فوج طالبان سے مذاکرات نہیں کریگی کور کمانڈرز کانفرنس میں فیصلہ

فوجی قیادت مشاورت ومعاونت کیلیے ہروقت موجودہوگی تاہم مذاکرات سیاسی قیادت ہی کریگی.


News Agencies/Kamran Yousuf March 08, 2014
راولپنڈی:آرمی چیف جنرل راحیل شریف 170 ویں کور کمانڈرز کانفرنس کی صدارت کررہے ہیں۔ فوٹو: آئی این پی

MANSEHRA: فوجی قیادت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلیے بنائی جانے والی نئی حکومتی کمیٹی کاحصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا ہے۔

گزشتہ روزچیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کی صدارت میں 170 ویں کورکمانڈرز کانفرنس جی ایچ کیوراولپنڈی میں ہوئی جس میں وزیراعظم کی طرف سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلیے نئی کمیٹی میں فوج کے نمائندے شامل کرنے کی رپورٹس کاجائزہ لیا گیا۔عسکری حکام نے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر''ایکسپریس ٹریبیون'' کو بتایا کہ آرمی چیف نے کورکمانڈرز سے طالبان کے ساتھ مذاکرات میں براہ راست شامل ہونے کے حوالے سے مشاورت کی جس کے بعداعلیٰ عسکری قیادت اس نتیجے پرپہنچی کہ طالبان یا ان کے نمائندوں کے ساتھ مذاکرات میں براہ راست شامل ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔اعلیٰ عسکری حکام نے بتایا کہ فوجی قیادت حکومت کی معاونت ومشاورت کیلیے ہر وقت موجود ہوگی لیکن مذاکرات سیاسی قیادت ہی کرے۔حکام نے بتایا کہ وزیراعظم نواز شریف نے اب تک فوج کو نئی کمیٹی کیلیے اپنے نمائندے نامزد کرنے کیلیے نہیں کہا۔ایک اور فوجی افسر کا کہنا ہے کہ کور کمانڈرز نے اسلام آباد میں کچہری واقعے اور خیبرایجنسی واقعے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

فوجی افسرنے یہ بھی بتایا کہ کور کمانڈرزکوشدت پسندوں کے ٹھکانوں پرفضائی حملوں میں حاصل ہونے والی کامیابیوں پر بھی بریفننگ دی گئی۔انھوں نے مزید کہاکہ اگر مستقبل میں دہشتگردحملے ہوئے توفوج ان کا بھرپور جواب دینے کیلیے تیار ہے۔ آئی ایس پی آرنے اپنے بیان میں کانفرنس کومعمول کی ماہانہ ملاقاتوں کاحصہ قرار دیا ہے۔ بیان کے مطابق کانفرنس میں مختلف پیشہ ورانہ امورپر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا،شرکانے ملک کی اندرونی اور بیرونی سلامتی کی صورتحال کا بھی تفصیلی جائزہ لیا۔ فوج کی کمیٹی میں شمولیت میں ہچکچاہٹ شایدمنفی اثرات کے خدشے کے باعث ہے،اپوزیشن لیڈرسیدخورشید شاہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اگرمذاکرات ناکام ہوئے توالزام فوج پرآئے گا،مگرحکومتی وطالبان مذاکراتی کمیٹیوں کا خیال ہے کہ فوج کومذاکراتی عمل کا حصہ بنناچاہیے،حکومتی کمیٹی کے ایک رکن نے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر بتایاکہ عام تاثر ہے کہ فوج طالبان سے مذاکرات میں آن بورڈنہیں،اس تاثر کو زائل کرنے کیلیے فوج کے نمائندے کو کمیٹی میں شامل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔

انھوں نے مزید کہا کہ فوج شایدابھی صورتحال کا جائزہ لے رہی ہے اور اگر وہ اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ کوئی امن معاہدہ ہوجائے گاتو وہ اسی صورت میں مذاکراتی عمل کا حصہ بنے گی۔ اسلام آباد سے نمائندہ ایکسپریس کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ عسکری قیادت نے کہا ہے کہ فوج طالبان کیخلاف جنگ بندی کے اعلان پر قائم ہے، تاہم اگر کوئی دہشت گرد کارروائی ہوئی تواس کیخلاف بھرپور فضائی کارروائی ہوسکتی ہے۔ کانفرنس میں طالبان کی جانب سے پیش کی جانے والی 2شرائط جن میں شدت پسندوں کے رشتے دار بچوں اور خواتین کی رہائی اور بعض قبائلی علاقوں سے فوجی انخلاکے مطالبات شامل ہیں پر بھی غور ہوا۔ فوجی قیادت نے اس موقف کااعادہ کیا کہ سیکیورٹی فورسز کی حراست میں کوئی بچے اور خواتین نہیں اوریہ بات بے بنیاد ہے۔ بی بی سی کے مطابق ایک سینئرفوجی افسر نے بتایا کہ فوج کسی بھی تجویز پر غور کرنے کیلیے تیار ہے لیکن اس کے لیے کسی ایسی تجویز کا باضابطہ فورم پر موجود ہونا ضروری ہے۔اس افسر کے بقول فوجی حکام نے ماضی میں بھی شدت پسندوں کے ساتھ معاہدے کیے ہیں لیکن اس وقت بھی اوراب بھی سب سے اہم سوال یہی ہوگاکہ جن لوگوں کے ساتھ فوج نے ایک ادارے کے طور پر بات کرنی ہے وہ کون ہیں۔اس سینئر فوجی افسر نے کہا کہ کوئی یہ توقع نہ کرے کہ فوج کسی مجرم یاقاتل کے ساتھ مذاکرات کی میز پربیٹھ جائے گی۔

وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ تحریک طالبان جنگ بندی کی خلاف ورزی سے باز رہے، اگر خلاف ورزی کا سلسلہ جاری رہا تو رواں ماہ بڑے پیمانے پرآپریشن شروع ہوسکتا ہے۔ برطانوی خبررساں ایجنسی کو انٹرویو میں وزیر دفاع نے کہا کہ جنگ بندی کے بغیر مذاکرات کے متحمل نہیں ہوسکتے، طالبان کی جانب سے جنگ بندی کا اعلان کیا گیا ہے تو مکمل طور پر جنگ بندی ہونی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ اگر طالبان گروپس کی جانب سے جنگ بندی کا احترام نہ کیا گیا تو مارچ میں ہی قبائلی علاقوں میں بڑے پیمانے پر آپریشن شروع ہوسکتا ہے، اس سلسلے میں حکومت قبائلی علاقوں میں فوج بھیجنے اور شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر بمباری کرنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرے گی، مارچ میں مارچ ہوسکتا ہے۔ اسلام آباد حملے میں ملوث احرارالہند نامی تنظیم کی کڑیاں پنجابی طالبان سے ملتی ہیں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ افغانستان سے نیٹو فوج کے انخلا کے بعد طالبان کا مشرقی اور جنوبی علاقوں میں اثرورسوخ بڑھ جائیگا۔

علاوہ ازیں ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو میں خواجہ آصف نے کہا کہ مذاکراتی حکمت عملی میں فوج کی ایڈوائس لے رہے ہیں، آئندہ مذاکراتی مرحلہ فوج کی انٹیلی جنس کی بنیاد پر ہو گا، فوج ہی بتائے گی کہ حکومت کے پاس کیا آپشن ہیں۔ انھوں نے کہا کہ فوج حکومت کا حصہ ہے اور اگر آپریشن کا فیصلہ ہوا تو وہ فوج نے کرنا ہے، فوج کو اعتماد میں لینے یا نہ لینے کا سوال کس طرح پیدا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فوج سمیت تمام حکومتی اداروں کے اتفاق رائے سے ہی سب چیزیں آگے بڑھ رہی ہیں، یہ کہنا کہ کسی ادارے کواختلاف ہے یا ان کا الگ موقف ہے، قطعی طور پر غلط ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے مذاکراتی عمل کے بارے میں کسی بھی قسم کے تبصرے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا وہ بہت محتاط رہیں گے، وہ چاہتے ہیں کہ مذاکرات کامیاب ہوں، ان کی جانب سے کسی قسم کا تاثر جانا جس میںنکتہ چینی شامل ہو، اچھا نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں