہمیشہ میری رائے صائب سمجھ کر اِصلاح کر گزرتے ہیں)، ان سے بعد سلام عرض کیا: ''بھائی! گردن میں زنجیر سے زیادہ طوق، فصیح ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ ممکن ہو تو اِس پر نظرِثانی فرمائیں''۔ فقط اٹھارہ منٹ بعد، اس مشّاق سخنور نے شعر میں تبدیلی کرکے یوں کردیا:
میری گردن میں ہے عشق شہ کونین کا طوق
فخر کرتا ہوں مَیں خود اَپنی گرفتاری پر
بات شاید یہیں ختم ہوجاتی، مگر پھر خیال آیا کہ دیگر احباب سے بھی رائے لی جائے۔ میں نے یہ معاملہ اپنے بعض معاصرین (بشمول اراکین واٹس ایپ بزم زباں فہمی و بزم تحقیق بَرریختہ) کے سامنے رکھا، توقع سے بڑھ کر اظہار خیال دیکھنے اور سننے کو ملا۔
دیوبند، ہندوستان سے تعلق رکھنے والے ممتاز شاعرعبدالرحمٰن سیف (مشہور دیوبندی عالم جناب عامر قاسمی کے پوتے) نے تائید کرتے ہوئے کہا کہ ''صحیح کہا آپ نے، زنجیر پائوں کے ساتھ موزوں ہے، طوق گلے کے ساتھ''۔ دوسری تائید معروف شاعرہ محترمہ وضاحت نسیم نے کی۔ انھوں نے فرمایاکہ ''زنجیر یا طوق سزا کے طور پر گلے میں یا پائوں میں ڈالی جاتی ہے۔ عشق شہ دین، سزا نہیں ہے۔
عشق شہ دین تو سرشاری کی وہ کیفیت ہے جس کے لیے انسان، ازل سے کوشاں ہے اور ابد تک رہے گا۔ ذرا زنجیر اور طوق پر نظرثانی کریں''۔ یہ تائید دیکھتے ہوئے عبدالرحمٰن سیف گویا ہوئے:''یہی میں سوچ رہا تھا، عشق شہ دیں، سزا نہیں، انعام ہے اور انعام میں زنجیر نہیں پہنائی جاتی ''۔ ایسے میں ایک اور تائیدی رائے بھی مل گئی۔ مشہور طنز نگار، افسانچہ نگار اور فروغ اردو کے حامی محترم سلیم فاروقی نے کہا کہ''محترمہ وضاحت نسیم کی صائب رائے کے بعد، زنجیر یا طوق کی جگہ سودا استعمال کرکے دیکھیں''۔ اب خاکسار نے عبدالرحمٰن سیف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ''چونکہ آپ کا، بہرحال، ایک دینی حوالہ بھی ہے، اس لیے آپ سمیت وہ تمام احباب جو نعت گو بھی ہیں، وہ توجہ کریںکہ کیا ہم محض لسانی بنیاد پر بحث کریں یا ہم عقیدت کا عنصر بھی شامل رکھیں۔ دونوں پہلوئوں سے بحث ہوسکتی ہے، منفی اور مثبت۔ اسے لیا جائے یا نہ لیا جائے''۔
عبدالرحمٰن سیف کا جواب تھا:''سہیل صاحب! مسئلہ یہ ہے کہ صرف لسانی پہلو سے نثر کے کسی جملے پر تو بات کی جاسکتی ہے کہ چلیے اس میں لکھنے والا، زبان دانی کا مظاہرہ کررہا ہے، لسانیات پر اُس کی زیادہ توجہ ہے، اس لیے اس نے معانی کو پس پشت ڈال دیا، لیکن نظم کے اندر، نعت ہو، غزل ہو، کوئی مصرع ہو، شعر ہو، رباعی ہو، کچھ بھی ہو، کیونکہ اس میں تو، شاعری میں تو معنویت ہی زیادہ معنی رکھتی ہے کہ شاعر کہنا کیا چاہتا ہے۔ اسی لیے بہت سے ایسے اشعار ہوتے ہیں کہ لسانی اعتبار سے، تھوڑے سے ہلکے بھی ہوجاتے ہیں، لیکن معنویت اُن کو اُچھال دیتی ہے اور وہ اُٹھا کر لے جاتی ہے۔
اُس میں جو غضب کی معنویت ہوتی ہے۔ اور وہی شعر اُوپر جاتا ہے، جب یہ سمجھ میں آجائے کہ شاعر کہنا کیا چاہتا ہے۔ اس لیے اس کو صرف لسانی پہلو سے تو نہیں تولا جاسکتا، دونوں پہلو اِس کے رہیں گے اور شاعری میں یہی خوبی ہوتی ہے کہ وہ دونوں پہلو پہ، دونوں پہلو کے پہیوں پر چلتی ہے۔ صرف ایک پہلو کے پہیے پر تو نثر کا کوئی جملہ چلایا جاسکتا ہے، شاعری کا کوئی شعر نہیں۔ اور رہ گئی یہ بات اس کے مفہوم کی تو حقیقتاً اُن محترمہ کی رائے بالکل صحیح ہے۔ جب میں نے پڑھا، آپ کے جواب دینے کے بعد تو میں خود یہ سوچ رہا تھا کہ یہ عشق شہ دیں جو ہے، یہ تو انعام ہے، اللہ تعالیٰ جس کو (چاہے) عطا کردے...اپنے نبی (ﷺ) سے عشق...تو یہ تو اُس کی زندگی کا سرمایہ ہے اور انعام میں جو ہے، نا تو زنجیر پہنی جاتی ہے، نہ گلے میں طوق ڈالا جاتا ہے۔ یہ تو خیر سامنے کی بات ہے۔ یہ تو تعزیر اور سزا ہوتی ہے۔
تو اس لیے جو شاعر صاحب ہیں، جن کا بھی یہ شعر ہے، اُن کو بدلنا چاہیے۔ اگر اُنھوں نے آج ہی کہا ہے اور وہ اِس پر غورکر رہے ہیں تو اسے بدل سکتے ہیں۔ ہاں پہلے، کوئی شعر، پرانا ہے، چھپ چکا، پھیل چکا (ہے) پھر تو کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن اس میں پھر چیک بھی کرلیں تو بہتر ہے۔ تو اس معنی پر، جو اُن صاحبہ کی رائے ہے وہ ترجیح رکھتی ہے، ہر بات پہ۔ یہ شعر پر مہر لگ گئی''۔
خاکسار کا جواب الجواب ملاحظہ فرمائیں: ''بہت ہی مستحسن رائے ہے، میں تائید کرتا ہوں، مگر میرے ذہن میں ، اصل میں، پہلو بہ پہلو ایک اور سوال، ایک خیال اُبھرا۔ وہ یہ ہے کہ ہماری جتنی نعتیہ شاعری ہے، اُسے ذہن میں رکھتے ہوئے، کیا ہمارے یہاں یہ مضمون باندھا نہیں گیا، متعدد بار کہ ہم اس غلامی کو شوق سے قبول کرتے ہیں۔ انعام ہونا تو بہرحال، اس میں کوئی دورائے نہیں، مگر جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم اس غلامی کو بصد شوق قبول کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ اسے قبول کرنے کے سوا تو ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں، تو کیا یہ پہلو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم، اِسے باندھیں، طوق کو؟ کیونکہ مُثبَت اور منفی والا معاملہ بہرحال اپنی جگہ ہی رہے گا۔
اور یہ آپ کی بات بالکل صحیح ہے کہ معنویت کے بغیر شاعری نہیں ہوسکتی''۔ ایسے میں ہمارے بزرگ معاصر، معتبر شاعرونقادمحترم زاہد حسین زاہدؔ جوہری نے ارشاد فرمایا:''دیکھیے طوق کا قرینہ غلامی سے قریب ہے، گرفتاری سے نہیں۔ ویسے بھی طوق عموماً غلامی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، گرفتاری کے لیے زنجیر استعمال کی جاتی ہے''۔ قدرے توقف کے بعد زاہدؔ صاحب نے مزید ارشاد فرمایا:''....یار سہیل صاحب! معاف کیجئے گا، جو بھی گفتگو ہورہی ہے، ہوئی ہے، اس میں، مجھے لگتا ہے کہ آپ بے چارے شاعر کو رِوایتی مفہوم کے اندر قید کرکے رکھ دینا چاہتے ہیں۔ آپ دیکھیں، 'خودزنجیری' جو ہوتی ہے، وہ عشق کے ذیل میں ہوتی ہے۔ وہ سزا کے طور پر نہیں ہوتی۔
ایک خودزنجیری ہوتی ہے اور ایک دوسرے آدمی کا (یا اُس کی طرف سے) زنجیر کردینا ہوتا ہے۔ ان دونوں میں فرق ہوتا ہے۔ آپ شعر کو دوبارہ دیکھیے، وہ خودزنجیری کی علامت ہے جو بات وہ کہہ رہا ہے۔ جب آدمی خودزنجیر کرتا ہے (یعنی پہنتا ہے) تو وہ عشق کی ذیل میں آتا ہے۔ اس لیے وہ کہتا ہے کہ میں نے خود کو گرفتار کیا ہے اور میں خوش ہوں اس پر۔ اس لحاظ سے شعر کو اُسی معنی میں رہنے دیجئے۔ میں نے آپ سے صرف طوق اور زنجیر کے حوالے سے بات کی تھی کہ اگر گرفتاری کی بجائے غلامی کا لفظ استعمال ہوتا تو ہم طوق کو ترجیح دیتے، مگر چونکہ گرفتاری کا لفظ استعمال ہوا تو وہاں پر زنجیر کا لفظ زیادہ مناسب رہے گا۔ باقی (رہی یہ بات تو) وہ شعر عشق رسول (ﷺ) میں ڈوب کر کہا گیا ہے اور اس کے اندر (اس میں) نہ کوئی مسئلہ پیدا ہورہا ہے نہ کوئی تعزیر کا عنصر آرہا ہے، بلکہ اس میں شاعر کا شوق موجود ہے کہ وہ خود کو زنجیر کرکے بیٹھا ہوا ہے عشق رسول میں''۔
خاکسار:''ماشاء اللہ، بہت صائب رائے ہے آپ کی۔ میں ابھی تک اس ساری گفتگو میں شاعر کو شامل نہیں کررہا ہوں، کیونکہ یہ بحث بہ یک وقت دو، واٹس ایپ حلقوں میں جاری ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کبھی اس موضوع پر فرصت سے کبھی لکھوں''۔
عبدالرحمن سیف: ''جی آپ کی بات صحیح ہے۔ غلامی رہی ہے، اسی لیے نام بھی رکھا جاتا ہے، غلام مصطفی۔ مگر غلامی کسی طرح سے (ان معنوں میں) شمار نہیں کی جاتی، جیسا کہ زاہدحسینؔ صاحب کی رائے ہے، زنجیریں اور طوق وغیرہ۔ طوق وغیرہ اُنھی غلاموں کے گلے میں ڈالا جاتا ہے جن کے بھاگنے کا امکان ہو۔ نعت میں جو غلام ہوتا ہے یعنی غلام مصطفی، وہ اپنے آقا کی خدمت میں لگا رہتا ہے، اُن کی بات مانتا ہے اور سب کچھ، حتیٰ کہ اپنی جان نچھاور کردیتا ہے۔ وہ غلام (حقیقی) ہوتا ہے۔ اور ایسا غلام بننے کے لیے تو ہر کسی کو تیار رہنا چاہیے۔ وہ غلامی سعادت ہے۔ اللہ پاک ہمیں بھی ایسا غلام بنادے، ہمارے نبی (ﷺ) کا، کہ ہماری زندگی صرف اور صرف، اپنے آقا کے قدموں میں گزرنے کی خواہاں ہوجائے۔ وہ غلامی ہوتی ہے۔ جب غلام ہر وقت حاضر ہے، اُس کی خدمت کے لیے، اُس کے ہر حکم کی بجاآوری کے لیے، تو پھر اُسے نہ طوق کی ضرورت ہے نہ زنجیر کی......طوق غلام بنانے کے لیے نہیں ڈالا جاتا، بلکہ غلام کو بھاگنے سے روکنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ طوق اور زنجیر، دونوں اچھی چیزیں نہیں۔ غلامی اچھی ہے، ان معنوں میں جب آپ نبی (ﷺ) کے غلام ہوں، یا ماں باپ کے غلام ہوں، کسی بڑے کے غلام ہوں، تو وہاں غلامی اچھی چیز بن جاتی ہے۔
لیکن وہی غلامی اگر شیطان کی، نفس کی، دنیا کی ہونے لگے تو وہ خراب چیز بن جاتی ہے۔ میرے نزدیک یہ توجیہ درست نہیں کہ طوق گلے کے لیے اور زنجیر پیروں کے لیے، کیونکہ دونوں گرفتاری کے لیے ڈالے جاتے ہیں، وہ تو یہ ہے کہ زنجیر بنی پیروں کے لیے ہے، جیسے ہتھکڑی ہاتھوں میں، اُس کی Shape ہی ایسی ہے۔ اگر کوئی ہتھکڑی پیروں میں ڈال دے تو اُسے ہتھکڑی نہیں کہا جائے گا، اُسے زنجیر ہی کہا جائے گا، بھلے ہی وہ ہتھکڑی کی Shape کی زنجیر ہو۔ کوئی یہ نہیں کہے گا کہ اُس (فُلاں) کے پیروں میں ہتھکڑی ڈال دی گئی (بلکہ یہ کہے گا کہ) اُس کے پیروں میں بیڑیاں ڈال دی گئیں۔ وہی چیز جب پیروں میں آئے گی تو بیڑی بن جائے گی، ہاتھوں میں آئے گی تو ہتھکڑی، گلے میں آئے گی تو طوق بن جائے گی۔ تینوں چیزیں ہیں اسی قبیل کی اور تینوں کا کام یہی ہے کہ اس قیدی، غلام کو ، بھاگنے سے روکا جائے۔ نبی کی غلامی سے کوئی بھاگتا ہے نہیں، نہ وہاں زنجیر کام آئے گی، نہ بیڑی نہ طوق''۔
بزرگ ادیب، براڈ کاسٹر ڈاکٹر فرید اللہ صدیقی صاحب نے بحث میں یہ کہہ کرحصہ لیا: ''دونوں کا تعلق گلے سے ہے۔ پرانے زمانے میں، قیدیوں کو، زنجیر گلے میں ڈال کر، کھینچا جاتا تھا۔ جب کوئی شخص اپنے طور پر، اپنی کسی نافرمانی، کسی کم ظرفی کی بناء پر کوئی مصیبت اپنے گلے ڈال لے تو کہا جاتا ہے کہ اُس نے اپنے طور پر طوق پہن لیا، کسی اور نے سزا کے طور پر نہیں پہنایا''۔
خاکسار: ''مجھے ڈاکٹر صاحب کے صوتی پیغام سے یاد آیا کہ طوق کی طرح، زنجیر [Chain] بھی گلے کا ایک زیور ہے جو خواتین اور مردوں دونوں ہی میں رائج رہا ہے''۔
ٓمشہور شاعرہ آمنہ عالم صاحبہ نے یوں اظہارخیال فرمایا: ''اس شعر پر مختلف افراد نے اپنی اپنی رائے پیش کی۔ اس میں ہم بھی شریک ہوکر کچھ عرض کرنے کی جسارت کریں گے۔ لفظ طوق پر کچھ قابل قدر ہستیوں کو اعتراض ہے۔ طوق کیا ہے؟ طوق گلے میں پہنا جانے والا ایک موٹا، کڑے نما، زیور ہے۔ ہماری ساس اماں اپنی شادی کے زیورات کا ذکر کرتے وقت، بہت فخر سے، ہمیشہ چاندی کے طوق کا ذکر بھی کیا کرتی تھیں۔گویا یہ تو طے ہے کہ طوق سزا کے طور پر نہیں، بطور آرائش کے، گلے میں پہنا جانے والا زیور ہے اور اگر ہم اس لفظ کو بطور کسی کی غلامی کی نشانی کے لیتے ہیں تو پھریہ وہ علامت ہے جو اُس مالک کی پہچان کے لیے پہنائی جاتی ہے جس کا یہ غلام ہے۔
ماضی کی تصاویر میں، افریقہ میں اس زیور کا استعمال مردوں میں بھی نظر آتا ہے اور شاید اب بھی ہو۔ اگر طوق کو ہم بطور علامت کے لیں تو یہ وہ حلیہ ہے جو کوئی عاشق اپنے محبوب کی پسند میں ڈھلنے کے لیے اختیار کرتا ہے۔ دنیا کی نظر میں وہ حالت اور وہ چیزیں کتنی ہی مضحکہ خیز ہوں لیکن عشق میں گرفتار شخص انہیں اختیار کرنا اپنا فرض عین اور مقصد حیات سمجھتا ہے۔ اس حوالے سے ہماری دانست میں یہ شعر سرشاری کا ایک عمدہ نعتیہ شعر کہا جانا چاہیے''۔ اب اس کے بعد یہ بحث کچھ اور رُخ اختیار کرگئی۔
یہاں رک کر خاکسار نے خیال ظاہر کیا کہ طوق شاید Pendant ہے، مگر محترمہ آمنہ عالم نے کہا کہ ''لاکٹ پینڈینٹ کو کہتے ہیں۔ طوق کڑے کی طرح کا موٹا، (اور) گردن میں پہنا جاتا ہے''۔ ہماری بزم زباں فہمی کے ایک اور معزز رُکن، ممتاز شاعر، ادیب محترم احمد صفی صاحب (فرزندِ مرحوم ابن صفی) نے (ایک Hairband کی ایک تصویر پیش کرتے ہوئے) یہ خیال ظاہر کیا:''پتلا بھی ہو سکتا ہے''۔ (تصویر پر مندرجہ عربی عبارت کا مفہوم یہ تھا: موتیوں سے سجا ہوا، سر کے بالوں پر باندھا جانے والا طوق)۔ آمنہ عالم صاحبہ نے تردید کرتے ہوئے کہا: ''یہ سر پر بالوں کو روکنے کے لیے لگایا جانے والا ہے۔
طوق پیچھے سے بند ہونے والا مکمل کرّہ ہوتا ہے۔ عربی میں ہر بینڈ، دائرے کی طرح گھومتی شکل، طوق ہی کہلاتی ہے سو اِس حوالے سے یہ ہیئر بینڈ، بالوں کا طوق ہے۔'' یہاں محترم احمدصفی نے وضاحت کی کہ ''تصویر چننے کی وجہ کیپشن (عنوان) تھا جو تصویر کے اوپر نظر آ رہا ہے۔ اسے دوبارہ پڑھیے''۔ اس کے جواب میں آمنہ عالم نے کہا کہ ''عربی میں ہر بینڈ، دائرے کی طرح گھومتی شکل طوق ہی کہلاتی ہے، سو اِس حوالے سے یہ ہیئر بینڈ، بالوں کا طوق ہے''۔ یہاں خاکسار نے برملا کہا کہ ''اب ہمیں طوق کی اقسام میں یہ اضافہ بھی معلوم ہوا۔ چہ خوب...موضوع کی پرتیں کھل کھل کر...کہاں جاپہنچیں''۔
آمنہ عالم نے یہ بھی کہا کہ ''اس خطے میں ایک زمانے میں ہر مکان کی دیوار میں چراغ رکھنے کے لیے، بنائے جانے والے، غالباً اوپر سے اسی طوق کی شکل کے باعث ہی طاق اور طاقچے کہلاتے تھے''۔ خاکسار کا جواب تھا:''نہیں، میں نے یہ توجیہ کسی لغت میں نہیں دیکھی''۔ محترمہ آمنہ عالم نے وضاحت کی کہ ''یہ لغوی نہیں، امکانی بات کہی گئی ہے'' تو پھر میں نے کہا کہ ''میں دیکھتا ہوں''۔ اس قیاس کی بہرحال تردید ہوگئی۔ اب آخر میں زیربحث اِن دونوں الفاظ کے معانی بھی دیکھتے چلیں:
فارسی الاصل، اسم مؤنث زَنْجِیر کے مفاہیم: لوہے کا سلسلہ، لوہے کی گُتھی ہوئی کڑیاں، کڑی، چاندی یا سونے، یا کسی اور دھات کے تاروں کی کڑیوں سے بنی ہوئی حلقہ در حلقہ لڑی، بیڑی پاؤں کی، ایک مالا جو عورتیں گلے میں پہنتی ہیں۔ اس کے مجازی معانی بھی کئی ایک ہیں۔ {فارسی لغات میں یہ الفاظ بھی شامل ہیں: زنجیرِ دَر: کُنڈی، دروازہ بند کرنے کی زنجیر، زنجیرفیِل: فیِل یعنی ہاتھی کے ساتھ، تعداد کے لیے، اسی طرح آتا ہے جیسے روپیہ کے ساتھ مُبلغ اور گھوڑے کے ساتھ رَاس، زنجیری: دیوانہ، قیدی}
عربی الاصل اسم مذکر طَوق کے معانی: گردن بَند، حلقہ، ہر ایک گول اور مدّور چیز، وہ بھاری حلقہ جو مجرموں یا دیوانوں کے گلے میں ڈالتے ہیں تاکہ اس کی وجہ سے گردن نہ اٹھاسکیں، پٹّا، چپراس، وہ گول نشان جو بعض پرندوں کے گلے میں قدرتی ہوتا ہے، منّت کا وہ گنڈا یا چاندی کا حلقہ یا ہنسلی جو بچوں کے گلے میں ڈالتے ہیں، گلوبَند، ہار، ایک قسم کا زیور۔