نڈھال عوام اور شفاف الیکشن
آج تک یہ سمجھ نہیں آسکا کہ دگرگوں ملکی حالات میں انھوں نے حکمرانی کا یہ ڈھول اپنے گلے میں کیوں ڈالا ہے
تازہ ترین حالات میں ہر پاکستانی کی طرح میں بھی انتہائی بے یقینی کی کیفیت سے نڈھال ہوں ۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ مستقبل میں کیا ہوگا اور حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ بچوں کو دیکھ کر دل دہل جاتا ہے کہ ان کا مستقبل کیسا ہو گا؟
ہماری تو جیسے تیسے گزر رہی ہے اور جو رہ گئی ہے، وہ بھی کسی نہ کسی طرح گزر ہی جائے گی کہ ہم اب ان پریشان حالوں کے عادی ہو چکے ہیں لیکن ہمارے بچے جوناز ونعم سے پل بڑھ کر جوان ہو رہے ہیں، ان کے مستقبل کی پریشانی بڑھتی جارہی ہے۔
اولاد والدین کے لیے عزیز ترین ہوتی ہے اور والدین کی زندگی اپنی اولاد کے گرد ہی گھومتی ہے، آج حالت یہ ہو گئی ہے کہ اپنی محبوب ترین چیزوں سے بھی پیار کرنے کی ہمت نہیں پڑتی بلکہ ان پر ترس آتا ہے کہ نہ جانے ملک میں ان کا مستقبل کیا ہوگا اور انھیں ان کے بزرگوں کے گناہوں کی کتنی سزا ملے گی۔ وطن عزیز میں جو دو چار قابل اعتبار، قابل اعتماد اور قابل احترام شخصیات موجود ہیں جن سے عوام کی امیدیںوابستہ ہوتی ہیں، وہی لوگ اب عوام سے دور ہو گئے ہیں اور عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
ایک جمہوری ملک میں اگر شفاف انتخابات نہ ہوں تو اس ملک کے مستقبل کے بارے میں خدشات لاحق ہو جاتے ہیں ۔ ہمارے ہاں بھی شفاف انتخابات کا شور تو بہت ڈالا جاتا ہے لیکن آج تک کسی بھی قومی انتخاب کو شفافیت کی سند حاصل نہیں ہو سکی اور معاملات اس نہج پرپہنچ چکے ہیں کہ اب واقعی اس ملک کی بقاء کا انحصار شفاف الیکشن پر ہے ۔یعنی الیکشن تو ضرور ہوں لیکن شفاف بھی ہوں ۔ میرے ذاتی اضطراب کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ نہ جانے مجھے کیوں لگتا ہے کہ الیکشن کی شفافیت اس ملک میں ہمیشہ ایک سوالیہ نشان رہے گی ' لیکن ساتھ ہی ایک سوال بھی ذہن میں آجاتا ہے کہ زیادہ نہیں تو تھوڑے بہت ہی شفاف الیکشن اگر ہوجائیں تو یہ ملک شاید بچ جائے گا اور عوام کی آس و امید زندہ رہے گی ۔
جو پڑوسی اور عالمی طاقتیں پاکستان کو بچتا نہیں دیکھ سکتیں، ان کی سازشیں ان دنوں عروج پر ہیں اور پاکستان زوال پر۔ ایک عام پاکستانی اور بہت سے خاص پاکستانی بھی زندگی کی عام مروجہ سہولتوں مثلاً بجلی وغیرہ کی نعمت سے محروم ہو چکے ہیں، روٹی روزگار نہیں ہے، لوگ بھوکے ہیں، پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس ملک کے شہریوں پر یہ کیفیت طاری ہوئی ہے ورنہ کھانا پینا پاکستانیوں کا کبھی مسئلہ نہیں رہا۔
ہمارے کھیت فاضل گندم اگاتے ہیں، چاول کی بہترین فصل پاکستان میں اُگتی ہے لیکن ہمارے حکمرانوں کی نیتوںمیں فتور ہے کہ لوگ بھوکے مر رہے ہیں۔ آج کی پاکستانی زندگی کی تفصیلات بہت تکلیف دہ ہیں، ان کا ذکر کرنا زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے، اس لیے پرہیز ہی کیا جائے تو بہتر ہے۔ ویسے کون ایسا پاکستانی ہے جس کو اپنی حالت کا علم نہیں ہے ۔ وہ عالمی مالیاتی ادارے جو ہمارے جیسے چھوٹے ملکوں کو زبردستی قرضے دے کر ہمیں اپنے کنٹرول میں رکھا کرتے تھے اب ہمیں اس قابل بھی نہیں سمجھتے کہ ہمیں قابو رکھنے کے لیے مزید قرض دیں۔
کہا یہ جاتا ہے کہ ہم اس قرض کے بغیر جی نہیں سکتے، ہمارا بجٹ ان قرضوں کا مرہون منت ہے۔ جب حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں اور قوم کی مایوسی انتہائوں کو چھو رہی ہے تونڈھال قوم کو اس بے پناہ اور ناقابل برداشت مایوسی سے نکالنے کا فوری طریقہ الیکشن ہیں جن سے قوم کی زندگی میں اعتماد پیدا ہو گا اور وہ اپنے ملک کو اس آباد دنیا کا ایک ملک سمجھنا شروع کر دے گی کیونکہ وہ اپنی مرضی کے نمایندے منتخب کر سکے گی۔
آج کی اپوزیشن اس بات پر مصر ہے کہ ملک میں جلد از جلد الیکشن ہوں اور وہ یہ سمجھتی ہے کہ الیکشن میں اسے ہی کامیابی ملے گی لیکن عوام یہ کہتے ہیں کہ انتخابات کے نتیجے میں کوئی بھی جماعت منتخب ہو کر آجائے انھیں قبول ہوگااوریہی وہ کار گر نسخہ ہے جس سے عوام کااعتماد بحال ہو گا اور وہ مطمئن ہو کر از سر نو اپنی زندگی کا آغاز کر سکیں گے۔
علاوہ ازیں جب ملک میں انتخابات ہوں گے تو یہ اس بات کا اعلان ہوں گے کہ یہ ملک زندہ ہے اور اس کی قوم زندہ رہنا چاہتی ہے ۔ ہماری سیاسی جماعتیں بھی یہی چاہتی ہیں کہ لیکن اس کے باوجود وہ نئے انتخابات کے بارے میں گو ںمگوں کا شکار ہیں اور آج کی اپوزیشن کو تو انتخابات سے قبل ہی ان کی شفافیت مشکوک دکھائی دے رہی ہے۔کل کے حکمران اور آج کے اپوزیشن لیڈر جناب عمران خان دوعملی کے واضح روپ میں سامنے آئے ہیں۔
ایک طرف تو ان کی جماعت نے قومی اسمبلی سے استعفے دے رکھے ہیں اور حکومتی اتحاد کی حکمرانی کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں تو دوسری طرف کے پی کے اور پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی ارکان موجود ہیں، سنیٹ میں بھی براجمان ہیں، بس قومی اسمبلی کے ارکان سے ہی نفرت تھی۔ ادھر کراچی میں حالیہ ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی نے اپنا امیدوار ہی کھڑا نہیں کیا۔ یہ سمجھ نہیں آرہی کہ وہ قومی اسمبلی میں رہنا چاہتے ہیں یا پھر پہلے ان کااستعفوں والا عمل ڈراما ہے، معلوم یوں ہوتا ہے کہ ان کو صرف وہی اسمبلی پسند ہے جو ان کو اقتدار دلا کر وزیر اعظم منتخب کر دے۔
الیکشن کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانیوں کو اپنی قیادت منتخب کرنے کا آزادانہ اختیار ہوگا اور جسے چاہئیں وہ مسترد یا قبول کر لیں، بس یہی اس قوم کی زندگی کی نوید نظر آتی ہے ۔ موجودہ حکمران انتہائی زیرک اور منجھے ہوئے سیاستدانوں کا اکٹھ ہے لیکن آج تک یہ سمجھ نہیں آسکا کہ دگرگوں ملکی حالات میں انھوں نے حکمرانی کا یہ ڈھول اپنے گلے میں کیوں ڈالا ہے۔ شاید حکمرانی کی شدید خواہش غالب آگئی ہو گی حالانکہ ایک بات تو صاف دیوار پر لکھی نظر آرہی تھی کہ حکمرانی کا یہ عرصہ زیادہ طویل ہر گز نہیں ہے لیکن کیا کیا جائے کہ حکمرانی کے طلبگار وں کے لیے یہ ایک ایسا حمام ہے جس میں محاورتاً نہیں حقیقتاً سب ننگے ہیں۔