حکومت سندھ اور تعلیم کا بجٹ
سندھ ٹیکسٹ بورڈ میں حکام کی نا اہلی کی بناء پر اس سال اسکولوں کی درسی کتابیں شائع نہیں ہوسکی ہیں
کراچی:
سندھ کا سب سے پسماندہ ضلع تھر ہے۔ تھر سے تعلق رکھنے والے 60 سے زائد اساتذہ نے ، جن میں 46 پی ایچ ڈی (یہ اساتذہ مختلف یونیورسٹیوں میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں) شامل ہیں، نے 2019ء میں ایک یاد داشت میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے مطالبہ کیا تھا کہ تھر میں یونیورسٹی قائم کی جائے۔
بلاول بھٹو نے تھرکے ان اساتذہ کے اس مطالبے کو جائز اور اہم قرار دیا تھا ، مگر یہ وعدہ عملی شکل اختیار نہ کرسکا۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے جب صوبہ کا بجٹ صوبائی اسمبلی میں پیش کیا تو تھرکے ان دانشوروں کو ایک دفعہ پھر مایوسی ہوئی۔ حکومت سندھ نے بجٹ میں چھ یونیورسٹیوں یا یونیورسٹی کیمپس کے قیام کے لیے 18.704 بلین کی رقم مختص کی ہے مگر تھرکا نام ، نئی یونیورسٹیوں کی فہرست میں شامل نہیں ہے۔
تھرکی کل آبادی 17 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے ، جہاں صرف لڑکوں کے لیے ایک ڈگری کالج ہے۔ اسی طرح لڑکیوں کے لیے بھی ایک ڈگری کالج ہے۔ 2انٹرمیڈیٹ تک کے کالج ہیں اور 8 ہائی اسکول ہیں۔ تھر سات تحصیلوں پر مشتمل ہے مگر چھ تحصیلوں میں لڑکیوں کے لیے کوئی ہائی اسکول نہیں ہے۔ حکومت سندھ نے این ای ڈی انجینئرنگ یونیورسٹی کا تھر میں کیمپس قائم کیا ہے مگر اس کو انسٹی ٹیوٹ کا درجہ دیا گیا ہے۔
این ای ڈی کی نگرانی میں کام کرنے والے انسٹی ٹیوٹ میں اب تک طلبہ کے تین بیچ آچکے ہیں۔ ان تین برسوں میں 45 طلبہ کو داخلہ دیا گیا جن میں سے صرف 18 طلبہ کا تعلق تھر سے ہے۔ تھر میں بیماریوں کی شرح خاصی ہے مگر کوئی میڈیکل کالج ابھی تک قائم نہیں ہوا۔ اسی طرح کوئی جدید ترین اسپتال بھی نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کی 14سالہ دور حکومت میں تھر میں سی پیک منصوبہ کے تحت کوئلہ سے پیدا ہونے والی بجلی کے کارخانے لگائے گئے ہیں۔
کئی ملٹی نیشنل کمپنیاں تھرکے علاقہ میں مختلف ترقیاتی منصوبوں پرکام کر رہی ہیں مگر پیپلز پارٹی ، اقتدارکے طویل دورانیہ میں تھرکی پسماندگی کو ختم کرنے کے لیے دور رس اقدامات نہیں ہوئے۔
وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے 14 جون کو سندھ کا بجٹ صوبائی اسمبلی میں پیش کیا مگر اس دفعہ پھر بجٹ میں تھرکے لیے کوئی اچھی خبر موجود نہیں۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے اسکول سیکٹر کے لیے 326.86 بلین روپے مختص کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارہ یو این ڈی پی کے تیارکردہ Human Development Index Report میں خواندگی کا تناسب 58 فیصد ہے۔ 2019ء میں جاری ہونے والے اکنامک سروے میں بتایا گیا ہے کہ مردوں میں خواندگی کی شرح کم ہوکر 63.00 اور خواتین میں خواندگی کی شرح 62.00 تک پہنچ گئی ہے۔
یو این ڈی پی ، رپورٹ کے مطابق معاشی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ نے خواندگی کی شرح بڑھانے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔ خواندگی کی شرح کا براہِ راست معاملہ نظامِ حکومت سے جڑا ہوا ہے۔ والدین کو زیادہ بچے پیدا کرنے سے گریز کرنے کے لیے فیملی پلاننگ کے طریقہ کار کی مد میں اس بجٹ میں کوئی رقم مختص نہیں کی گئی ہے۔ حکومت سندھ کو اس ضمن میں دیگر ممالک کے ماڈلز سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
پڑوسی ملک بھارت میں خواندگی کی شرح میں اضافہ کے لیے کئی اسکیمیں نافذ ہوئیں۔ وہاں بچوں کو یونیفارم اورکتابیں مفت مہیا ہوتی ہیں۔ بچوں کو ناشتہ اور دوپہرکا کھانا لازماً فراہم کرنے سے اسکول کے انرولمنٹ بڑھتا ہے۔ بھارت میں بعض ریاستوں میں بچوں کو ان سہولتوں کے علاوہ وظائف دینے کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا۔ یو پی میں دیہات کی لڑکیوں کو سرکاری طور پر سائیکلیں تقسیم ہوئیں تاکہ وہ آسانی سے اسکول جاسکیں ، مگر حکومت سندھ کے بجٹ کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ بجٹ بنانے والے ماہرین کے لیے خواندگی میں اضافہ کا ہدف حاصل کرنے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
سندھ میں سرکاری اسکولوں کے حالات بہت خراب ہیں۔ اسکولوں میں اساتذہ کی کمی رہتی ہے۔ دیہات کے اسکولوں میں چار دیواری کا نہ ہونا اور گھروں سے دور اسکول لڑکیوں کی تعلیم کی شرح کو متاثر کرتے ہیں۔
حکومت سندھ نے گزشتہ ماہ ایک انوکھا اعلان کیا کہ اساتذہ کی کمی دور کرنے کے لیے اساتذہ کے ٹیسٹ میں کامیابی کی شرح کم کی گئی۔ اب تیسرے درجہ میں پاس ہونے والے افراد بھی استاد کی حیثیت سے سرکاری ملازم قرار پائیں گی۔ ان اساتذہ کے لیے انٹرویو کی شرط ختم کی گئی۔ برطانوی حکومت نے اساتذہ کے تقرر کے لیے بی ایڈ کی سند کو لازمی قرار دیا تھا۔
موجودہ حکومت نے یہ تمام شرائط ختم کردی ہیں۔ اب استاد بننے کے لیے انٹرویو دینا لازمی نہیں ہے ، یوں حکومت ان اساتذہ کی تقرری پر ہر سال کئی ارب روپے خرچ کرے گی مگر صوبے کا تعلیمی معیار پست رہ جائے گا۔ حکومت سندھ نے کالجوں کے قیام اور ان کی تقرری کے لیے 26.768 بلین مختص کیے ہیں۔
صوبے میں سرکاری کالجوں کے حالات انتہائی خراب ہیں ، ان کالجوں میں انفرا اسٹرکچر کو بہتر بنانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، اگرچہ کالجوں میں اساتذہ کی تعداد خاطر خواہ ہے مگرکالجوں میں تدریس کا معیار پست ہے۔ انٹرمیڈیٹ میں پڑھنے والے طلبہ کا وقت کوچنگ سینٹروں میں تعلیمی صلاحیت بہتر بنانے میں گزر جاتا ہے۔ اندرون سندھ آرٹس کے چند مضامین میں تدریس ہوتی ہے۔
سندھ حکومت نے کراچی کے چند کالجوں میں کمپیوٹر سائنس میں بی ایس کی ڈگری کورس شروع کیا ہے ، جس کی بناء پر طلبہ کی اکثریت کو نجی کالجوں اور یونیورسٹیوں کی طرف رخ کرنا پڑتا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے بی ایس ایسوسی ایٹ کی ڈگری کی اسکیم پیش کی تھی۔ اس اسکیم میں نئے مضامین شامل کیے گئے تھے مگر اس اسکیم کو انتہائی بھونڈے انداز میں نافذ کیا گیا۔
اسکولوں اورکالجوں میں غیر حاضر اساتذہ کا ادارہ خاصا منظم ہوچکا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اعلیٰ حکام اس ادارہ کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ کراچی میں قومیائے ہوئے اسکولوں اورکالجز کی شاندار عمارتیں اور وسیع میدان تھے۔ موجودہ حکومت کے دور میں محکمہ تعلیم کے افسروں اور ان تعلیمی اداروں کے سابقہ مالکان کی ملی بھگت سے کئی درجن اسکول اورکالج اپنے پرانے مالکان کو تحفہ میں دے دیے گئے۔ ہر تعلیمی سال میں کراچی کے آغاز سے پہلے یہ خبریں آتی ہیں کہ کسی قدیم اسکول کی عمارت پر با اثر افراد نے قبضہ کرلیا ہے۔
سندھ ٹیکسٹ بورڈ میں حکام کی نا اہلی کی بناء پر اس سال اسکولوں کی درسی کتابیں شائع نہیں ہوسکی ہیں۔ حکومت نے 6 اضلاع میں نئی یونیورسٹیاں قائم کرنے یا نئی یونیورسٹی کیمپس کے قیام کے لیے خطیر رقم مختص کی ہے۔ یہ ایک اچھا اقدام ہے مگر تھر میں بھی یونیورسٹی کا قیام ضروری ہے۔ سندھ کی قدیم یونیورسٹیوں ، جامعہ کراچی اور سندھ یونیورسٹی کا انفرا اسٹرکچر زبوں حالی کا شکار ہے۔
ان یونیورسٹیوں میں انتظامی اور مالیاتی بحران ختم نہیں ہو پاتا۔ کراچی یونیورسٹی تو تین برس سے وائس چانسلر سے محروم ہے۔ حکومت کو ان دونوں یونیورسٹیوں میں جدید ترین سہولتوں کی فراہمی اور انفرا اسٹرکچر کی ترقی کے لیے معقول رقم مختص کرنی چاہیے تھی۔ مجموعی طور پر سندھ کا تعلیمی بجٹ ویسا ہی ہے جیسا ماضی میں ہوتا تھا اور سندھ تعلیمی شعبہ میں پنجاب اور خیبر پختون خوا سے پیچھے ہے۔ حکومت کی کارکردگی سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ صورتحال تبدیل نہیں ہوگی۔