شعری مجموعہ ’’رنگ باتیں کریں‘‘
ثریا حیا غزل اور نظم دونوں میں مہارت رکھتی ہیں
ثریا حیا کا علم و ادب سے گہرا تعلق ہے۔ وہ شاعری بھی کرتی ہیں اور نثر بھی لکھتی ہیں۔ نثر نگاری کا دائرہ تو محدود ہے مگر شاعری کی خوشبو دور دور تک پھیلی ہوئی ہے، گزشتہ سالوں میں ان کا ایک شعری مجموعہ منظر عام پر آیا جس نے قارئین اور ناقدین سے بے شمار داد و تحسین وصول کی۔ وہ کافی عرصہ گوشہ نشین رہیں، لیکن اچانک ہی ان کے شعری مجموعے ''کشتِ جاں'' اور اس کی تقریب رونمائی نے انھیں بازیافت کرلیا۔
ان سے میری پہلی ملاقات اسی موقع پر ہوئی۔ پھر گاہے بگاہے ادبی تقریبات میں ان سے ملاقات ہوتی رہی۔ جس طرح ان کی شاعری خوب صورت غزلوں اور نظموں کا مرقع ہے ان کی شخصیت بھی اعلیٰ اوصاف کا مجموعہ ہے۔ وہ ایک تعلیم یافتہ، پرخلوص اور ملنسار خاتون ہیں ان کی شخصیت کی تعمیر میں ان کے ادبی پس منظر علمی ماحول اور تربیت کا بڑا ہاتھ ہے۔
ثریا حیا غزل اور نظم دونوں میں مہارت رکھتی ہیں۔ ان کی شاعری مشاہدات اور تجربات کا نچوڑ ہے انھوں نے اطراف کے ماحول اور معاشرے کو جس طرح دیکھا اسی طرح شاعری کے روپ میں پیش کردیا ان کے یہاں تصنع اور بناوٹ دور دور تک نظر نہیں آتی ان کی شاعری نے سچائی کے خمیر سے جنم لیا ہے۔ ان کی تخلیقی اپج اور امنگ قابل تعریف ہے وہ لفظوں کی جادوگری سے آشنا ہیں ،زیر تحریر مجموعہ طباعت کے مراحل میں ہے، حمد باری تعالیٰ سے آغاز ہوا ہے۔ حمدیہ اشعار میں کہتی ہیں:
عظیم اتنا کہ اس کی عظمت کی مل سکے نہ مثال کوئی
رحیم ایسا کہ رحمت لازوال ہے وہ
ثریا حیا کی نظمیہ شاعری ہو یا غزلیہ دونوں مرصع ہیں خصوصاً غزلیات میں ایک نغمگی محسوس ہوتی ہے۔ جیسے کوئی بانسری بجا رہا ہو اور ان کی شاعری اس دھن پر رقص کر رہی ہو۔ ان کی شاعری کا حسن تغزل پڑھنے والے کو متاثر کرتا ہے اور مزید پڑھنے کی خواہش جنم لیتی ہے۔جب ان کے اشعار پڑھنے شروع کرتے ہیںتو پڑھتے ہیں چلے جاتے ہیں۔ اشعار پڑھیے:
نازک نازک کانچ کے جیسا اک پیکر
کرچی کرچی جس کی یادوں کا محور
نیند جھروکے بند ہوئے تو چپکے سے
دل دروازہ کھول دیا اس نے آ کر
بامعنی الفاظ اور بلند خیالی نے شاعری میں حسن پیدا کردیا ہے۔ اسی غزل میں کہتی ہیں:
سوچوں کی بے تاب چبھن یہ کہتی ہے
گھر کے اندر بڑی گھٹن ہے چل باہر
وقت سمندر اور وہ یادوں کے جھرنے
دل دریا میں آن گرے ہیں سب آ کر
ثریا حیا نے اپنی شاعری کے ذریعے بہت سے دیے روشن کیے ہیں۔ گھر کے چراغ جلا کر تخلیقی کرب سے گزری ہیں۔ ایک اور غزل کے اشعار ملاحظہ کریں جس میں لہو برساتے موسم کا ذکر کیا ہے:
تم اگر چاہو تو دکھ کے کاررواں رک جائیں گے
سنگ برساتے ہوئے کچھ مہرباں رک جائیں گے
آخری موسم کی بارش بھی لہو برسا گئی
ہم یہ سمجھے تھے کہ اب اشکِ رواں رک جائیں گے
اسی غزل کا مطلع دیکھیے۔
موجِ طوفاں سے نکل جائے اگر کشتی حیا
جو ہوا کی زد پہ ہیں وہ بادباں رک جائیں گے
ایک اور غزل میں ہمت و حوصلے کا درس دیتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ان کا تعلق کافی عرصے تک درس و تدریس سے رہا ہے اور بچوں کا ادب بھی تخلیق کرتی رہی ہیں۔ا سی لیے بعض جگہ نصیحت کا رنگ نظر آتا ہے:
بادل کی طرح وسعت صحرا سے گزر جا
تو بن کے صبا صحن گلستاں میں بکھر جا
ثریا حیا نے اپنی شاعری اور اپنے قلم کے زور پر اپنا مقام بنایا ہے۔ وہ اپنی صلاحیتوں سے بخوبی واقف ہیں تب ہی تو کہہ رہی ہیں:
کسی کی نقل نہ تقلید کیا کرتے ہیں
ہم اپنی فکر کی تائید کیا کرتے ہیں
انھی کے نام سے منسوب ہر اجالا ہے
نفس نفس کو جو خورشید کیا کرتے ہیں
ایک اور غزل میں امید کی کرنیں، وصال کی کیفیت اور ہجر کا دکھ شامل ہیں۔ دو اشعار دیکھیے:
فصلِ گل میں اب اپنا کون منتظر ہوگا
کون دیکھ پائے گا زخم خستہ حالوں کے
کارزارِ ہستی میں کب رہے ہیں ہم تنہا
ساتھ ساتھ چلتے ہیں قافلے اُجالوں کے
ثریا حیا نے نظموں میں بھی اپنے ہنر کو منوایا ہے۔ دل کی باتیں کی ہیں۔ زندگی کے مختلف زاویوں پر قلم اٹھایا ہے۔ محبتوں کے شہر میں وفا کو تلاش کرتے ہوئے اپنی ایک نظم ''کبھی ایسا نہ کرنا'' میں کہتی ہیں:
سنو جاناں
سفیر ِ زندگی بن کر، نفیر ِ نغمگی بن کر
شہابِ آرزو بن کر
سحابِ رنگ و بو بن کر
کسی کے ساتھ چلنا اور پھر رستہ بدل لینا
خلافِ رسمِ الفت ہے
کبھی ایسا نہیں کرنا
سنو ایسا نہیں کرنا
ثریا حیا کی شاعری میں معاشرے کی ناہمواری، سماجی ناانصافی، ماحول کی تلخیاںجا بجا نظر آتی ہیں۔ انھوں نے غمِ زیست، غربت و افلاس اور تنگدستی کا مشاقی سے نقشہ کھینچا ہے:
میں مصور ہوں شاعر ہوں نقاش ہوں
اپنے ماحول کی، اپنے اطراف کی
ایک جانب ہیں دولت کی گلکاریاں
دوسری سمت افلاس کے ہیں نشاں
اک طرف اونچے محلوں کا ہے سلسلہ
اک طرف بند گلیوں میں ٹوٹے مکاں
کوئی طاقت کے نشے میں سرشار ہے
کوئی بے بس ہے مجبور و لاچار ہے
مختصر یہ کہ ثریا حیا کی شاعری صداقت کا وہ آئینہ ہے جس میں ہم سب اپنا عکس بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔ وہ ایک قادر الکلام شاعرہ ہیں ۔میری دعا ہے کہ ''رنگ باتیں کریں'' پذیرائی سے ہمکنار ہو اور شاعرہ کو بامِ عروج عطا ہو۔( آمین۔)