توانائی کا بحران اور حکومتی اقدامات

کبھی بجلی کا بحران سامنے آتا ہے تو کبھی گیس کے پریشر میں کمی اور لوڈشیڈنگ سے عوام کے مسائل میں اضافہ کیا جاتا ہے


Editorial June 20, 2022
کبھی بجلی کا بحران سامنے آتا ہے تو کبھی گیس کے پریشر میں کمی اور لوڈشیڈنگ سے عوام کے مسائل میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ فوٹو:فائل

ISLAMABAD: وفاقی حکومت کی حکمت عملی کو فالو کرتے ہوئے پہلے سندھ اور اب پنجاب اوراسلام آباد میں شاپنگ سینٹرز، تجارتی مراکز رات جلد بند کرنے کے نوٹیفکیشن جاری کردیے ہیں۔ یہ فیصلہ تاجروں کی نمایندہ تنظیموں کے عہدیداروں کی مشاورت کے بعد کیا گیاہے۔سندھ میں شاپنگ مالز اور بازار رات نو بجے بند کیے جائیں گے جب کہ پنجاب میں بھی یہی وقت مقرر کیا گیا ہے۔

پنجاب حکومت نے پورے صوبے میں شاپنگ مالز، تجارتی مراکز اور مارکیٹیں رات9 بجے بند کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ سندھ حکومت نے ایک دن پہلے نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔ پنجاب حکومت کے فیصلے کے مطابق صوبے میں تمام شاپنگ مالز، دکانیں، گودام، بیکریاں، دفاتر، وئیر ہاؤسز رات9بجے بند ہوں گے، تمام ریسٹورنٹس، کلبز، کیفے، سینما، تھیٹر، رات ساڑھے 11بجے تک کھلے رہیں گے البتہ میڈیکل اسٹورز، لیبارٹریز، پٹرول پمپس، اسپتال، ٹائر شاپس، دودھ دہی کی دکانوں کو استثنا ہوگا۔ ہفتے کو وقت کی پابندی کا اطلاق نہیں ہوگا جب کہ ہفتہ میں ایک دن تمام کاروبار بند رہیں گے۔

وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز شریف نے گزشتہ روز پنجاب کی تاجر برادری کے نمایندہ وفد کے ساتھ مشاورت کی اور اس کے بعد فیصلے کا اعلان کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ عید قربان کی شاپنگ کے لیے اوقات کار کی پالیسی کا تاجر برادری سے مشاورت سے جائزہ لیا جائے گا اور ان کے مطالبے پر ہمدردانہ غور کیا جائے گا۔میڈیا کی اطلاع کے مطابق تاجر برادری نے توانائی بحران میں حکومتی اقدامات کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا اور انرجی سیونگ کے لیے حکومتی اقدامات کو سراہا۔ جڑواں شہروں راولپنڈی، اسلام آباد میں بھی کاروباری و تجارتی مراکز کے لیے اوقات کار مقرر کر دیے گئے۔ یہاں بھی وہی اوقات کار مقرر کیے گئے ہیں جو پنجاب میں لاگو ہوئے ہیں۔

حکومت سندھ نے گزشتہ روز کراچی سمیت صوبے بھر میں ایک ماہ کے لیے کاروباری اوقات میں کمی کے احکامات جاری کردیے، بازار، دکانیں اور شاپنگ مالز رات9 بجے بند ہوجائیں گی جب کہ شادی ہالز رات 10.30بجے جب کہ ہوٹل، ریسٹونٹس، کافی شاپس اور کیفے رات 11 بجے تک کھولے جاسکیں گے اور مقررہ وقت پر بند کردیے جائیں گے۔ میڈیکل اسٹورز،بیکری ، دودھ کی دکانوں اور پٹرول و سی این جی پمپس کو پابندی سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔

یہ فیصلے وفاقی کابینہ کی قومی حکمت عملی کو سامنے رکھتے ہوئے بجلی کی لوڈشیڈنگ اور عوام کی مشکلات کم کرنے کے لیے کیے گئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ملک میں توانائی کی قلت ہے،ملک کی معیشت شدید مالی بحران کا شکار ہے۔ اسی لیے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کرنی پڑ رہی ہے۔ بجلی کی کمی کے باعث صنعتی اور کاروباری سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں،گھریلو صارفین الگ سے پریشان ہیں۔بڑے شہروں میں کئی کئی گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے۔جس سے مقامی دکاندار طبقے کا کاروبار متاثر ہو رہا ہے۔بجلی کے آلات مرمت کرنے والے کاریگر،فوٹو اسٹیٹ مشین اور پھلوں کے جوسز کا کاروبار کرنے والے خاص طور پر بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے متاثر ہو رہے ہیں۔

ایک طرف لوڈ شیڈنگ اور دوسری جانب بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے شہریوں اور دکانداروں کے مسائل میں اضافہ کیا ہے۔بجلی بچانے کے حوالے سے دیکھا جائے تو پنجاب اور سندھ حکومتوں کا فیصلے حالات کے مطابق دکھائی دیتا ہے ، دونوں صوبوں کی حکومتوں نے وفاقی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے کے بجائے اس کا ساتھ دیا ہے اور ایسا ہی ہونا چاہیے ۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ تاجر تنظیموں کے نمایندوں نے بھی حالات کی نزاکت کو سمجھا ہے اور حکومت کے فیصلے پر عمل کرنے کی یقین دہانی کرا دی ہے ۔ اگر ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز متفقہ فیصلے کریں تو پاکستان جلد ہی معاشی بحران سے باہر نکل آئے گا۔ سندھ حکومت نے تو بجلی بچت مہم کے تحت بجلی سے چلنے والے ہورڈنگز اور بل بورڈز کو بھی رات 9بجے بند رکھنے کا حکم نامہ جاری کیا ہے۔ یہ بھی درست سمت میں اٹھایا گیا قدم ہے ۔

ادھر تاجروں و کاروباری طبقے کی جانب سے پابندیوں پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔ کچھ تاجر موجودہ حالات میں پابندیوں کو درست اور کچھ عید قرباں کی آمد کے باعث اوقات کار کی پابندی کو تاجروں و کاروباری طبقے کا معاشی قتل قرار دے رہے ہیں۔ ویسے بھی حکومت کے ہر فیصلے پر اختلافی آوازیں ہمیشہ اٹھتی رہتی ہیں۔ پاکستان میں بھی مختلف تنظمیوں کے عہدیداروں کے درمیان باہمی چپقلش ، چودھراہٹ کے جھگڑے اور سیاسی وابستگیوں کی وجہ سے اختلافات جنم لیتے رہتے ہیں ۔

پاکستان میں کاروباری طبقے کی سوچ و فکر اپنے کاروباری مفادات تک ہی محدود ہوتی ہے اور وہ ہر سرکاری فیصلے کو اسی تناظر میں دیکھتے ہیں۔بہت کم ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ کاروباری طبقے نے عوام اور ریاست کے مفاد کو سامنے رکھ کر کوئی فیصلہ کیا ہو، پاکستان میں سرد جنگ کے دوران اور پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے برسوں میں بڑے پیمانے پر غیرملکی امداد آئی ہے ، اس وجہ سے پاکستان میں سماجی سطح پر تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور ایک ایسا طبقہ وجود میں آیا ہے جو چند برسوں میں امیر بنا ہے، انھی برسوں میں ٹیکنالوجی کی آمد، موبائل فونز، کمپیوٹرٹیکنالوجی کا گراس روٹ لیول تک پھیلاؤ ہوا ہے۔یوں عوام اور کاروبار کے کلچر میں تبدیلی آئی اس کے علاوہ آبادی بڑھنے اور نئی نئی رہائشی کالونیاں وجود میں آنے سے بجلی کے استعمال میں بھی اضافہ ہوا۔

شہروں میں کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ ہونے کے سبب ایک طبقے کے پاس پیسہ ضرورت سے زائد آنا شروع ہوا تو اس طبقے کے رہن سہن ،کھانے پینے کی عادات میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ راتوں کو ہوٹلنگ اور شاپنگ کے رجحان میں اضافہ ہوا۔دن کو دیر تک سونا اور رات دیر تک جاگنا اس طبقے کی عادت بن گئی ۔ اب حالت یہ ہے کہ دیر تک شاپنگ مالز کھلے رہنے کے علاوہ ساری رات چائے خانے، پان سگریٹس کی دکانیں اورکھانے کے ریستوران کھلے رہتے ہیں۔ دوپہر بارہ بجے شاپنگ مالز اور تجارتی مراکز کھلتے ہیں۔ظاہر ہے جب دوپہر کو مارکیٹیں کھلیں گی تو رات دیر تک کھلی رکھنی پڑیں گی ، اب یہ کلچر بن گیا ہے حالانکہ اس کلچر کے باعث مسائل پیدا ہورہے ہیں۔

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک ہی نہیں بلکہ تھائی لینڈ اور ملائیشیا کے شہروں میں شام ڈھلتے ہی کاروبار بند ہوجاتا ہے۔ صرف کسینوز اور ریڈ لائٹ ایریاز رات تک چلتے ہیں یا پھر ریلوے اسٹیشنز، ایئر پورٹس اور پٹرول پمپس رات بھر کھانے پینے کے لیے کھلے رہتے ہیں۔ اگر ان ممالک میں کاروباری سرگرمیاں انتہائی صبح شروع اور شام کے فوراً بعد ختم ہو جاتی ہیں تو ایسا ہمارے ہاں کیوں نہیں ہو سکتا۔ ہمیں بھی اپنی عادتیں بدلنی ہونگی جو وقت کی ضرورت ہے۔

وقت کے ساتھ صنعتی ترقی،ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے استعمال اور آبادی میں اضافے کے باعث بجلی،خوراک،پٹرول،کپڑا،جوتی اور روزمرہ کے استعمال کی دیگر اشیا کی کھپت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ۔اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ترقی یافتہ ممالک نے قلیل المدت اور طویل المدت پالیسیاں اپنائی اور اپنے شہریوں کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے منصوبے تشکیل دیے جس کے باعث ان ممالک میں وقت کے ساتھ ساتھ بجلی، خوراک،پٹرول اور دیگر اشیا کی کمی نہیں ہوئی بلکہ وہ اتنی وافر مقدار میں تیار کی گئیں کہ نہ صرف یہ ممالک اپنے شہریوں کی ضروریات بخوبی پوری کرنے کے قابل ہوئے بلکہ انھیں دیگر ممالک کو بھی فروخت کرکے خطیر سرمایہ کمانے لگے جس سے ان ممالک میں خوشحالی اور ترقی کی رفتار میں تیزی آئی۔

لیکن ترقی پذیر ممالک سمیت پاکستان میں ایسی منصوبہ بندی سامنے نہیں آئی ،حکومتوں کی ناقص اور ڈنگ ٹپاؤ پالیسیوں کے باعث ملکی مسائل میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ملکی ترقی کے نام پر لیا گیا غیر ملکی قرضہ بھی ترقیاتی منصوبے تشکیل دینے کے بجائے اہل اقتدار اور بیوروکریسی کی زندگی کو پرتعیش بنانے پر خرچ ہو گیا،یوں ملک پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا گیا اور بگڑتے ہوئے حالات کا درست ادراک رکھنے کے باوجود حکمران طبقے نے اپنی عیش و عشرت کی زندگی میں کسی قسم کی قربانی تو دور کی بات کوئی کمی تک نہ آنے دی،بلکہ ہر سال اپنی تن آسانی کے لیے بجٹ کی مختص رقم میں اضافہ ہی کیا جاتا رہا۔جو رقم ملکی ترقی اور دیگر ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہونی چاہیے تھی،وہ شاندار اسمبلیوں اور ارکان اسمبلی کی رہائش گاہوں کی تعمیر اور سہولتوں پر بے دریغ خرچ کی جاتی رہی۔آج اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہیں۔

کبھی بجلی کا بحران سامنے آتا ہے تو کبھی گیس کے پریشر میں کمی اور لوڈشیڈنگ سے عوام کے مسائل میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ملک میں جب بھی کوئی بحرانی کیفیت جنم لیتی ہے تو قربانی ہمیشہ عوام سے مانگ جاتی ہے، حکمران طبقے اور بیوروکریسی کے لائف اسٹائل میں کوئی کمی نہیں آتی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے ٹیکنالوجی کے جدید طریقے استعمال کرے اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے ورنہ ہر سال یہی مسائل مزید اضافے کے ساتھ سامنے آتے رہیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔