امریکا میں پاکستانی سفیر کی خودنوشت
امریکا کی طرف سے مداخلت، دباؤ یا دھمکی کوئی نئی بات نہیں
اعزاز چوہدری صاحب امریکا میں پاکستان کے سفیر بھی رہے ہیں اور خارجہ امور کے سیکریٹری بھی، مگر وہ بیوروکریسی سے وابستہ تکبر، بے حسی اور دوسری علتوں سے مبرا انتہائی نفیس انسان ہیں۔ اسی لیے میں ان کا قدردان تو تھا ہی مگر دو وجوہات نے اس تعلق کو مزیدمستحکم کیا۔
ایک یہ کہ چوہدری صاحب میرے گرائیں ہیں یعنی ان کا آبائی شہر بھی وزیرآباد ہے اور دوسرا یہ کہ ہم ہمسائے بھی رہے ہیں۔ اسلام آباد کے ایک ہی محلے میں کئی سال تک ایک ہی گلی میں مقیم رہے۔ کوہسار مارکیٹ کے سامنے 10 نمبر گلی (جسے ٹین ڈائوننگ اسٹریٹ بھی کہا جاتا ہے) میں میرے برابر سیکریٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود صاحب کا گھر تھا اور سامنے میرے بیچ میٹ اور بہت اچھے دوست ارشد مرزا (سیکریٹری داخلہ) رہتے تھے اور اسی گلی میں تیسرے یا چوتھے گھرمیں اعزاز چوہدری رہائش پذیر تھے۔
دوسری سروسز کی نسبت فارن سروس میں بعد از ریٹارمنٹ کتاب لکھنے کا رواج زیادہ ہے۔ حال ہی میں اعزاز چوہدری صاحب نے بھیDiplomatic Foot Prints کے نام سے ساڑھے چھ سو صفحے کی کتاب لکھ ڈالی ہے۔ کتاب کی ضخامت دیکھ کر گبھراہٹ توہوئی اور ساڑھے چھ سو صفحات پر پھیلا ہوا سفر خاصاطویل اور کٹھن نظر آیا، مگرشدید گرمی نے چونکہ باقی سرگرمیاں معطل کرکے زبردستی گھر پر نظر بند کردیا تھا، لہٰذا میں نے کتاب پڑھنے کا بھاری پتھر اٹھالیا اور کچھ دنوں میں یہ پروجیکٹ مکمل بھی کرڈالا۔
یہ ایک سفارتکار کی خودنوشت بھی ہے اور اس میں سفارتکاری کے مختلف پہلوئوں اور مختلف چیلنجوں کااحاطہ بھی کیا گیا ہے۔ کتاب کی زبان معیاری، تحریردلچسپ اور انداز دلکش ہے۔ ذاتی نوعیت کے واقعات (anecdotes) نے تحریر کو مزید دلچسپ بنادیا ہے، ابتدائی ابواب میں جو چیزبہت بھلی معلوم ہوئی وہ سفیر صاحب کااپنے والدین کا بہت محبت اور عقیدت کے ساتھ کیا گیا ذکر ہے۔
مڈل کلاس کے نوجوان بڑے عہدوں پر پہنچ کر اپنے ماضی اور اس سے جڑی ہر چیز کو فراموش کردیتے ہیں حتٰی کہ والدین کو بھی۔ مصنف کا تعلق مڈل کلاس سے ہے مگر اس کی اپنی ماضی سے اور خصوصاً اپنے والدین سے وابستگی کی شدت اور محبت کی حدت جابجا محسوس ہوتی ہے، اپنے origin اور اپنے پیاروں سے محبت کی خوشبو قاری کو کتاب کے پورے سفرمیں معطر رکھتی ہے۔
ملک میں آج کل امریکا کی طرف سے پاکستان کے اندرونی معاملات میں ''مداخلت''یا ''سازش'' پر بحث چھیڑی گئی ہے۔ اگر بات کسی قانونی نقطے یا آئین کی تشریح کی ہوتو یقیناً عدلیہ سے رجوع کیا جانا چاہیے اور جج صاحبان کی رائے حتمی سمجھی جانی چاہیے۔ مگر کسی غیر ملک کی طرف سے کوئی ایسی سازش تیار کی جائے جس سے ملکی سلامتی خطرے میں پڑجائے تو اس کی انکوائری کے لیے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانا ایسا ہی ہے جیسے کینسر کے علاج کے لیے مریض کو کسی انجینئر یا بیوروکریٹ کے پاس لیجایا جائے۔
غیر ملکی سازش کا کھوج لگانے کے ماہر یا اسپیشلسٹ صرف عسکری ادارے اور انٹیلی جنس ایجنسیاں ہیں، جن کے سربراہ بار بار وضاحت کر چکے ہیں کہ کسی غیر ملکی سازش کے شواہد نہیں ملے، ہاں سفیرِ پاکستان کے مراسلے میں امریکا کے کسی افسر کی رائے کوپاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا جاسکتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکا کی طرف سے ''مداخلت'' پہلی بار ہوئی ہے؟ کیا یہ 'مداخلت' سب سے سنگین تھی؟ اور کیا امریکا کی طرف سے ماضی میں پاکستان کو کبھی دھمکی بھی دی گئی ہے؟
اس سلسلے میں زیرِ نظرکتاب میں بھی بڑی دلچسپ معلومات ملتی ہیں۔ لہٰذا ہم کتاب کے آخری ابواب پر پہنچتے ہیں۔ اعزاز چوہدری صاحب لکھتے ہیں کہ 2016 میں جب وہ امریکا میں پاکستان کے سفیر بن کر پہنچے تو ہمارے نیول چیف ایڈمرل ذکاء اللہ بھی امریکا کے سرکاری دورے پر پہنچے ہوئے تھے۔ نیول چیف کی امریکی کانگریس کے ممبر (ہائوس آف فارن کمیٹی میں ایشیا گروپ کے ممبر) بریڈ شرمن سے ملاقات کے دوران میں ان کے ہمراہ تھا، میٹنگ شروع ہوتے ہی شرمن نے چڑھائی کردی، میں نے شدت سے محسوس کیا کہ امریکی کانگریس کارکن ہماری طرف سے کیے گئے تعاون کا اعتراف کیے بغیر جج بن کر فیصلہ سنائے جارہا ہے۔
اس نے صاف صاف بتادیا کہ ''پاکستان نیوی کے ساتھ تعاون تب ہوگا جب آپ شکیل آفریدی کو رہا کریں گے'' پھر اس نے اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کا طعنہ دیا اور بڑے جارحانہ انداز میں پاکستان کی طرف سے حقانی نیٹ ورک کی سرپرستی کا ذکر کیا۔'' اس کی ساری باتیں پاکستان کے اندرونی معاملات میں شدید مداخلت تھیں۔
سفیر صاحب مزید لکھتے ہیں جب سب کی توقعات کے برعکس ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے صدر منتخب ہوگئے تو امریکی انتظامیہ کے ساتھ رابطے کے لیے وزیرِاعظم کے سب سے قابلِ اعتماد وزیر، وزیرِخزانہ اسحاق ڈار کو بھیجا گیا، میزبان ملک کے پروگرام کے مطابق پاکستانی وزیرِخزانہ کی سب سے پہلی ملاقات امریکا کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر لیفٹینٹ جنرل میک ماسٹر کے ساتھ طے کی گئی تھی، روایت کے مطابق میں سفیر کی حیثیت سے وزیرِخزانہ کے ہمراہ تھا۔ یہاں بھی ملاقات شروع ہوتے ہی میک ماسٹر نے انتہائی جارحانہ انداز میں پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کردی۔
اس نے ڈار صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ''افغانستان کے عدمِ استحکام کا ذمے دار صرف پاکستان ہے'' اس نے صاف لفظوں میں کہا کہ تم لوگ طالبان کے ساتھ ملے ہوئے ہو۔ عسکری تنظیموں کی مدد اور حقانی نیٹ ورک کی سرپرستی کرتے ہو، ایسا کرو گے تو امریکا کی طرف سے کسی تعاون کی امید مت رکھو، ظاہر ہے کہ امریکی جنرل کا رویہ ہمارے وزیرِخزانہ کے لیے بڑا مایوس کن تھالہٰذا اسحاق ڈار صاحب نے مایوس کن لہجے میں کہا ''جنرل! اگر آپ نے پہلے ہی ذہن بنا رکھا ہے تو میرا یہاں آنا بے سود ہے'' جنرل میک ماسٹر کی ساری گفتگو اسد مجید سے کی گئی گفتگو سے زیادہ سخت تھی اور اس میں پاکستان کے خلاف جارحانہ پن اور مداخلت شدید ترتھی۔
سفیر صاحب اپنی کتاب میں مزید لکھتے ہیں ''اکتوبر 2017میں جب خواجہ آصف وزیرِ خارجہ تھے تو امریکی حکومت نے انھیں واشنگٹن آنے کی دعوت دی۔ پاکستان کے وزیرِخارجہ کی آمد سے ایک روز پہلے سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی میں سینیٹر میک کین نے وزیرِ دفاع جنرل مَیٹس سے پوچھا کہ امریکا پاکستان کو اپنا طرزِعمل تبدیل کرنے پر مجبور کرنے کے لیے کونسے اقدامات اٹھانے جارہا ہے؟ جنرل میٹس نے کہا ''ہم پاکستان کے ساتھ بڑی سختی سے پیش آئیں گے۔''
کچھ عرصے بعد امریکی وزیرِ دفاع نے سی پیک کے بارے میں مخالفانہ بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یہ قبول نہیں کیونکہ ''یہ متنازعہ راستوں سے گزرتا ہے۔'' جلد ہی یہ واضح ہوگیا کہ امریکا اور بھارت مشترکہ طور پر سی پیک کی مخالفت کررہے ہیں۔ اس پس منظر میں خواجہ آصف کی امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن سے ملاقات ہوئی۔
وزیرِ خارجہ خواجہ آصف نے پاکستان اور امریکا کے دو طرفہ تعلقات بحال کرنے کی بات کی مگر ٹلرسن نے خواجہ آصف کی بات کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے دوٹوک انداز میں کہا کہ ''امریکا پاکستان کے ساتھ کسی قسم کا تعلق تب رکھے گا جب پاکستان طالبان کو مجبور کرکے مذاکرات کی میز پر لائے گا'' اعزاز صاحب کے بقول امریکا کی طرف سے یہ بہت سخت میسج تھا۔
گزشتہ روز خواجہ آصف کی امریکا کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر ہربرٹ ریمنڈمیک ماسٹر کے ساتھ ملاقات تھی، یہ ملاقات انتہائی مختصر اور تلخ تھی، خواجہ صاحب نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کی کوششوں کا ذکر کیا مگر میک ماسٹر نے ہمارے وزیرِ خارجہ کی بات کاٹتے ہوئے کہا ''مسٹر فارن منسٹر ! پاکستان اپنے طرزِ عمل میں بددیانت ثابت ہوا ہے، آپ دہشت گردوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں، یاد رکھیں! پاکستان شمالی کوریا کی طرح تنہائی کے راستے پر چل رہا ہے، اب یہ پاکستان پر ہے کہ وہ اپنے آپ کو تنہائی اور عالمی برادری کے ساتھ جنگ سے کس طرح بچاتا ہے'' مصنف نے انھی صفحات میں اُس وقت کے وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی کے دورے کا بھی ذکر کیا ہے۔
عباسی صاحب جب امریکا کے دورے پر آئے تو (یقیناً امریکا کی ناراضگی کی شدت جاننے اور اس کی دھمکیاں سننے کے بعد) انھوں نے صاف الفاظ میں سفیرِ پاکستان سے پوچھا ''اعزاز صاحب ! کیا امریکا ہمیں سزا دینے جارہا ہے؟ اور اگر اس نے سزا کا ارادہ کرلیا ہے تو سزا کس قسم کی ہوسکتی ہے ؟''
اس پر سفیر صاحب کے بقول میں نے کہا کہ ''امریکا دفاعی تعاون ختم کرسکتا ہے، اقتصادی امداد بند کرسکتا ہے، FATFکے معاملے پر ہمیں تنگ کرسکتا ہے، آئی ایم ایف کے ذریعے پریشان کرسکتا ہے اور بالآخر ہم پر پابندیاں عائد کراسکتا ہے۔
لہٰذا امریکا کی طرف سے مداخلت، دباؤ یا دھمکی کوئی نئی بات نہیں، 1998میں ایٹمی دھماکوں سے پہلے بھی اور بعد میں بھی پاکستان پر سب سے زیادہ دباؤ ڈالا گیا اور شدید ترین دھمکیاں دی گئیں، مگر اُس وقت کی سیاسی قیادت نے ان دھمکیوں کی بالکل پرواہ نہ کی مگر انتہائی تحمل اور maturity کا مظاہرہ کیااور ملکی مفاد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ان دھمکیوں اور امریکا کے جارحانہ رویے کا پروپیگنڈہ کرنے یا بین الاقوامی تعلقات کو چوکوں اور چوراہوں پر زیرِبحث لانے سے گریز کیا۔ کتاب کے کچھ مندرجات اور مصنف کے کچھ خیالات پر راقم کو تحفظات بھی ہیں، جن کا ذکر اگلے کالم میں ہوگا۔ (جاری ہے)