ہمارا ٹیکس نظام ہی ہمیں لے ڈوبا

سوال یہ ہے کہ اُن سے ٹیکس وصول کرنے کا منصفانہ اور شفاف میکنزم موجود کیوں نہیں ہے؟


[email protected]

میں چند روز پہلے کھانے پینے کی کچھ چیزیں خریدنے ایک ملٹی چین بیکری پر گیا تو خریداری کے بعد میں نے رسید طلب کی تو وہاں پر موجود کیش کولیکٹر نے کہا کہ سر! مشین خراب ہے، میں نے سوچا کہ ہوسکتا ہے کہ ایسا ہی ہو۔ پھر میں نے دیکھا کہ مشین میں خرابی کا عمل ہفتے میں کئی کئی بار ہوتا ہے۔

مطلب اس دوران بیکری میں ہوئی خریدو فروخت (سیل)کا اندراج ہی نہیں کیا جاتا، یوں ٹیکس چوری کرکے سرکار کو چونا لگایا جاتا ہے۔ملک بھر میں موجود ایک لاکھ سے زائد ریٹیلر شاپس، بڑے چھوٹے اسٹورز اور دیگر تجارتی مارکیٹوں میں نہ جانے دن میں کتنی بار یہ مشینیں خراب ہوتی ہیں اور کتنی بار ٹھیک ہوتی ہیں، اور پھر شاید اسی ٹیکس چوری کا ذکر ہمارے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کر رہے تھے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پچھلی حکومت میں یہ مشین کم ہی ''خراب'' ہوا کرتی تھیں۔

خیر ہمارا ٹیکس سسٹم ہی خراب ہے ورنہ کسی کی کیا جرأت کے وہ ٹیکس دینے میں ہچکچاہٹ محسوس کرے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت بجائے اس سسٹم کو ٹھیک کرنے کے عوام پر ''ان ڈائریکٹ '' ٹیکس لگا کر وصولیاں کرتی ہے۔ اور یہ الزام بھی دیتی ہے کہ پاکستان کے عوام ''ٹیکس چور'' ہیں۔ٹیکس کی دو اقسام ہیں: ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ۔ انکم ٹیکس ، کارپوریٹ ٹیکس اور پراپرٹی ٹیکس ''ڈائریکٹ ٹیکسوں ''کی نمایاں مثالیں ہیں۔

کسٹمز ڈیوٹیاں، سینٹرل ایکسائز ڈیوٹیاں اور سیلز ٹیکس ان ڈائریکٹ ٹیکس ہیں۔ کسٹمز ڈیوٹیاں درآمدی سامان پہ لگتی ہیں۔سینٹرل ایکسائز ڈیوٹیاں برآمدی مال پہ لگتی ہیں۔ سیلز ٹیکس اندرون ملک اشیاکی خریدوفرخت پہ لگایا جاتا ہے۔اور پھر اس کے بعد کئی قسم کے نئے ٹیکس بھی دریافت کیے گئے جن میں ودہولڈنگ ٹیکس، ایڈوانسڈ انکم ٹیکس، ایف سی سرچارج، نیلم جہلم سرچارج وغیرہ ۔

ترقی یافتہ اور فلاحی ممالک میں حکومتیں ڈائریکٹ ٹیکسوں سے زیادہ رقم حاصل کرتی ہیں۔بلکہ ان کی 75 فیصد آمدن ڈائریکٹ ٹیکسوں پہ مشتمل ہے۔یہ منصفانہ اور انسان دوست ٹیکس نظام ہے۔ ان ملکوں میں جس شہری کی آمدن جتنی زیادہ ہو، وہ اتنا ہی زیادہ انکم ٹیکس یا کارپوریٹ ٹیکس دیتا ہے۔یوں حکومت امرا ء سے بیشتر رقم اکھٹی کرتی ہے اور کم آمدن والے شہریوں پر مالی بوجھ نہیں پڑتا۔ان ڈائریکٹ ٹیکس مگر امیر اور غریب کے مابین تمیز نہیں کرتے۔ایک ارب پتی بھی اتنے ہی ان ڈائریکٹ ٹیکس دے گا جتنے چند ہزار ماہانہ کمانے والا غریب ادا کرتا ہے۔

گویا ان ڈائریکٹ ٹیکس غیر منصفانہ ہیں،اسی فلاحی ممالک کی حکومتیں انھیں کم سے کم رکھنے کے جتن کرتی ہیںاور اگر ہم پاکستان میں ٹیکس کولیکشن کے حوالے سے رینکنگ کا جائزہ لیں تو ہم دنیا کے آخری نمبروں پر Surviveکررہے ہیں ، مثلاً ایک رینکنگ میں ہم 80ممالک کی فہرست میں 77ویں نمبر پر ہیں، یعنی اس قدر خراب صورتحال میں ہم ٹیکس کولیکشن کرتے ہیں کہ دنیا کی کئی رینکنگ میں ہمارا نام و نشان بھی نہیں ہے۔ اور پھر ایسا بھی نہیں ہے کہ حکومتوں نے اس حوالے سے بہتری کے لیے اقدامات نہیں کیے۔ لیکن کچھ مجبوریاں ہرحکومت کو درپیش رہی ہیں۔

مجھے یاد ہے کہ نواز شریف کے دوسرے دور میں بھی یہی مسئلہ تھا کہ عوام ٹیکس ادا نہیں کرتے، اُس وقت دیکھا گیا کہ پاکستان کی بیشتر صنعتیں اور تمام بڑے زمیندار ٹیکس نہیں دیتے۔ اس کے بعد فہرستیں بنیں ، کارخانوں کا سروے ہوا۔زرعی ٹیکس کی حدود پر بحث شروع ہوئی، زرعی اراضی کا سروے شروع کیا گیا کہ کتنا ٹیکس اکٹھا کرنے کی گنجائش ہے۔حسب توقع صنعتکاروں نے ٹیکس بڑھانے اور نئے ٹیکسز دینے سے انکار کیا، زمینداروں کی فصلیں خراب پیداوار دینے لگیں۔ بات بڑھی تو صنعتکار اور تاجر وزیراعظم تک جا پہنچے اور انھوں نے ''بریک'' لگا دی۔

جنرل پرویز مشرف نے تو اس بحث میں ایک نئی جان پھونک دی۔ انھوں نے ڈنڈا لہراتے ہوئے کہا کہ جو لوگ ٹیکس نہیں دیتے ان کے لیے اس ملک میں جگہ نہیں۔ایک بار پھر اصلاحات کا ایجنڈا تیار ہوا۔ جنرل پرویز مشرف کو پتہ چلا کہ پاکستان میں 80 فیصد سے زائد کاروبار تو زبانی کلامی چلتا ہے۔ یعنی لین دین کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں۔ تو انھوں نے ''معیشت کی دستاویز بندی''کی مہم کا اعلان کیا۔اس مہم کا مقصد صرف یہ تھا کہ ہر کاروبار اپنے آپ کو حکومت کے پاس رجسٹر کروا لے چاہے وہ ٹیکس دے یا نہ دے۔

وزیر خزانہ شوکت عزیز نے چاروں صوبوں میں گھوم پھر کر کاروباری اور تاجر طبقے سے ملاقاتیں کیں اور انھیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ ٹیکس نہیں مانگ رہے مگر صرف اتنا چاہ رہے ہیں کہ کاروبار کو ریکارڈ پر لے آئیں۔اب اگر اتنے بھولے ہوں تو کاروباری کاہے کے؟ تاجروں نے جنرل مشرف کے اس ''جھانسے'' میں آنے سے انکار کر دیا اور وہ فارم سر عام نذر آتش کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا جو حکومت نے انھیں اس حکم کے ساتھ بھیجے تھے کہ انھیں پر نہ کرنا قابل دست اندازی پولیس جرم ہو گا۔

الغرض سوال یہ نہیں کہ کاروباری حضرات ٹیکس کیوں نہیں دیتے؟ بلکہ سوال یہ ہے کہ اُن سے ٹیکس وصول کرنے کا منصفانہ اور شفاف میکنزم موجود کیوں نہیں ہے؟ سوال یہ بھی نہیں کہ ٹیکس دینے کا کلچر یہاں کیوں نہیں ہے؟ لہٰذا ہمیں اگر آگے بڑھنا ہے تو صاف بات ہے کہ ٹیکس نظام کو بہتر بنا کر اور کرپشن ختم کرنے کے لیے چیک اینڈ بیلنس کا نظام بنا کر ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے، اس کے لیے حکومت کو سب سے پہلے تاجروں کو اعتماد دینے کی ضرورت ہے، عوام کو اعتماد دینے کی ضرورت ہے کہ اُن کا پیسہ کہیں غلط جگہ استعمال نہیں ہوگا بلکہ صحیح جگہ استعمال ہوگا۔

انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس اور دیگر ٹیکسز کا تعین کرنے اور وصول کرنے والے سرکاری افسروں اور اہلکاروں کو بھی احتساب کے دائرے میں لانے کے قانون سازی کی جائے تاکہ تاجر اور ٹیکس افسر کا مک مکا ختم ہوسکے۔ ریاست کو عوام پر اور عوام کو ریاست پر اعتماد نہیں ! سب سے پہلے اس اعتماد کو بحال کرنا ہوگا ورنہ تاجر حضرات کی جیبوں سے پیسے نکلوانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، اور رہے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں