دنیا میں رہنا ہے…
ہم بحیثیت پاکستانی ایک ٹیکس چور قوم ہیں
ISLAMABAD:
آج پوری دنیا ایک نئے موڑ پر کھڑی ہے، دوسری جنگ عظیم کے بعد شاید ہی دنیا ایسی حالت سے دوچار ہوئی ہو۔ ابھی اندازہ تو نہیں لگایا جاسکتا کہ جنگ یوکرین تک محدود نہ رہے لیکن اگر پھیلی تو وہ ممالک جو گندم میں خود کفیل نہیں، وہ بھوک سے دوچار ہوں گی۔
ہم ایسے حالات کی بارڈر لائن پر کھڑے ہیں۔ ہمارے سامنے سری لنکا کی مثال ہے، سری لنکاکے شرفا اور ہمارے شرفاء کے خلیات میں بہت مماثلت ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ کہیں ایوانوں میں اس بات کا احساس اب بھی ابھرا ہو کہ یہ چیزیں ہائبرڈ جمہوریت وغیرہ سے نہیں چل پائیں گی۔
ہم بحیثیت پاکستانی ایک ٹیکس چور قوم ہیں۔ میں جس ریسٹورنٹ میں کھانا کھاتا ہوں، وہ سیلز ٹیکس کاٹتا ہے، لیکن کیا وہ یہ ٹیکس ایف بی آر میں جمع کراتا ہے؟ اگر وہ نہیں کراتا تو یہ کام ایف بی آر کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ اب تو یہ بھی خبر آئی ہے کہ لگ بھگ پانچ ہزار ارب کی ٹیکس چھوٹ دی تھی عمران خان نے ان پونے چاربرسوں میں اپنے من پسند امرا کے کاروبار کو۔
پاکستان میں سب ٹھیک تھا جب تک افغانستان کا بحران جنم نہیں لے چکا تھا، بھٹو صاحب کا معاشی پلان درست سمت بڑھ رہا تھا۔ پھر جہادی کلچر آیا ، جہادیوں کو ڈالر کا مزا لگ گیا۔ اس جنگ میں بہت سا ڈالر آیا کیونکہ ہم امریکا کی جنگ لڑ رہے تھے، سوویت یونین کے خلاف۔ سوویت یونین کی فوجیں افغانستان میں گھس آئی تھیں، جیسا کہ اب روس کی فوجیں یوکرین میں۔ مگر افغانستان کی جنگ بند نہ ہوسکی، وہ روپ بدلتی رہی، اس دوران پوری افغانی قوم در بدر اور تباہ ہوگئی، آدھی قوم پاکستان میں آباد ہوگئی، ایک ایسی قوم اور کلچر جہاں عورت کی کوئی حیثیت ہی نہیں، شاید ہی دنیا میں اتنی بدنصیب قوم اور کوئی عورت ہو۔ ہم نے اس جنگ کی دوران جناح اور ان کے افکار کو خیر باد کہہ دیا۔
ہمارے بیانیے نے یوٹرن لیا۔ ہم سمجھے ہم ہمیشہ جنگیں ہی لڑیں گے اور ان جنگوں کے لیے ہمیشہ امریکا ہمیں ڈالر بھیجتا رہے گا۔ ہماری معیشت ہی دوسروں کی جنگیں لڑنا تھی۔ ہر جنگ کو بیانیہ چاہیے ہوتا ہے۔ اکثر یہ بیانیہ دائیں بازو کی انتہا پرست سوچ کے گرد گھومتا ہے۔ اس چورن کو بیچنے والوں کی تو چاندی لگ گئی۔حیرت اس بات پر ہے کہ جب سعودی عرب ایسے بیانیے کو رد کر سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں؟
مہتاب راشدی صاحبہ، ضیاء الحق کے دور میں پی ٹی وی اینکر تھیں، ضیاء الحق نے یہ پابندی لگائی کہ وہ دوران پروگرام سر پر دو پٹہ اوڑھیں، مگر مہتاب راشدی نے پروگرام کرنا ہی چھوڑ دیا۔ آج سوچتا ہوں کہ میں نے خود بھی تو کتنی مشکلیں جھیلیں، کیونکہ اس مروجہ بیانیے کو نہیں مانا۔ لگ بھگ دس سال تک مختلف چینلز پر اینکر یا بحیثیت تجزیہ نگار بلایا گیا اور پھر کسی طرح قصہ میرے ارباب و فن کا ختم ہوا۔
فیض احمد فیض اور میرے والد کی طرح کئی لوگ تھے جو جنرل ضیاء الحق کے اس گھٹن والے دور میں خالق حقیقی سے جاملے، جنرل ضیاء الحق کو اقتدار لانے والوں نے ان کا C130 میں قصہ تمام کیا، لیکن یہ جنگ جنرل مشرف کے لیے بے حد مفید ثابت ہوئی، ریپبلکن نے امریکا کو اپنے بیانیے میں رنگ دیا، وہ بل کلنٹن جو صرف چند گھنٹوں کے لیے پاکستان آیا، اور جنرل مشرف کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کرنا بھی گوارہ نہ کی، وہ ہندوستان کے دورے پر سات دن تک رہا، مگر 9/11 کے واقعے نے پوری دنیا کو دائیں بازو کے پاپولر ازم میں جکڑ لیا، اور پھر ہمارے پاس ڈالر ہی ڈالر تھا۔ ہم نے خوب کھپایا یا پھر لٹایا۔ پہلے ہم مجاہد بنے اور مجاہد تیار کرنے لگے، پھر مجاہدوں کے خلاف ہوئے، پھر ہمیں اسٹرٹیجک Depth لائن کا بھی احساس تھا، اس لیے کچھ کے خلاف لڑے اور کچھ کو اچھا کہہ کر سینے سے لگائے رکھا۔ یوں کہیے کہ مسلسل جنگ کے چکر میں تھے۔ کراچی جو ایشیا کا عظیم کمرشل حب تھا، وہ لسانی جنگ کی نذر ہوا۔
سرمایہ دبئی شفٹ کوگیا۔ ہم داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر لڑتے رہے۔ جو مقبول لیڈر تھے وہ ضیاء الحق کے بیانیے کے فریم پر پورا نہیں اترتے تھے۔ ایسا ہوتے ہوتے بالاخر امریکا کو بھی سمجھ آیا کہ آمریت سے پاکستان میں انتہا پرستی بڑھتی ہے، نہیں بھولا تھا عمران خان بھی یہ سب، اس نے بھی ضیا ء الحق کے جیسا ہی کچھ انداز اپنایا مگر حالات وہ نہ تھے۔
چاہے وہ ان سے لڑے یا ان سے ملے ہوئے تھے۔ ہم کیسے چھوڑ سکتے تھے، وہ اثاثے جو جنرل ضیا الحق نے بنائے تھے اور افغان جہادسے جڑ ،اربوں روپے کا کاروبار، ہمارے مدرسے، ہندوستان کے لیے جو بیانیہ تشکیل دیا گیا تھا اور پھر افغانستان میں لڑنے کے لیے دائیں بازو کے پرانے بیانئے میں ترمیم کرکے اسے طالبانزیشن میں تبدیل کر دیا، وہ بیانیہ یہاں آمریتوں نے جمہوریت کے خلاف استعمال کیا، ٹولے در ٹولے، فرقے تھے۔ سیاست میں تشدد آگیا۔ کوئی راولپنڈی کے چوراہے پر مارا گیا ، کوئی دار کی خشک ٹہنی پر تو کوئی کراچی کی دو تلوار کے چوک، ستر کلفٹن سے چند قدم کے فاصلے پر۔ مگر اب کیا ہے، ایک جواری کی طرح، جو سب کچھ ہار جاتا ہے اور گھر کو واپس لوٹتا ہے تو وہ دروازہ کھلا ملتا ہے اور یہاں سے ہمیں اب کی بار گزرنا ہوگا۔
یہ دنیا یوکرین کی جنگ کے بعد ایک نئی سمت کو نکلے گی۔ بلاول بھٹو کی قیادت میں ہم دنیا سے بہتر تعلقات استوار کرسکتے ہیں۔ دنیا اب بھی بے نظیر کو عزت کی نگاہوں سے دیکھتی ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے جو جمود طاری ہے، بلاول اسے توڑتا ہوا نظر آرہا ہے۔ رہا سوال آئی ایم ایف کا، تو گئے ہم ہیں ان کے پاس ، وہ نہیں آئے ، ہر وہ ملک جن کے زرمباد لہ کے ذخائر کم ہوجاتے ہیں ، بیلنس آف پے منٹ میں عدم توازن آجاتا ہے، اسے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے۔ ہماری معیشت بیمار معیشت ہے، آئی ایم ایف بھی کہتا ہے کہ اپنے خرچے اتنے ہی رکھو جتنی تمہاری آمدنی ہے۔
آمریتوں کے بعد جو ایک طریقہ ہائبرڈ جمہوریت کا نکالا تھا اس کی ناکامی کے بعد، اب یوکرین کے بعد کے پس منظر کا انتظار ہے۔ دنیا اب پوسٹ ماڈرن ہونے کو کھڑی ہے۔ کوئی بھی ملک اب آزاد نہیں اسے ورلڈ سسٹم کے ساتھ چلنا ہوگا۔ اب انٹرنیشنل قانون سرحدیں پار کرکے آپ کی دہلیز تک پہنچ چکا ہے اور ہمیں اس قانون اور اپنے قانون میں مماثلت پیدا کرنی ہوگی۔ اب ہمیں پوسٹ ماڈرن دنیا میں جانے کی تیاری کرنی ہوگی۔ دنیا کے ساتھ دنیا جیسا بننا ہوگا۔ ہم کوئی پیوٹن نہیں اور نہ ہی ہمارے پاس پیٹرو ڈالر ہے۔ ہم تیسری دنیا کا غریب ترین ملک ہیں، ہمیں جینا بھی ہے اور اپنے انسانی وسائل بھی بہتر کرنے ہیں اور کرنے ہوںگے۔