طالبان پالیسی میں تبدیلی پارٹی قیادت میں بحث کا نتیجہ ہے

ٹیکس کی بات آتی ہےتو سیاستدان بھی اکٹھے ہوجاتے ہیں جب ٹیکس نہیں دینا تو پھرغیرت کی کیوں بات کرتے ہیں، سابق وزیر خارجہ


Rana Naseem March 09, 2014
میں خوش قسمت وزیرخارجہ تھا کہ بھیک مانگنے نہیں جانا پڑتا تھا،خورشید قصوری فوٹو: ایکسپرہس

وطن عزیز کے تمام اہم نوعیت کے خارجہ امور میں ایک نام نہایت اہمیت کا حامل ہے۔سانحہ مشرقی پاکستان، مسئلہ کشمیر، ایٹمی دھماکے، امریکہ، بھارت، چین اور سوویت یونین سے تعلقات ہوں یا حالیہ افغان وار، ان تمام امور میں اس شخصیت نے موثر کردار ادا کیا۔ بین الاقوامی سطح پر اپنا نام اور مقام بنانے والی یہ شخصیت پاکستان کے سابق وزیر خارجہ اور تحریک انصاف کے مرکزی رہنما خورشید محمود قصوری ہیں۔ خورشید قصوری خارجہ امور پر دسترس کے ساتھ ملک کے داخلی معاملات پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے ''ایکسپریس'' ان کے ساتھ ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا، جو نذر قارئین ہے۔

ایکسپریس: تحریک انصاف میں شمولیت کا فیصلہ خود کیا یا کسی طاقت کے دباؤ پر شامل ہوئے؟
خورشید قصوری: دیکھیں جی! پہلی بات تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے لاہور جلسہ (اکتوبر 2011ء) سے تقریباً 6،7ماہ قبل ہی میرا چھوٹا بھائی بختیار قصوری تحریک انصاف میں شامل ہو چکا تھا۔ جلسہ میں، میں نے قصور سے لوگوں کی بھاری اکثریت کو شمولیت کروائی۔ لیکن میں نے اس وقت تک کوئی پارٹی جوائن نہیں کی تھی، کیوں کہ عمران خان سے میری بات چیت چل رہی تھی، وہ کئی بار میرے گھر بھی آئے، لیکن اس وقت جو بات چیت چل رہی تھی وہ الائنس کی تھی۔ پاکستان مسلم لیگ ہم خیال، جس میں حامد ناصر چٹھہ، سلیم سیف اللہ، ہمایوں اختر اور ہم سب شامل تھے، تو ہم تحریک انصاف سے الائنس کی بات کر رہے تھے، بعدازاں اس بات چیت میں مسلم لیگ کے دیگر دھڑے بھی شامل ہو گئے۔

میرا تحریک انصاف کی طرف جھکاؤ بالکل واضح تھا، میں اس چیز کے حق میں تھا کہ تحریک انصاف میں شمولیت کر لی جائے لیکن ہمارا گروپ الائنس چاہتا تھا، جسے تحریک انصاف کی کور کمیٹی نے مسترد کر دیا حالاں کہ عمران خان پہلے میرے گھر پر اس بات پر راضی ہو چکے تھے۔ پھر الائنس نہ بننے کی وجہ سے میں نے تحریک انصاف کو باقاعدہ جوائن کر لیا۔ قصور میرا سیاسی حلقہ ہے اور سیاسی نقطہ نظر سے اس وقت ن لیگ میں شمولیت میرے حق میں تھی، لیکن میں نے ایسا نہیں کیا حالانکہ ن لیگ کی طرف سے مجھے متعدد بار شمولیت کی دعوتیں دی گئیں۔ نواز شریف جب سعودیہ سے ملک واپس آئے تو سعودی سفارت خانے میں شہباز شریف اور چوہدری نثار نے براہ راست مجھے پارٹی میں شمولیت کی باقاعدہ دعوت بھی دی۔ نواز شریف نے مجھے پنجاب ہاؤس بلایا اور وہاں ان کے معتبر ساتھی سعید مہدی نے ایک کونے میں لے جا کر مجھے ن لیگ میں شمولیت کے بارے میں پوچھا تو میں نے کوئی جواب نہیں دیا، کیوں کہ میں پہلے ہی تحریک انصاف میں شمولیت کا ذہن بنا چکا تھا۔



ایکسپریس: قومی اور مقامی سطح پر 2002ء تا 2007 میں آپ اپنی کارکردگی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ اگر اچھی کارکردگی تھی تو پھر دو بار 2008ء اور 2013ء میں آپ اپنے حلقے سے جیت نہ سکے۔۔۔کیوں؟
خورشید قصوری: کارکردگی کی جو بات ہے، وہ میں اپنے منہ سے کیا بیان کروں لیکن کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو اندھے کو بھی نظر آجاتی ہیں۔ جو لوگ لاہور سے قصور اور پھر دیپالپور جاتے ہیں، وہ دیکھتے ہیں کہ وہاں جو ایکسپریس ویز اور جدید سڑکیں بنی ہیں، پہلے کبھی ان کا تصور بھی نہیں تھا۔ سرحدی ضلع ہونے کی وجہ سے قصور ایک پسماندہ علاقہ تھا اور اس وقت یہ اشتہارات چھپ رہے تھے کہ قصور ایشیا کا گندا ترین شہر ہے۔ ضلع میں گیس تھی نہ سرحد ہونے کی وجہ سے کوئی فون چلتا تھا۔ قصور میں سب سے پہلا اور بڑا واٹر ٹریمنٹ پلانٹ میں نے لگوایا، سوئی گیس لے کر گیا اور مواصلاتی رابطوں کا یہ عالم ہے کہ آج ایک ایک بندے کے پاس دو، دو موبائل ہیں۔ ترقیاتی کام ہونے کی وجہ سے وہاں کی پراپرٹی کی قیمت تین سے چار گنا بڑھ چکی ہے۔ یہ سب دیکھ کر مجھے بڑی خوشی ہوتی ہے کہ یہاں کتنی ترقی ہوئی ہے۔ ضلع قصور جتنا پسماندہ تھا، آج اتنا ہی ترقی یافتہ ہو چکا ہے اور جب لاہور قصور روڈ پر انڈسٹری لگے گی تو انشاء اللہ دیکھئے گا یہ علاقہ کہاں چلا جائے گا۔

اچھا دوسری بات جو آپ نے الیکشن ہارنے کی تو اس میں یہ عرض ہے کہ پاکستان کے مختلف حصوں میں کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ ایسے ارکان منتخب ہو جاتے ہیں، جن کے بارے میں لوگوں کی رائے اچھی نہیں ہوتی اور دوسری طرف بہترین کارکردگی دکھانے والے ہار جاتے ہیں اور یہ سب اس لئے ہوتا ہے کہ کسی بھی پارٹی کے حق یا مخالفت میں ہوا چلتی ہے، اُس وقت ہوا ن لیگ کے حق میں تھی اور دوسرا الیکشن میں جو کچھ ہوا وہ وقت بتائے گا یا تاریخ دان کہ کتنی دھاندلی ہوئی۔ اس کے علاوہ میرے ہارنے کی ایک اور بڑی وجہ یہ تھی کہ ایک ہی حلقہ (NA140) میں، میں اور سردار آصف احمد علی آ گئے۔ ماضی میں ہم دونوں ایک دوسرے کو ہرا چکے تھے لیکن میری پارٹی سے یہ غلطی ہوئی کہ ہمیں ایک ہی حلقے میں ڈال دیا اور کوئی فیصلہ بھی نہیں کیا کہ ٹکٹ کس کو دیا جائے گا؟۔ جنرل الیکشن سے 20 روز قبل تک میرے پاس ٹکٹ تھا نہ سردار آصف کے پاس، اور اس چیز کا ہمیں بہت زیادہ نقصان ہوا' کیوں کہ جس نے الیکشن لڑنا ہوتا ہے وہ تو پانچ، پانچ سال مہم چلاتے ہیں۔ پھر تحریک انصاف کے پارٹی الیکشن آخری وقت تک چلتے رہے، جس کا پارٹی کو نقصان پہنچا کیوں کہ الیکشنوں میں تعلقات خراب ہوتے ہیں، تضادات بڑھتے ہیں۔ پارٹی الیکشن کا نتیجہ یہ نکلا کہ پارٹی کے اندر دھڑے بندیاں ہوئیں جس سے پھر ہمیں نقصان ہوا۔ تو ایسے بہت سارے عناصر نے مل کر ہماری ناکامی میں کردار ادا کیا۔

ایکسپریس: تحریک انصاف کا مستقبل کیسا دیکھ رہے ہیں، پارٹی کو ایسا کیا کرنے کی ضرورت ہے، جس سے وہ ملک کی سب سے بڑی عوامی طاقت بن جائے؟
خورشید قصوری: تحریک انصاف آج پاکستان کی دوسری بڑی جماعت ہے، جس نے ملک کے ہرکونے سے ووٹ حاصل کئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں تحریک انصاف اس سے بھی زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتی اگر انتخابات منصفانہ اور پارٹی کے اندرونی الیکشن عام انتخابات سے ایک سال قبل ہو چکے ہوتے۔ ہمیں اگلی بار اپنی غلطیوں کو سدھارنا ہوگا، جس میں ایک تو یہ ہے کہ پارٹی الیکشن جلد کروائے جائیں، امیدواروں کو دو سال قبل ہی بتا دیا جائے کہ آپ امیدوار ہوں گے اور گزشتہ الیکشن میں جن کی اچھی کارکردگی تھی، انہیں ابھی سے تیاری کرنے کی ہدایات جاری کر دینی چاہیں، تاکہ جب الیکشن قریب آئے تو لوگ سردار آصف اور خورشید قصوری کو پوچھتے نہ پھریں کہ کیا آپ کے پاس ٹکٹ ہے؟۔ اور جہاں تک تحریک انصاف کے مستقبل کا سوال ہے تو نوجوان اس تحریک کے ساتھ ہیں، جو پاکستان کی آبادی کا کثیر حصہ ہے، تو اس چیز کو سامنے رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف مستقبل کی سب سے بڑی جماعت ہے۔



ایکسپریس:طالبان کے حوالے سے تحریک انصاف اور عمران خان کے موقف میں حالیہ تبدیلی کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ طالبان سے وابستہ توقعات ٹوٹنے پر عمران خان نے موقف بدلا یا کسی دباؤ نے ایسا کروا دیا؟
خورشید قصوری: نہیں! دباؤ والی کوئی بات نہیں، اگر ایسا ہوتا تو عمران خان مذاکرات کی بھرپور حمایت کا موقف ہی اختیار نہ کرتے کیوں کہ یہ کوئی مقبول فیصلہ تو نہیں تھا، لوگ پوچھتے تھے کہ عمران خان نے مذاکرات کی حمایت کا فیصلہ کیوں کیا؟ پھر پارٹی کے اندر اس معاملہ پر بہت بحث چلتی رہی کیوں کہ پارٹی میں بھی مذاکرات کی مخالفت کرنے والے لوگ موجود تھے، لیکن جب پارٹی سطح پر حمایت کا فیصلہ ہو گیا تو کسی نے بات نہیں کی۔ اب موقف کی تبدیلی کی جو بات کی جا رہی ہے وہ اسی بحث کا نتیجہ ہے جو کئی ماہ سے چلتی رہی۔ اس کے علاوہ موقف تبدیلی کا دوسرا بڑا عنصر یہ ہے کہ طالبان نے جس طرح معصوم سویلینز اور ہمارے پولیس والوں کو قتل کیا اور ہمارے 21 سکیورٹی اہلکاروں کی گردنیں کاٹ کر ان کی نعشیں پھینک دیں تو پھر حمایت جاری نہیں رہ سکتی تھی۔ دیکھیں! تحریک انصاف، پاکستان کی پارٹی ہے، کوئی باہر کے لوگ تو نہیں ہیں کہ پولیس اور فوج پر حملے ہو رہے ہوں اور ہم حمایت جاری رکھیں۔ تحریک انصاف پاکستان اور پاکستانیوں سے کٹ کر نہیں رہ سکتی۔ تو یہ وہ وجوہات تھیں، جن کی وجہ سے موقف میں تبدیلی آئی ہے، اس میں پریشر یا دباؤ والی کوئی بات نہیں تھی، ہاں دباؤ تو تب ہوتا جب تحریک انصاف وہ کام کرتی، جو اسٹیبلشمنٹ یا فوج چاہ رہی تھی، ہم نے تو ایسا نہیں کیا، پھر امریکہ سے بڑا کس کا دباؤ ہو سکتا ہے، ہم نے تو (تادم تحریر) نیٹو سپلائی بھی بند کر رکھی ہے۔

ایکسپریس:اپنی پارٹی کے حوالے سے کیا آپ کچھ تحفظات رکھتے ہیں، کیوں کہ آپ ایک ممتاز شخصیت ہیں لیکن پارٹی میں آپ کا کوئی لیڈنگ کردار نہیں؟
خورشید قصوری: اس کی کئی وجوہات ہیں، میری مصروفیات زیادہ ہیں، ایک تو میں ریجنل پیس انسٹی ٹیوٹ کا چیئرمین ہوں، جس میں کئی ممالک کے صدور اور وزرائے خارجہ شامل ہیں اور مجھے اس سلسلہ میں بیرون ملک بھی جانا پڑتا ہے، جس میں ظاہر ہے بہت وقت لگتا ہے۔ پھر پارٹی امور میں زیادہ حصہ میرا چھوٹا بھائی بختیار قصوری لیتا ہے، میں کور کمیٹی میں شامل ہوں اور پارٹی پالیسی میں رائے دیتا ہوں لیکن مقامی سیاست (ضلع قصور) میں بہت دلچسپی لیتا اور وقت دیتا ہوں، کیوں کہ سیاست کے بارے میں کہا جاتا ہے''All politics is local''۔ اب بلدیاتی انتخابات کی بات چیت چل رہی ہے، اس کے لئے ہم نے بہت مضبوط گروپ بنایا ہے جو ان انتخابات میں بھرپور حصہ لے گا۔



ایکسپریس: مشرف دور سے قبل آپ نواز حکومت میں بھی شامل تھے اور اطلاعات کے مطابق اس وقت مجوزہ پندرھویں ترمیم کی مخالفت پر آپ کو پارٹی اور پارٹی سربراہ کی شدید ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا، دراصل معاملہ کیا تھا؟
خورشید قصوری: پندرھویں ترمیم میں مجھے کوئی مربعے تو نہیں ملنے تھے، لیکن یہ ایک قومی معاملہ تھا، جس میں وزیراعظم کو اتنی طاقت دی جا رہی تھی کہ جمہوریت ختم ہو جاتی، تو میں نے کہا اس ترمیم سے قائداعظم اور اقبال کا پاکستان نہیں رہے گا۔ مذہبی حلقوں کی حمایت کے لئے اس کا نام شریعت بل رکھ دیاگیا تھا، پندرھویں ترمیم میں آئین کو بدلنے کا طریقہ بدل دیا گیا تھا، وزیراعظم جب چاہے آئین کی کسی بھی شق کو2/3 اکثریت کے بغیر بدل سکتا تھا۔ تو اس وقت اجلاس میں، میں نے کہا کہ اتنی آسانی سے تو لاہور کے فٹبال کلب کا آئین بھی نہیں بدل سکتا، جتنا پندرھویں ترمیم میں طریقہ طے کیا جا رہا ہے۔ تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میرا نواز شریف سے اتنا جھگڑا ہوا کہ انہوں نے کہا کہ پھر آپ استعفیٰ دیں، جس کے لئے میں ذہنی طور پر پہلے ہی تیار تھا۔ جس کمیٹی روم میں ہم بیٹھے تھے وہ بڑا تھا، میں ایک کونے سے اٹھا اور وزیراعظم کی طرف چل پڑا، لوگ مجھے روک رہے تھے لیکن میں نے وزیراعظم کے سامنے استعفیٰ رکھ دیا۔ اس دوران وہاں بیٹھے لوگوں نے کہا کہ اگر یہ استعفی دیں گے تو پھر ہم بھی دیں گے۔ بعدازاں وہاں بیٹھے لوگوں نے میرا استعفیٰ پھاڑ دیا۔ اب مجھے یہ بتائیں کہ اس میں میرا کوئی ذاتی فائدہ تو نہیں تھا؟ میں تو یہی سوچ رہا تھا کہ یہ میرے ملک کے لئے اچھا نہیں ہے۔ جیسے آپ اب دیکھیں یہ جو طالبان کی سوچ ہے، وہ ہمارے ملک کے لئے اچھی نہیں ہے۔ میں تو قائداعظم اور اقبال کا پاکستان چاہتا ہوں۔

ایکسپریس: آپ کے بیانات کے مطابق مشرف دور میں، جب آپ وزیرخارجہ تھے، کشمیر کا معاملہ حل ہونے کے قریب تھا۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی؟ حالاں کہ دوسری طرف تاثر یہ ہے کہ مشرف دور میں اقوام متحدہ کی قراردادوں سے پاکستان نے پسپائی اختیار کی۔
خورشید قصوری: یہ تاثر صرف مخالفین کا ہے کہ اس دور کی حکومت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں سے پسپائی اختیار کی۔ اس میں کوئی صداقت نہیں لیکن مخالفین اس تاثر کو پھیلانا چاہتے ہیں۔ دیکھیں! پاکستان اور ہندوستان کئی جنگیں لڑ چکے ہیں، جس میں 1947ء، 1948، 1965،1971، رن آف کچھ اور چھوٹی جنگوں میں کارگل کی لڑائی شامل ہے لیکن ہمیںکچھ حاصل نہیں ہوا۔ پاکستان میں غربت بڑھ رہی ہے، نوجوانوں کو ہم تعلیم بھی صحیح نہیں دے رہے، آپ سرکاری سکولوں اور ہسپتالوں کی حالت دیکھ لیں۔ پاکستان کی معیشت کا براحال ہو چکا ہے۔ تو آپ کا یہ کہنا ہے کہ اس وقت کی حکومت اپنے موقف سے ہٹ گئی، یہ وہ لوگ کہہ رہے ہیں جو پرانی پالیسی نہیں بدلنا چاہتے تھے۔ ہم یہ چاہتے تھے کہ مسئلہ کشمیر حل ہو۔ ہمارے پاس تو بنیاد اور دلیل ہی اقوام متحدہ کی قراردادیں تھیں اور اگر ہم ان سے پیچھے ہٹ گئے تو پھر مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لئے ہمارے پاس تو کچھ بچا ہی نہیں، تو ہم وہ کیسے چھوڑ سکتے تھے؟ لیکن جنگیں اس مسئلہ کا حل نہیں، اب دونوں ملک نیوکلیئر پاور بھی ہوگئے ہیں اور نیوکلیئرجنگ تو نہیں ہو سکتی کیوں کہ یہ خطہ ہی غائب ہو جائے گا اور کئی ہزار سال کے لئے غائب ہو جائے گا کیوں اب جو ایٹم بم بھارت اور پاکستان کے پاس ہیں، وہ ہیروشیما اور ناگاساگی کے بموں سے سو گنا زیادہ طاقت ور ہیں۔



جنگیں لڑ کر آپ مسئلہ حل نہیں کر سکے، اور اب جب آپ دونوں نیوکلیئر طاقت بن چکے ہیں تو دانش، تدبر اور انسانیت تک کا یہ تقاضا ہے کہ لڑنے کے بجائے بات چیت سے مسئلہ کا حل ڈھونڈا جائے۔ میں جب وزیرخارجہ تھا تو میری پالیسی تھی کہ تمام ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات استوار کئے جائیں اور الحمداللہ ایسا ہوا، ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن بن رہی تھی اور اس سے کہیں زیادہ کم قیمت پر بن رہی تھی جو سابق صدر زرداری نے طے کی۔ افغانستان سے بڑے خراب تعلقات تھے، جو نسبتاً بہتر ہو گئے، تجارت 20 ملین ڈالر سے بڑھ کر ایک بلین ڈالر تک چلی گئی۔ بھارت کے ساتھ ہم کشمیر سمیت بہت سارے مسائل کے حل کے قریب تھے اور اب جو میاں نواز شریف کی حکومت ہے، وہ یہی کہہ رہی ہے جو ہم کہا کرتے تھے کہ بات چیت کے ذریعے مسئلہ کشمیر حل کیا جائے گا۔ اور پھر جب آپ بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کریں گے تو کیا وہ آپ کو طشتری پر رکھ کر دے دیں گے۔ اس بات چیت میں بھارت، پاکستان اور کشمیریوں کی مکمل خواہشات پوری نہیں ہوں گی۔ایسا ہوگا کہ جس کو انڈیا، پاکستان اور کشمیریوں کی بھاری اکثریت قبول کر لے، ایسا نہیں ہوگا کہ سب کی سوفیصد خواہشات پوری ہو جائیں۔

ایکسپریس: جب ہم مسئلہ کشمیر کے حل کی بات کرتے ہیں تو دونوں ملکوں کے لئے قابل قبول حل کے بنیادی خدوخال کیا ہوں گے؟
خورشید قصوری: سب سے پہلے تو آپ نے یہ دیکھنا ہے کشمیری کیا چاہتے ہیں کیوں کہ مسئلہ تو کشمیر کا ہے ناں۔ تو اس مقصد کے حصول کے لئے میں کشمیریوں سے انڈیا، پاکستان اور دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ملا، یہ ملاقاتیں کھلے عام بھی تھیں اور چھپ کر بھی کی گئیں۔ ان کی پہلا مطالبہ تھا کہ انڈین آرمی کی موجودگی سے ہماری عورتیں اور بچے ذہنی مریض بن رہے ہیں، ان سے ہماری جان چھڑوائی جائے۔ فوج کی تعداد اتنی کم کی جائے کہ وہ صرف ایل او سی کے قریب رہیں۔ دوسری چیز ہندوستان کی یہ خواہش تھی کہ کشمیر کو راجھستان، پنجاب، ہریانہ، مہاراشٹر جیسی عام ہندوستانی ریاست کی طرح کر دیا جائے لیکن کشمیریوں کا کہنا تھا کہ ہمارا سپیشل سٹیٹس ہے، ہمیں آپ وہ لے کر دیں۔ پھر ہم نے سوچا کہ اگر ہم یہ دو چیزیں لے دیں تو کشمیریوں کا تو مسئلہ بہت حد تک حل ہوگا لیکن پاکستان میں اپوزیشن کہے گی کہ یہ تو سٹیٹس کو ہے، کچھ بھی نہیں کیا گیا تو ہم نے سٹیٹس کو بدلوانے کے لئے جوائنٹ میکانزم ترتیب دیا۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ بھارت، پاکستان اور کشمیری مل کر بیٹھیں اور مسائل کا حل تلاش کریں۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ پانی کا تھا، جسے ہم نے جوائنٹ میکانزم میں شامل کیا۔

یہ وہ ساری چیزیں تھیں جو مسئلہ کشمیر کے حل میں دونوں ملکوں کے لئے قابل قبول حل کے بنیادی خدوخال تھے۔ لیکن ہمیں یہ بھی معلوم تھا کہ اگر ہم سونے میں بھی گھڑ کر آجائیں تو اپوزیشن کہے گی یہ پیتل ہے۔ اس چیز کا انڈیا کو بھی ڈر تھا اور ہمیں بھی، تو ہم نے کہا کہ چلو جی! اس کو مزید بہتر کرنے کے لئے اسے عارضی معاہدہ بنا لیتے ہیں، 15سال کے بعد اس پر نظرثانی کی جا سکتی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس میں بہتری کی مزید گنجائش ہے اور پاکستان اور انڈیا دشمنی سے ہٹیں، دنیا سے سبق سیکھیں کہ ترقی وہیں ہوتی ہے جہاں امن ہو۔

ایکسپریس:کارگل لڑائی سے مسئلہ کشمیر کو فائدہ ہوا یا نقصان، سرتاج عزیز سمیت دفتر خارجہ سے تعلق رکھنے والے متعدد شخصایت کے مطابق اس سے نقصان ہوا جبکہ مشرف نے اسے فائدہ مند قرار دیا۔آپ کی کیا رائے ہے؟
خورشید قصوری: میری ذاتی رائے یہ ہے کہ کارگل جنگ سے مسئلہ کشمیر کو نقصان ہوا جو ہماری غلطی تھی، ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ یہ نواز شریف کا دور تھا اور میں اس وقت کم ازکم وزیرخارجہ نہیں تھا۔ لیکن مشرف دور میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے جو کوششیں ہوئیںوہ واقعتاً تاریخی نوعیت کی تھیں۔



ایکسپریس:وکلاء تحریک جنرل (ر) مشرف دور کے خاتمہ میں کلیدی اہمیت رکھتی ہے، اس تحریک کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے، اس کے پیچھے اصل میں کون تھا اور کیا یہ فنڈڈ تھی؟
خورشید قصوری: یہ تو خدا جانتا ہے، اس کے بارے میں تو اس وقت پتہ چلے گا، جب وقت گزرے گا۔ لیکن وکلاء تحریک منفی اور مثبت دونوں پہلو رکھتی تھی۔ اچھا پہلو یہ ہے کہ پاکستان کی سویلین سوسائٹی، وکلاء اور میڈیا نے مل کر پاکستان کی عدلیہ اور اداروں کو مضبوط کیا، اس سے پہلے ایسا نہیں تھا۔ لیکن منفی پہلو یہ ہے کہ کبھی عدلیہ جلسے جلوسوں کے ذریعے نہیں آتی، افتخار چودھری جلسے، جلوس کر رہے تھے، اسی کے ذریعے وہ بحال ہوئے تو ان کا ذہن سیاسی بن گیا تھا۔ پھر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ہر چیز میں دخل دینے لگے، جس سے ان کا خیال تھا افتخار چودھری کا سیاسی قد بڑھ رہا ہے لیکن اس سے عدلیہ کو نقصان ہوا اور وکلاء تنظیموں میں دراڑیں پیدا ہوئیں، اس میں حصے بن گئے، جن لوگوں نے افتخار چودھری کو بحال کروایا وہی لوگ آپس میں اختلافات کا بھی شکار ہوئے، افتخارچودھری کے نظریے کی وجہ سے وکلاء تنظیموں میں دراڑیں پیدا ہوئیں۔

ایکسپریس: ریاست اور شہریوں کی سوچ و جذبات میں فرق تو ہوتا ہے لیکن خارجہ پالیسی میں قومی غیرت کا کہاں تک عمل دخل ہوتا ہے؟
خورشید قصوری: پہلے آپ یہ تو جان لیں کہ قومی غیرت کیا چیز ہے، کیا یہ غیرت ہے کہ آپ کشکول اٹھائے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑے ہوں۔ جو قوم ٹیکس نہیں دیتی وہ کس منہ سے کہتی ہے کہ غیرت ہو، اس سے بڑی کیا بے غیرتی ہو گی۔ بڑی بڑی کوٹھیاں اور کاریں لیکن ٹیکس زیرو۔ ہندوستان میں جی ڈی پی کا 18فیصد ہے ، کئی ممالک میں 30 فیصد ہے لیکن ہمارے ہاں شرمناک حد تک صرف 8فیصد ہے۔ ٹیکس دیتے کوئی نہیں لیکن غیرت کی باتیں کرتے ہیں۔ اگر آپ ٹیکس دیں تو آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا پڑے گا لیکن یہاں تو حالت یہ ہے کہ دو ماہ پیسے نہ ملیں تو آپ ڈیفالٹ کر جائیں گے، تو اس لئے غیرت ضرور ہونی چاہیے لیکن عقل کے ساتھ۔ قوم خود غیرت مندی دکھائے، دوسروں پر انحصار کرنا بند کرے۔

ٹیکس کی جب بات آتی ہے تو سیاستدان بھی اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ ٹیکس نہیں دینا تو پھر غیرت کی کیوں بات کرتے ہیں۔ میں خوش قسمت وزیرخارجہ تھا، مجھے بھیک مانگنے نہیں جانا پڑتا تھا اور معیشت بھی تیزی سے ترقی کر رہی تھی۔ اس وقت ہمارا جی ڈی پی 8.6 فیصد ہو گیا تھا چین کا 9.2فیصد تھا، پاکستان چائناکے بعد دوسرا بڑا ملک تھا جو معاشی لحاظ سے تیزی سے ترقی کر رہا تھا۔ پاکستان کانام N11 یعنی نیکسٹ 11میں آ رہا تھا۔ پاکستان ابھرتی ہوئی معاشی طاقت بن رہا تھا اور یہ میں نہیں کہہ رہا' یہ عالمی ادارے کہہ رہے تھے لیکن اب معیشت کے حالات دیکھ کر تو رونا آتا ہے۔

ایکسپریس:آپ کے دورِ وزارت خارجہ میں اسرائیل سے بھی تعلقات بڑھانے کی کوششیں کی گئیں؟ ان میں کس حد تک کامیابی ہوئی تھی اور مقاصد کیا تھے؟ یہ مقاصد قومی تھے یا نجی؟
خورشید قصوری: اسرائیل سے تعلقات بڑھانے کی کوئی خاص کوشش نہیں کی گئی، میں نے وہاں کا صرف ایک دورہ کیا تھا، کیوں کہ اسرائیل بھارت کو جدید نوعیت کا بھاری اسلحہ فروخت کر رہا تھا، ہماری فوج اور وزارت خارجہ آفس اس سے ڈسٹرب تھے، تو اس سلسلہ میں فیصلہ کیا گیا کہ پرائیویٹ طور پر اسرائیل سے مل کر ان سے بات کی جائے۔ ملاقات کے لئے جواز یہ بنایا گیا کہ اس وقت بادشاہ عبداللہ نے ایک فارمولا دیا Land For Peace یعنی زمین دو تاکہ امن ہو۔ اس فارمولا کو عرب لیگ نے قبول کر لیا تومجھے کہا گیا کہ آپ اسرائیل سے مل کر انہیں کہیں گے وہ اپنی فوجیں غزہ سے نکال لے اور الگ ریاست بنا لے۔ تو اس طرح ملاقات کے لئے میں وہاں گیا لیکن اس کے پیچھے ہمارا بہت بڑا مقصد یہ تھا کہ انہیں سمجھایا جائے کہ وہ برصغیر میں چھیڑ چھاڑ نہ کریں۔

ایکسپریس: یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ڈرون حملوں کی اجازت آپ کی حکومت نے دی، اس میں کتنی صداقت ہے اور ڈروں حملوں کے پیچھے حقیقت کیا ہے؟
خورشید قصوری: پہلی بات یہ ہے کہ جب یہ فیصلے ہوئے تو میں اس وقت وزیرخارجہ نہیں تھا یہ فیصلے 2001ء میں ہو چکے تھے۔ دوسرا ڈرون حملوں کی اجازت ہم نے بالکل نہیں دی، اگر ایسا کیا ہوتا تو میں بحیثیت وزیرخارجہ ڈرون حملہ ہونے پر امریکن سفیر کو طلب نہ کرتا، وہ مجھے کہتا کہ تم (خورشید قصوری) مجھے کس حیثیت سے طلب کر رہے ہو، تم نے تو ہمیں خود اجازت دی ہے۔ پھر ہمارے دور میں کتنے ڈرون حملے ہوئے، چار یا پانچ اور جب بھی حملہ ہوا میں انہیں طلب کرتا لیکن بعد میں تو سینکڑوں کے حساب سے حملے ہو چکے ہیں۔ بعد میں یہ بات منظر عام پر بھی آگئی کہ مشرف دور میں صرف فضائی نگرانی(Photo Surveillance) کی اجازت دی گئی تھی تاکہ وہ ہم سے انٹیلی جنس شیئر کر سکیں۔ پھر یوسف رضا گیلانی کوئی ہمارے حمایتی تو نہیں تھے، انہوں نے یہ قبول کیا اور بیان دیا کہ اس دور میں صرف فضائی نگرانی کی اجازت تھی۔

ایکسپریس: الزام یہ بھی ہے کہ دہشت گردی کا جو بیج آپ کی پارٹی کے دور حکومت میں بویا گویا وہ ہی آج تناور درخت بن چکا ہے۔ 2004ء سے قبل جب تک پاک فوج قبائلی علاقوں میں نہیں گئی ہر طرف سکون تھا، اور یہ قبائلی پاکستان کا دفاع کرنے والے لوگ تھے، لیکن فوجی آپریشن کے بعد ملک بھر میں دہشت گردی شروع ہوئی جو آج تک جاری ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ وزیرستان میں پہلی بار فوج کس بنیاد پر اور کس کے دبائو پر بھیجی گئی؟
خورشید قصوری: پہلی بات تو یہ ہے کہ دہشت گردی کوئی آج شروع نہیںہوئی، 80ء کی دہائی میں یہ سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ 1998-99ء میں امریکی صدر کلنٹن نے افغانستان میں اسامہ پر حملہ کیا تو کروز میزائل پاکستان کے اوپر سے گزرے تھے۔ وزیراعظم نواز شریف تھے لیکن انہیں معلوم ہی نہیں تھا۔ دہشت گردی بدنصیبی ہے پاکستان کی، بدنصیبی جب آتی ہے تو کسی سے اجازت نہیں مانگتی، 9/11کا واقعہ جو ہوا، وہ پاکستان یا پاکستانیوں نے تو نہیں کیا لیکن اثر کس پر ہوا۔ امریکہ نے جب افغانستان پر حملہ کیا تو 45 لاکھ افغانی پاکستان آگئے اور جتنے دہشت گرد تھے وہ سارے تورا بورا سے اٹھ کر یہاں آ گئے وہ پاکستان کے علاقوں میں آ گئے۔ جب تک ان علاقوں میں قبائلی رہے، جو ہمارے بھائی ہیں، اس وقت کسی فوج کی ضرورت نہیں تھی لیکن جب وہاں دہشت گرد آ گئے تو اس وقت کی حکومت نے، جس میں، میں شامل نہیں تھا۔ حکومت نے کہا کہ ان دہشت گردوں کو ہمارے حوالے کرو، نہیں تو پھر ہم ان کے پیچھے آئیں گے۔ تو پھر فوج کو ان علاقوں میں جانا پڑا۔



ایکسپریس:کہا جاتا ہے، سویت یونین سے لڑائی میں پہلے پاکستان نے یہاں بندے تیار کئے اور افغانستان میں بھیجے، آج یہی سب کچھ ہمارے ساتھ ہو رہا ہے یعنی بندے افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں تخریب کاریاں کر رہے ہیں۔ کیا یہ تاثر درست ہے کہ اس بدامنی کے قصوروار ہم خود ہیں؟
خورشید قصوری: میں یہ سمجھتا ہوں کہ بالکل درست ہے کہ ہم نے جو بیج بوئے وہ آج ہمیں کاٹنے پڑ رہے ہیں لیکن اچھی بات یہ ہے کہ ہمیں اس چیز کا ادراک ہو چکا ہے، اور جب آپ کو کسی چیز کا ادراک ہو جائے تو پھر آپ اس کا بہتر طریقے سے تحفظ بھی کر سکتے ہیں۔ اور اس چیز کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل کیانی نے کہا تھا کہ ہمیں بیرونی سے زیادہ اندرونی خطرات لاحق ہیں اور اب موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی اسی سوچ کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔

ایکسپریس:افغانستان کے حوالے سے 80ء کی دہائی میں سامنے آنے والی Strategic depth (تزویراتی گہرائی) پالیسی پر آج پاکستان کا موقف بدل رہا ہے، آپ کے خیال میں ہم اس وقت درست تھے یا آج۔۔۔؟
خورشید قصوری: میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا موقف درست نہیں تھا۔ ہمارا موقف یہ ہونا چاہیے کہ ہم افغانستان کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کریں گے، یہ پاکستان کے مفاد میں ہے کہ خود مختار اور نیوٹرل افغانستان ہو۔ ہمیں کوئی ضرورت نہیں کہ ہم وہاں دخل اندازی کریں، ہمیں اس سے کوئی فائدہ نہیں بلکہ ساری عمر نقصان ہی ہوا۔ آپ دیکھ لیں کہ افغانستان میں روس کو فائدہ ہوا نہ امریکہ کو تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں۔ ہم نے اپنے ملک کا دفاع کرنا ہے۔ افغانستان میں ہماری صرف اتنی دلچسپی ہے کہ بھارت وہاں جا کر ہمارے خلاف گڑ بڑ نہ کرے اور یہ ہمارا ایک جائز حق ہے۔

ایکسپریس: آپ سفارت کاری اور خارجہ امور میں بڑی مہارت رکھتے ہیں،70ء کی دہائی میں آپ نے مشرقی پاکستان کے حوالے سے اہم ذمہ داریاں بھی سرانجام دیں۔ اس تناظر میں بنگلہ دیش کے موجودہ حالات کے بارے میں بتائیں کہ آپ بنگالی حکومت کے رویے پر پاکستان کے ردعمل کو کس طرح دیکھتے ہیں؟ یعنی پاکستان کی حمایت کرنے والوں کو آج 4 دہائیوں بعد سزائیں دی جارہی ہیں۔
خورشید قصوری: جب میں وزیر خارجہ تھا تو وہاں گیا اور پروٹول کے مطابق حسینہ واجد سے ملا۔ انہوں نے گلے شکوے بھی کئے لیکن ہماری کوشش تھی کہ تمام ممالک سے اچھے تعلقات استوار کئے جائیں۔ دوسری بات جو حسینہ واجد آج کل کر رہی ہیں وہ بہت افسوسناک ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کو سزائیں دی جا رہی ہیں انہوں نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے تو میں یہ پوچھتا ہوں کہ اگر انہوں نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے تو پھر ان سے مل کر حسینہ واجد نے سیاسی طور پر کام کیوں کیا۔ پھر ان کے جو والد تھے، جن کو بنگلہ دیش کا بانی کہا جاتا ہے، انہوں نے ان لوگوں کا ٹرائل کیوں نہیں کیا تھا، یہ سب کچھ آپ کو 40 سال بعد یاد آیا، یہ صرف سیاسی بنیادوں پر کیا گیا کیوں کہ حسینہ واجد کو ڈر تھا کہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کی حلیف ہے اور وہ کامیابی سمیٹے گی۔ حسینہ واجد کی طرف سے ظلم کیا جا رہا ہے۔ پاکستان نے اس معاملہ میں اسمبلی میں قرارداد پاس کی، مذمت کی اور یہی ہم کر سکتے تھے کیوں کہ بنگلہ دیش خودمختار ملک ہے، ہم اس کے معاملات میں اس سے زیادہ مداخلت نہیں کر سکتے۔

ایکسپریس: تعلیم کسی بھی ملک و قوم کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے لیکن تجربات اور مشاہدات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے اور ماہرین تعلیم کے مطابق تعلیم اسی وقت موثر بن سکتی ہے جب نظام تعلیم یکساں ہوں لیکن آپ پاکستان کا ایک Leading پرائیویٹ سکول سسٹم چلا رہے ہیں جس کا اپنا نظام ہے۔۔۔تو پھر بہتری کیسے آئے گی؟
خورشید قصوری: ریاست کو بالکل یکساں نظام تعلیم بنانا چاہیے لیکن ایک چیز آپ نہ بھولیں کہ 1970ء کے بعد جب تعلیم اداروں کو قومیا لیا گیا تو ایجوکیشن تباہ ہو گئی تھی ۔ پرائیویٹ سکول صرف مہنگے ہی نہیں ہیں، یہ سکول ہر قیمت اور ہر جگہ پر موجود ہیں، دیہات میں بھی پرائیویٹ سکول ہیں، جہاں 2سو روپے فیس ہے اور والدین اپنا پیٹ کاٹ کر یہ فیس ادا کرتے ہیں، کیوں دیتے ہیں؟ اسی لئے دیتے ہیں ناںکہ سرکاری سکول میں باتھ روم ہے نہ بجلی اور استاد اپنی مرضی سے آتا ہے۔

بالکل میں اس چیز کے حق میں ہوںکہ یکساں نظام تعلیم ہونا چاہیے لیکن یکساں کا مطلب یہ نہیں کہ یکساں خراب ہونا چاہیے بلکہ یکساں بہتر ہونا چاہیے۔ حکومت اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کے بجائے اچھے پرائیویٹ سکول کا سسٹم سرکاری سکولوں میں لائے، کیوں کہ اگر ایسا ہو گا تو پھر والدین کو کیا ضرورت ہے کہ وہ اپنے بچوںکو پرائیویٹ سکولوں میں بھیجیں۔ والدین کو اب اپنے بچے پرائیویٹ سکول میں زبردستی اور مجبوری میں بھیجنے پڑتے ہیں اور سرکاری سکول کام کریں گے تو پھر والدین خوشی سے سرکاری اداروں میں اپنے بچوں کو بھیجیں گے لیکن جب تک سٹیٹ یہ ذمہ داری نہیں اٹھا رہی تو آپ خدا کا شکر ادا کریں کہ پرائیویٹ سکول موجود ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پنجاب میں شہروں سے لے کر گائوں تک 40 فیصد سے زیادہ لوگ پرائیویٹ سکولز کا رخ کر رہے ہیں، اگر پرائیویٹ سکول نہ ہوتے تو آپ کانوں کو ہاتھ لگاتے جو تعلیم سے سلوک ہونا تھا۔ سرکاری سکول کہیں گھوسٹ ہیں تو کہیں گدھے بندھے ہیں۔ اگر آپ نے تعلیمی نظام کو بہتر بنانا ہے تو اپنا نظام تعلیم لے آئیں اور وہ ایسا ہو کہ جس کے تحت پڑھنے والے بچے کو بیرون ملک بھی آسانی سے داخلہ ملے، دنیا آپ کے نظام تعلیم کو مانے۔ تعلیم نظام کو اس نہج پر استوار کریں کہ قائداعظم کا پاکستان معرض وجود میں آئے نہ کہ طالبان کا۔

قصوری خاندان ۔۔۔۔!
خورشید محمود قصوری کا تعلق ایک روایتی سیاسی گھرانے سے ہے۔ ان کے دادا مولانا عبدالقادر قصوری معروف مذہبی شخصیت اور کانگرس کے رہنما تھے۔
اسی نسبت سے خورشید قصوری کے والد محمود علی قصوری نے بھی 1940ء تک کانگرس سے اپنا رشتہ برقرار رکھا، لیکن بعدازاں انہوں نے سوشل پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔ محمود علی قصوری نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں خدمات بھی سرانجام دیں لیکن ان کا شمار ملکی سیاست کے ان چند سیاستدانوں میں ہوتا ہے، جنہوں نے ذوالفقار بھٹو سے آئینی معاملات میں اختلافات پر وزیر قانون و پارلیمانی امور اور قومی اسمبلی کے ڈپٹی لیڈر کے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا۔ 1973ء کے آئین پاکستان کی تشکیل میں محمود قصوری نے اہم کردار ادا کیا۔ خورشید قصوری کے چھوٹے بھائی بختیار محمود قصوری بھی ایک سیاستدان ہیں۔

خورشید قصوری کا تعلیمی سفارتی اور سیاسی سفر
جون 1941ء میں پیدا ہونے والے خورشید محمود قصوری نے ابتدائی تعلیم لاہور میں مکمل کی۔

گریجوایشن کے لئے پہلے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی داخلہ لیا، لیکن جلد ہی مائیگریشن کے ذریعے پنجاب یونیورسٹی چلے گئے، جہاں سے انہوں نے 1961ء میں بین الاقوامی تعلقات میں بی اے آنرز کیا اور پہلی پوزیشن حاصل کی۔ بعدازاں وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے بیرون ملک چلے گئے۔ کیمبرج یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد پبلک ایڈمنسٹریشن اینڈ پولیٹیکل سائنس میں پوسٹ گریجوایٹ کرنے کے لئے انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کر لیا۔ 1963-67 میں وہ پیرس چلے گئے، جہاں انہوں نے یونیورسٹی آف نائس سے تاریخِ فرانس اور لٹریچر کی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے برطانیہ اور امریکہ کی مختلف یونیورسٹیز میں لیکچر بھی دیئے۔ واپسی پر قصوری نے خارجہ امور میں خدمات سرانجام دینا شروع کر دیں اور انہیں سب سے پہلی سفارتی ذمہ داری مشرقی پاکستان(بنگلہ دیش) کی سونپی گئی، جس پر انہوں نے سول نافرمانی کے بارے میں ایک مفصل اور جامع رپورٹ بھی مرتب کی۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کے مسئلے کا پُرامن حل تلاش کرنے کے لئے انہیں برطانیہ، سوویت یونین اور امریکہ کے متواتر اور مسلسل دورے کرنا پڑے۔ 1972ء میں حکومت پاکستان نے انہیں اقوام متحدہ کے لئے تشکیل دیئے گئے سفارتی وفد کا حصہ بنا دیا۔ پھر خورشید محمود قصوری وزارت خارجہ امور میں بطور ڈپٹی ڈائریکٹر آف ڈائریکٹویٹ جنرل برائے سوویت و مشرقی یورپ امور خدمات سرانجام دینے لگے۔

1998ء میں انہوں نے وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے ایٹمی دھماکہ کرنے کے فیصلہ کی حمایت کے لئے وزیراعظم کا خصوصی ایلیچی بن کر خدمات سرانجام دیں اور متعدد ممالک (امریکہ، کینیڈا، چین، فرانس، برطانیہ ودیگر) کا دورہ کرکے ان سے پاکستان کے فیصلہ کی حمایت حاصل کرنے کی کوششیں کیں۔ 1981ء میں خورشید قصوری نے دفترخارجہ کو خیر باد کہہ کر قومی سیاست میں قدم رکھا اور تحریک استقلال کے سیکرٹری جنرل بن گئے۔ جمہوریت کی بحالی کے لئے ایم آر ڈی جیسی تحریکوں کا حصہ بننے پر انہیں متعدد بار گرفتاریوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ 1983ء میں ضیاء الحق کی ملٹری حکومت کے باعث وہ بیرون ملک چلے گئے جہاں سے ان کی واپسی 1988ء میں ہوئی۔ 1993ء میں انہوں نے پہلی بار پاکستان مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے جنرل الیکشن میں حصہ لیا اور قصور سے ایم این اے منتخب ہوگئے، پھر 1997ء اور 2002ء میں بھی انہیں اسی حلقہ سے کامیابی حاصل ہوئی۔ ق لیگ کے دور حکومت میں نومبر 2004ء میں جب وزیراعظم ظفراللہ خان جمالی نے قصوری کو وزیرخارجہ نامزد کیا، تو اپوزیشن نے بھی ان کی نامزدگی پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ بعدازاں 2012ء میں انہوں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں