سیاست کی وسعت قلبی
وام کے حقوق غصب کرنے والے کو تاریخ کبھی ہیرو قرار نہیں دیتی
MELBOURNE:
جس طرح تاریخ میں روم کے بھسم ہونے پر حکمران ''نیرو'' عوام پہ کیے گئے ظلم کی پرواہ کیے بنا، اقتدار کے نشے میں بانسری بجاتا رہا یا جرمنی کا آمر جنرل ہٹلر جرمن قوم پرستی کے پردے میں انسانی قتل و غارت اور دنیا میں فوجی طاقت کی بنیاد پر اپنے توسیع پسندانہ عزائم سے ملکوں کو فتح کرنے کا خواب پورا کرنے کے لیے ظلم و ستم کے ہر حربے اختیار کرتا رہا یا جس طرح برطانیہ کے آمر اولور کرامویل کو سولہویں صدی میں برطانوی آئین اور پارلیمینٹ کو بے توقیر کرنے پر عدالتی حکم پر قبر سے نکال کر دوبارہ سے سرقلم کرکے سزائے موت دی اور پارلیمانی نظام حکومت کو بچایا، جس کے نتیجے میں صدیاں گذرجانے کے بعد بھی برطانیہ کے کسی جنرل کو یہ جرات نہیں ہوئی کہ وہ برطانیہ کے آئین یا پارلیمان کے معاملات میں دخل اندازی کرے۔
یہ دنیا کے ان چند حکمرانوں کی سبق آموز تاریخ ہے جو ہمیں ظلم و جبر کے بھیانک انجام سے آگاہ کرتی ہے، ایک سوچ یہ ہے کہ گم گشتہ تاریخی واقعات کو دہرانے یا منظر عام پر لانے کی کوئی ضرورت نہیں جب کہ اس کے بر عکس دوسرا توانا نکتہ نظر یہ ہے کہ ان واقعات کا ذکر ہوتے رہنا چاہیے تاکہ نسل نوکو تاریخ سے آگہی بھی ہوتی رہے اور دنیا کے امن اور عوام کے حقوق چھیننے والوں کے انجام سامنے لائے جائیں تاکہ ظلم و جبر کی قوتوں کی حوصلہ شکنی ہوتی رہے اور عوام اپنے حق کے لیے نہ کسی ظالم حکمران کے دباؤ میں آئیں اور نہ ہی ظلم کے نظام سے بے خبر رہیں۔
تاریخ نہ خواہشات کی پابند ہوتی ہے اور نہ ہی تاریخ کسی کی خواہش پر سچ لکھنے سے باز رہتی ہے۔ عوام کے حقوق غصب کرنے والے کو تاریخ کبھی ہیرو قرار نہیں دیتی، تاریخ عوام کے دکھ درد اور ان کے حقوق کی محافظ بن کر وقت اور دور کا احتساب کرتی ہے،یہی وجہ ہے کہ اکثر عوام دشمن حکمران اپنے اطالیق کے ذریعے اپنی تاریخ لکھوانے کی کوشش کرتے ہیں مگر ہمیشہ ان کی اس تاریخی بے ایمانی کا پردہ بھی عوامی تاریخ ہی بے نقاب کیا کرتی ہے۔
پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں حکمرانی کی تاریخ غیر آئینی اور عوام دشمن اقدامات سے بھری پڑی ہے،یہ ملکی تاریخ کے وہ غیر آئینی حکمران رہے ہیں،جنھوں نے اپنی سپہ کی طاقت کو عوام کے حقوق غصب کرنے میں لگائے رکھ کر جمہوری اور معاشی حقوق کی لوٹ کھسوٹ جاری رکھی اور عوامی اقتدار پر زبردستی براجمان رہے،اس تناظر میں عوامی تاریخ کے حقائق کا جائزہ لیں تو آمر حکمرانوں کو تاریخ ایک غیر آئینی حکمران کے طور پر یاد رکھتی ہے اور عوام کی کثیر تعداد ان آمروں کو کسی بھی قسم کی رعایت دینے کو تیار نہیں،اگر کہیں آمر صفت اور ملک منقسم کرنے کے ذمے دار جنرلز طاقت کے بل بوتے پر اعزازات سے دفنا بھی دیے گئے ہوتے ہیں تو عوام یا تاریخ کی نظر میں ان آمر صفت حکمرانوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی،یہ تاریخ کا وہ تلخ سچ ہے جس سے منہ نہیں موڑا جا سکتا۔
ن لیگ کے رہبر رہنما نواز شریف نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ''میری پرویز مشرف سے کوئی ذاتی دشمنی یا عناد نہیں،نہیں چاہتا کہ اپنے پیاروں کے بارے میں جو صدمے مجھے سہنا پڑے،وہ کسی اور کو بھی سہنا پڑیں،ان کی صحت کے لیے اللہ تعالی سے دعاگو ہوں،وہ واپس آنا چاہیں تو حکومت سہولت فراہم کرے۔''
نوازشریف کے مذکورہ ٹویٹ کو دو زاویوں سے دیکھا جا رہا ہے،ایک حلقے کا خیال ہے کہ ملک کی طاقتور اشرافیہ کے سامنے بے بسی یا ڈیل کے ذریعے کڑوے گھونٹ پئے گئے ہیں جب کہ اس کے برعکس دوسرا بیانیہ یہ ہے کہ سیاست دان اور سیاست ہی نے ہمیشہ وسعت قلبی کا تاریخی فرض ملک کی جمہوری روایات کی سلامتی کے لیے ادا کیا ہے۔تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ملک کے دو لخت ہونے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے مشکل وقت میں اقتدار سنبھالنا،آمر کے ہاتھوں باپ کی پھانسی کا بوجھ لیے آمر کی موت کے بعد گھمبیر سیاسی صورتحال میں بے نظیر کا عنان حکومت سنبھالنا یا ریٹائرڈ جنرل مشرف کے دور میں بے نظیر قتل کے بعد ہنگامی صورتحال کے مقابلے کے لیے پی پی یا زرداری کا حکومت سنبھالنا اور جنرل مشرف کو نواز شریف کی جمہوری حکومت کی جانب سے عدالتی فیصلے پر ملک سے باہر بھیجنا وغیرہ دراصل سیاستدانوں کی جمہوری نظام کو قائم رکھنے کی وہ کوششیں ہیں جو ڈیل یا بے بسی کی وجہ سمجھی جاتی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جمہوری نظام کو مضبوط اور طاقتور کرنے کا یہ جذبہ اشرافیہ میں کیوں نہیں جاگتا یا وہ ملک کی سیاسی اور معاشی حقیقتوں کو سمجھنے کی کوششیں کیوں نہیں کرتے، بلکہ ہمیشہ ملک کو مفادات کی تجربہ گاہ میں لے جا کر ایک نیا ناکام فارمولا گڑھ کر ملک کی سیاست اور معیشت کو نقصان پہنچایا جاتا رہا ہے،جس کا عملی مظاہرہ حالیہ رخصت ہونے والی حکومت کا چار سالہ اشرافیائی تجربہ ہے،جس نے ملکی سیاست سے لے کر ملکی معیشت کا نہ صرف ستیناس کیا بلکہ سماج کی اخلاقی قدریں بھی پامال کیں،جس کا بوجھ تمام سیاسی جماعتیں مل کر اٹھا بھی رہی ہیں اور تنقید کا نشانہ بننے کے علاوہ اپنی اپنی سیاسی قیمت بھی داؤ پر لگائے ہوئے ہیں۔
ملک کے جمہوری نظام کو آئینی راہ پر لانے کے کچھ ہی عرصے بعد اشرافیائی تجربہ کارفرما ہوتا ہے اور پھر غیر آئینی آمر ملک کے آئین کو توڑتا ہے اور عوام کے ووٹ اور جمہوریت کو بے توقیر کر کے بغیر سزا و احتساب رخصت ہو جاتا ہے،پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ کسی آمر کو آئین شکنی پر سزائے موت ہوئی ہے،گو اس کو بچانے کی کوشش کی گئی ہے مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ عدالتی سزا یافتہ ہے جس کا فیصلہ عدالتوں کو آئین قانون کی روشنی میں کرنا ہے وگرنہ تاریخ کسی کوتاہی یا آئین شکن فیصلوں کی توثیق نہیں کرے گی،آمر کے آنے کے بعد قانون کیسے اپنا راستہ چنتا ہے،پورا ملک ان رویوں پر آنکھ گاڑھے بیٹھا ہے۔گو اس کے برعکس سیاسی جماعتوں کی جانب سے آمر کی بیماری میں ہمدردی کے مثبت فیصلے کو صرف جمہوریت کی بقا و سلامتی کے تناظر میں ہی دیکھا جانا چاہیے،اور یاد رکھنا چاہیے کہ توپ و تفنگ کا نہیں،دل سیاست کا ہی بڑا ہوتا ہے جب کہ جھکاؤ پھل دار درخت کی جرات و بہادری کا نشان ہوتا ہے۔