ایک زریں عہد تمام ہوا حصہ اول
نارنگ صاحب سے یہ انٹرویو بہت خوشگوار اور معلومات افزا رہا
PESHAWAR:
اردو کا ایک روشن ستارہ ٹوٹ گیا۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کے ساتھ ہی اردو زبان کا ایک عہد زریں تمام ہوا۔ بلاشبہ وہ ایک نابغہ روزگار تھے۔ ان کی رحلت سے جو خلا پیدا ہوگیا ہے وہ کبھی بھی پورا نہیں ہوگا۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی زبان اردو کی خدمت کے لیے وقف کر دی تھی۔ ان کے انتقال پر ملال پر فراق گورکھپوری کا یہ مقطع یاد آرہا ہے۔
آنے والی نسلیں تم پر فخر کریں گی ہم عصرو
جب بھی ان کو دھیان آئے گا تم نے فراقؔ کو دیکھا تھا
اگرچہ یہ مقطع فراقؔ صاحب کی اپنی ذات سے منسوب ہے مگر درحقیقت یہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی شخصیت پر بھی حرف بہ حرف منطبق ہوتا ہے۔ سچ پوچھیے تو گوپی چند نارنگ اردو کی روح اور آبرو تھے۔ انھوں نے اپنی آخری سانس تک ہندوستان میں اردو کا پرچم بلند رکھا۔ ہم اپنے آپ کو ان خوش نصیبوں میں شمار کرتے ہیں جنھوں نے فراقؔ صاحب کو کئی بار دیکھا اور سنا تھا۔ رہی بات ڈاکٹر نارنگ کی تو اس زمانہ میں جب کہ وہ جوان تھے ہمارا ان سے کئی بار آمنا سامنا ہوا کرتا تھا۔ قصہ یہ ہے کہ وہ اکثر دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے مشہور و معروف سربراہ خواجہ احمد فاروقی کے یہاں اردو کے سلسلہ میں تشریف لایا کرتے تھے۔
غالباً یہ ان کی طالبعلمی کا زمانہ تھا یا پھر یہ کوئی اور سلسلہ تھا۔ تاہم اس وقت ہمیں یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ کون ہیں اور کیا ہیں۔ خواجہ احمد فاروقی صاحب کا کمرہ ہمارے پولیٹیکل سائنس ڈپارٹمنٹ کے کمرے کے بالکل سامنے تھا جہاں ہم ایم اے کے طالبعلم کی حیثیت سے پڑھا کرتے تھے۔ حسن اتفاق سے وہ دن بھی آیا جب ہمیں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ سے نہ صرف بالمشافہ ملاقات کا بلکہ ان کا انٹرویو کرنے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ ہوا یوں کہ وہ جنرل ضیاء الحق کے دور حکمرانی میں اکادمی اردو اسلام آباد کے زیر اہتمام منعقدہ اردو ادیبوں اور شعرا کرام کے اعزاز میں ہونے والی عظیم الشان کانفرنس میں ہندوستانی مندوب کی حیثیت سے شرکت کے لیے آئے ہوئے تھے۔
ان کی آمد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ریڈیو پاکستان نے انھیں انٹرویو کی دعوت دی جس کے دوران ان کے دو انٹرویو ہوئے۔ ایک انٹرویو ریڈیو پاکستان کی عالمی سروس کے لیے جو سمندر پار پاکستانیوں کے لیے نشر ہوتی تھی اور دوسرا ریڈیو پاکستان کی بیرونی نشریات ہندی سروس کے لیے جو بھارت کے ہندی بولنے والے سامعین کے لیے نشر کی جاتی تھی جس کے سربراہ کی حیثیت سے ہمیں بذات خود نارنگ صاحب کا انٹرویو لینے کی سعادت نصیب ہوئی۔
نارنگ صاحب سے یہ انٹرویو بہت خوشگوار اور معلومات افزا رہا جس میں ان کی ذاتی زندگی اور اردو سے ان کے عشق کا حال احوال معلوم کرنے کا سنہری موقع میسر آیا۔ ڈاکٹر صاحب سے بہت کھل کر بات چیت ہوئی اور بہت سی ایسی باتیں معلوم ہوئیں جو اردو کے حوالے سے بہت اہم تھیں۔ ہم نے ڈاکٹر صاحب سے بھارت میں اردو زبان کے مستقبل کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے گہری تشویش اور فکر مندی کا برملا اظہار کیا تاہم وہ مایوس ہر گز نہیں تھے۔
ان کا ماننا تھا کہ اردو محض ایک زبان کا نام نہیں بلکہ یہ ایک تہذیب اور ثقافت ہے جو ہندوستان کی شناخت اور آبرو ہے۔ انھوں نے اپنے اس انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ اردو صرف ہندوستان کے مسلمانوں ہی کی زبان نہیں بلکہ اس میں ہندوؤں کا بھی برابر کا حصہ ہے جنھوں نے نہ صرف اس کو اپنایا ہے بلکہ فروغ دیا ہے اور پروان چڑھایا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا پختہ یقین تھا کہ اردو میں اتنی جان ہے کہ تعصب کی آندھی اس کا چراغ گل نہیں کرسکتی۔ بقول شاعر۔
تندیٔ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اردو زبان کی ترویج و ترقی میں ڈاکٹر نارنگ کا بہت بڑا حصہ ہے۔
یہ ایک صدی کا قصہ ہے
دو چار برس کی بات نہیں
گنگا جمنی تہذیب کے ممتاز تر تشخص کے حامل اور اردو زبان و ادب کی اپنی مثال آپ ہمہ جہت استاد (91 سالہ) ڈاکٹر گوپی چند نارنگ 15 جون کو امریکا میں انتقال کر گئے۔ اس سانحہ عظیم کی اطلاع ممبئی بھارت سے اردو کے ممتاز صحافی، ادیب، شاعر اور ہمارے عزیز دوست ندیم صدیقی کے ذریعہ ہمیں موصول ہوئی جو ممبئی سے شایع ہونے والے اردو روزنامہ کی ادارت سے وابستہ تھے۔ پدم بھوشن گوپی چند نارنگ بلوچستان کی تحصیل دکی ضلع لورالائی میں 11 فروری 1931 کو پیدا ہوئے تھے (ان کی جنم پتری میں سنہ 1930 درج ہے۔)
گوپی چند نارنگ کے والد دھرم چند نارنگ بلوچستان میں ریونیو سروس میں افسر اعلیٰ کے عہدے پر فائز تھے۔ جب وہ ڈیڑھ سال کے تھے تو ان کے والدین موسیٰ خیل چلے گئے۔ نارنگ کے بزرگوں کا آبائی وطن مغربی پنجاب میں لیہ ضلع مظفر گڑھ ہے (جو اب پاکستان میں واقع ہے)۔ لیہ ضلع مظفر گڑھ میں ان کے اجداد صدیوں سے آباد تھے۔
ایک روایت کے مطابق گوپی چند نارنگ نے اردو کا پہلا قاعدہ عبد العزیز نامی ایک استاد سے پڑھا۔ نارنگ نے خود لکھا ہے کہ ''(عبد العزیز صاحب) ماسٹر، ہیڈ ماسٹر اور کلرک سبھی کچھ وہی تھے میں استاد سے کچھ کچھ ڈرا کرتا تھا اور اس سے بھی زیادہ ڈر امتحان کا تھا جس کے بارے میں معلوم ہی نہیں تھا کہ (امتحان) ہے کیا بلا ؟ جب پہلی جماعت کا امتحان ہوا تو میں گھر میں دبکا رہا۔ بعد میں والد صاحب اور بڑے بھائی صاحب پکڑے پکڑے لائے اور ( استاد سے) کہا، بیچارے کا سال برباد ہو نے سے بچا لیجیے، عبد العزیز صاحب نے (اردو) قاعدے کا دوسرا صفحہ کھولا اور قدرے سختی سے کہا:
یہاں سے سناؤ، دہشت تو طاری تھی ہی، میں نے بد حواسی میں قاعدہ بند کیا اور بجائے پڑھ کے سنانے کے، جیسے جماعت میں رٹا کرتا تھا، زبانی ہی سنانا شروع کر دیا، ابھی پورا سبق نہ سنا پایا تھا کہ انھوں نے کہا: بس بس تم پاس، نہ صرف پاس بلکہ اوّل۔
والد صاحب نے گلے لگا لیا۔ آنسو پونچھے اور کندھے پر بٹھا کر گھر لے آئے، وہ دن اور آج کا دن، کتاب میری بہترین رفیق اور دم ساز بن گئی۔
(جاری ہے)