مجبور حکمران مظلوم عوام اور چائے کی پیالی
ہمارے ہر قسم کے حکمران طبقے کے مغربی لباس دیکھیں،ان کی رہائش گاہیں ملاحظہ کریں،ان کے لش پش دفاتر پر ایک نظر ڈالیں
لاہور:
وفاقی اتحادی حکومت، جس کی قیادت جناب شہباز شریف کے پاس ہے، کو اقتدار میں آئے تیسرا مہینہ نہیں گزرا ہے لیکن اس حکومت نے غریب عوام کے مصائب کی پرواکیے بغیر تیسری بار پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے۔اس قلیل سی مدت میں پٹرولیم کی مصنوعات میں اس قدر کمر شکن اضافہ بذات خود ایک تاریخ رقم کر گیا ہے۔
ایک ستمگر تاریخ۔ عوام کی چیخیں آسمان تک پہنچ رہی ہیں۔ حکمران طبقہ اور شہباز شریف صاحب مگر ارشاد فرما رہے ہیں:'' ہم کیا کریں؟عالمی منڈی میں تیل مہنگا ہو رہا ہے،اس لیے ہم سستا اور سبسڈی کا حامل پٹرول و ڈیزل عوام کو نہیں دے سکتے۔ سبسڈی دیتے رہیں گے تو ملک دیوالیہ ہو کر دوسرا سری لنکا بن جائے گا۔'' حکمران طبقہ اپنے اقتدار اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے عوام کو جو ڈراوا دیتے رہتے ہیں،ان میں نیا حربہ اور ڈراوا سری لنکا کے دیوالیہ ہونے کی مثال بھی اب شامل کر لی گئی ہے۔ ہمارے حاکم طبقات غریب عوام کو ہر وقت ڈرا کر رکھتے ہیں لیکن اپنی سرکاری مراعات کم کرنے پر تیار نہیں ہوتے ۔
وزیر اعظم جناب شہباز شریف نے بھی مہنگائی اور پٹرول کے ضمن میں عوام کے سامنے ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں۔ اور عوام ہیں کہ طاقتوروں اور فیصلہ سازوں کے سامنے بے بسی اور بیچارگی کی عملی تصویر بن رہے ہیں۔ عوام پر پٹرولیم کی مصنوعات میں تیسری بار اضافے کا ''بم'' گرا کر وزیر اعظم شہباز شریف معصومیت سے کہتے ہیں '' تیل کی قیمتیں بڑھانا مجبوری ہے۔''واقعہ یہ ہے کہ پٹرول کے گرائے گئے اس تیسرے ''بم'' نے عوام کا قیمہ بنادیا ہے۔
غریب عوام پررات گئے یہ تیسرا بم حملہ کیا گیا ہے۔عمران خان کی حکومت نے بھی کئی بار نصف شب گزرنے پر پٹرول و ڈیزل کی قیمتیں بڑھائی تھیں۔ اس پر لندن میں مقیم جناب نواز شریف نے خانصاحب کی حکومت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا: ''یہ چوروں کی طرح رات کے اندھیرے میں غریبوں کی جیبیں صاف کرتے اور مہنگائی بڑھاتے ہیں۔''اور اب نواز شریف کے برادر خورد بھی حاکم بن کر ویسے ہی فیصلے صادر کررہے ہیں جن فیصلوں پر کبھی نواز شریف معترض ہوا کرتے تھے۔ اب بھی شہباز حکومت نے نصف شب گزرنے کے بعد پٹرول کی قیمت میں 25 روپے اور ڈیزل کی قیمت میں59 روپے اضافہ کیا ہے۔
صبح اُٹھتے ہی پٹرول اور ڈیزل کی یہ نئی قیمتیں سن اور دیکھ کر لوگوں کی سانسیں رُک گئیں۔ حیرانی کی بات ہے کہ اتحادی اور شہباز حکومت کے نصف شب کو عوام پر چلائے گئے پٹرول بم حملے پر لندن میں براجمان نون لیگی قائد صاحب مہر بہ لب ہیں۔ اس خاموشی کو کیا نام دیا جائے؟ پندرہ دن کے اندر اندر پٹرول کی قیمت میں 84 روپے فی لیٹر اضافہ کیا گیا ہے۔ لوگ کرلائیں اور احتجاج بھی نہ کریں ؟
پٹرول اب 234 روپے فی لیٹر مل رہا ہے۔ ایک ہزار روپے میں صرف چار لٹر پٹرول۔ اس میں بھی پٹرول پمپ مالکان کی چوریاں شامل ہیں۔گویا عوام کو سرمایہ دار بھی لوٹ رہے ہیں اور حکمران بھی۔ دونوں کی تعیشات اور مراعات کم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔غریب عوام چکی کے دونوں پاٹوں کے درمیان پیسے جارہے ہیں۔اوپر سے وزیر خزانہ عوام کو مزید مہنگائی اور پٹرول کی قیمتیںمزید بڑھانے کا ڈراوا بھی دے رہے ہیں۔سچی بات یہ ہے کہ اب تو وزیر خزانہ،مفتاح اسماعیل، عوام کو ڈرانے والی ایک بڑی شخصیت بن چکے ہیںاور پھر ستم ظریفی کرتے ہوئے قہقہہ بھی لگاتے ہیں۔پچھلے دنوں تو فرسٹریشن میں ہمارے ان کے منہ سے ایک قابلِ گرفت لفظ بھی نکل گیا تھا۔خدا کا شکر ہے کہ اس پر وہ نادم بھی نظر آئے۔
تازہ بجٹ کا سبق یہ ہے کہ غریب کا کوئی خیر خواہ نہیں ہے۔موجودہ حکومت نے اپنے اقدامات سے ثابت کیا ہے کہ خان حکومت اور شہباز حکومت اپنی جبلت میں ایک جیسی ہیں۔خانصاحب اور ان کی کابینہ نے چار سال اس گردان میں گزار دیے کہ ملک معاشی بدحالیوں، مہنگائی اور کساد بازاری سے اگر گزررہا ہے تو اس کی ذمے دار نواز اور زرداری کی سابقہ حکومتیں ہیں۔ اب یہی راگ،ایک کورس کی شکل میں،شہباز شریف اور اتحادی حکومت کے وزیر اور مشیر الاپ رہے ہیں۔
خان صاحب کی حکومت بھی آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر جھکنے کے لیے بیقرار نظر آتی رہی اور یہی وتیرہ موجودہ حکومت کے ہاں بھی نظر آرہا ہے۔پٹرول کی قیمتوں میں جب اس حکومت نے 60روپے فی لیٹر اضافہ کیا تھا تو وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ارشاد فرمایا تھا''آئی ایم ایف اب بھی ہم سے ناراض ہے۔'' اب پٹرولیم کی مصنوعات میں پھر 25روپے اضافہ کیا گیا ہے تو اُمید ہے آئی ایم ایف مفتاح اسماعیل سے راضی ہو چکا ہوگا۔ آئی ایم ایف کی خوشنودی کا حصول ہی ہمارے حکمرانوں کی اولین ترجیح اور تمنا رہتی ہے۔
شہباز حکومت میں پٹرولیم کی مصنوعات میں تیسری بار اضافہ کیے جانے پرہمارے سیاستدانوں، امرا، سول و غیر سول سینئر بیوروکریسی اور مراعات یافتہ سرکاری طبقات کو کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔یہ لوگ اپنے اللوں تللوں کے لیے غریب عوام کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لینا چاہتے ہیں۔ بس ان کی مراعات،سہولیات اور عیاشیوں میں کمی نہیں آنی چاہیے۔ ابھی چند دن قبل ہمارے ارکانِ اسمبلی اور حکمرانوں کے جو مالی گوشوارے سامنے آئے ہیں (اگرچہ یہ مکمل نہیں ہیں)انھیں دیکھ کر اندازہ ہو جاتا ہے کہ ہمارے یہ جملہ سیاستدان اور حاکم طبقات کسقدر دولتمند ہیں۔ان طبقات کے لیے 233 روپے فی لیٹر پٹرول پھر بھی سستا ہے۔
ان کے ایک ایک گھر میں چار چار مہنگی گاڑیاں کھڑی نظر آتی ہیں۔انھیں کوئی فکر لاحق نہیں ہے۔غریب مگر مارے جا رہے ہیں۔اور ان غریبوں کی چائے بھی ہمارے ان مراعات یافتہ اور حاکم طبقے کی نظروں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے؛ چنانچہ ہم نے اگلے ہی روز وفاقی وزیر منصوبہ بندی جناب احسن اقبال کو یہ کہتے ہوئے دیکھا اور سنا کہ مہنگائی اور مالی تنگدستیوں سے بچنا ہے تو عوام کو روزانہ اپنی چائے میں نصف پیالیاں کم کر دینی چاہئیں۔اس بیان پر سب ششدر رہ گئے ہیں۔
خان صاحب کی حکومت کے وزرا بھی مہنگی چینی کے علاج کا یہ نسخہ بتایا کرتے تھے کہ عوام روزانہ اپنی چینی کے استعمال میں چند دانے کم کر دیں۔اور اب احسن اقبال صاحب ہمیں کم چائے پینے کا مشورہ یہ کہہ کر دے رہے ہیں کہ چائے کی درآمد پر ملک کے کروڑوں ڈالرز صرف ہوتے ہیں۔یہ بات درست ہو سکتی ہے اور یہ مشورہ قوم کے لیے بحیثیت مجموعی صائب بھی ہو سکتا ہے لیکن حیرانی کی بات ہے کہ احسن اقبال ایسے وزیروں کو ہمارے حاکم اور مراعات یافتہ طبقات کے کتوں اور بلیوں کے لیے غیر ممالک سے درآمد کی جانے والی مہنگی خوراک نظرنہیں آتی جس پر ہمارے کروڑوں ڈالرز خرچ ہو جاتے ہیں۔
کاش بچت اور جز رسی کا یہ مستحسن مشورہ احسن اقبال صاحب اور ان ایسے دیگر وزرا کرام ہمارے ملک کے ان طبقات کو بھی دیتے جن کے کتوں اور بلیوں کی خوراک ہم ایسے تہی دست پاکستانیوں کی خوراک سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ہمارے ہر قسم کے حکمران طبقے کے مغربی لباس دیکھیں،ان کی رہائش گاہیں ملاحظہ کریں،ان کے لش پش دفاتر پر ایک نظر ڈالیں، ان کی گاڑیوں کو دھیان میں لائیں تو کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ حاکم طبقات ایک ایسے غریب ملک سے تعلق رکھتے ہیں جو قرض کی مہنگی مے پینے کے لیے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ہاتھ قوم و ملک کو بھی گروی رکھنے سے دریغ نہیں کرتے؟