طالبان سے مذاکرات
افغان حکومت کی سہولت کاری سے ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کا عمل جاری ہے
لاہور:
پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی نے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے مذاکرات پر اتفاق کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات آئین اور پارلیمنٹ کی رہنمائی کے تحت ہوں گے۔
وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی اجلا س کو بتایا گیا کہ افغان حکومت کی سہولت کاری سے ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کا عمل جاری ہے، جس میں حکومتی قیادت میں سول اور فوجی نمائندوں پر مشتمل کمیٹی نمائندگی کرتے ہوئے آئین پاکستان کے دائرے میں بات چیت کر رہی ہے، جس پر حتمی فیصلہ آئین پاکستان کی روشنی میں پارلیمنٹ کی منظوری، مستقبل کے لیے فراہم کردہ رہنمائی اور اتفاق رائے سے کیا جائے گا۔
قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کے جو مندرجات منظر عام پر آئے ہیں، ان کے مطابق مذاکراتی عمل کی کامیابی کو پارلیمنٹ کی منظوری سے مشروط کیا گیا ہے، جمہوری ممالک میں سب سے سپریم ادارہ پارلیمنٹ ہی ہے، اس کی بالا دستی کو تسلیم کرتے ہوئے ہی مسائل کا پائیدار اور مستحکم حل ممکن ہوتا ہے۔
یہ امر باعث اطمینان ہے کہ مذاکرات ''مثبت سمت'' میں گامزن ہیں۔ دوسری جانب یہ مذاکرات افغان طالبان کی جانب سے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں پیدا ہونے والی کشیدگی میں کمی کی کوشش بھی قرار دیے جا رہے ہیں۔
گزشتہ برس کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان اور پاکستان کے درمیان سرحدی پہاڑی خطے میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے جب کہ متعدد مواقعے پر پاکستان اور افغان سرحدی محافظوں کے درمیان جھڑپیں بھی دیکھی گئی ہیں۔ بعض ناقدین کا خیال ہے کہ اس طرح کے مذاکرات ہونے چاہیں اور کچھ کا خیال ہے کہ مذاکرات بالکل نہ کیے جائیں۔ میڈیا کی ایک خبر کے مطابق ان مذاکرات میں معاونت افغان طالبان کر رہے ہیں۔ فریقین کو کچھ شرائط پر تحفظات ہیں لیکن پھر بھی جنگ بندی کی مدت میں غیر معینہ وقت کے لیے اضافہ کر دیا گیا ہے۔
مذاکراتی عمل کے حوالے سے تجزیہ نگاروں اور ماہرین کی رائے منقسم ہے، پہلی رائے کے مطابق حکومت کو ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کو غیر محسوس طریقے سے ختم کرنا چاہیے تھا اور انھیں غیر مسلح کرنا چاہیے تھا، لیکن ان سے مذاکرات شروع کر دیے گئے، تاہم یہ مذاکرات غیر مشروط نہیں ہونے چاہئیں اور تحریک طالبان پاکستان کو کسی بھی طرح کی کوئی بڑی رعایت نہیں دینی چاہیے کیونکہ اس سے وہ مضبوط ہوں گے، ماضی میں بھی ایسا کرتے رہے ہیں۔
دوسری رائے کے مطابق مذاکرات کرنے کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اگر ٹی ٹی پی کے لوگ اسی طرح افغانستان میں رہیں گے، تو انھیں کوئی بھی دشمن ایجنسی پاکستان کے خلاف استعمال کر سکتی ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ افغان طالبان نے اصرار کیا ہو کہ ٹی ٹی پی کے لوگوں کو ایک بار پھر مذاکرات کا موقع ملنا چاہیے اور اگر وہ پاکستان کی شرائط نہ مانے تو پھر نہ صرف پاکستان ان کے خلاف کارروائی کرے بلکہ افغان طالبان بھی ان کے خلاف کارروائی کریں گے۔
تیسری رائے کے مطابق حکومت کو طالبان سے اپنی شرائط منوانی چاہیے۔ اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ وہ آئین کو مانیں، ہتھیار پھینکیں اور اس بات کا عہد کریں کہ وہ ریاست کی رٹ کو چیلنج نہیں کریں گے۔
اس کے علاوہ جو دہشت گرد بڑے حملوں میں ملوث ہیں، انھیں معافی نہیں ملنی چاہیے۔ تجزیہ نگاروں کی رائے کی اہمیت سے انکار ممکن نہیںہے۔ دراصل تحریک طالبان پاکستان سے جڑے عسکری گروہ گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے پاکستانی فورسز اور عام شہری جان و املاک کے خلاف بدترین حملوں میں ملوث رہے ہیں ۔ حکومت اور تحریک طالبان پاکستان میں ماضی میں بھی مذاکرات ہوتے رہے اور معاہدے بھی ہوئے۔
پہلا معاہدہ اس وقت ہوا نیک محمد تحریک طالبان پاکستان کی سربراہی کر رہا تھا اور یہ تنظیم ابھی ابھری ہی تھی اور مکمل طور پر کسی تنظیم کی شکل میں موجود نہیں تھی لیکن وہ اور اس کے ساتھ وعدوں کی خلاف ورزی کرنے لگ گئے۔ دوسرا معاہدہ بیت اللہ محسود کے دور میں ہوا، جب کہ پاکستان کی حکومت نے مختلف قبائلی علاقوں میں مقامی سطح پر بھی طالبان سے رابطہ کیا اور معاہدے کیے۔
تیسرا بڑا معاہدہ مالا کنڈ میں ہوا ، جس کے نتیجے میں حکومت کو بہت سارے انتظامی اور عدالتی اقدامات اٹھانے پڑے۔ حکومت نے سابقہ اورکزئی، خیبر، شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان، مہمند اور کرم ایجنسیوں میں مقامی طور پر بھی عسکریت پسندوں سے معاہدے کیے۔
ناقدین کا خیال ہے کہ ان معاہدوں کی وجہ سے تحریک طالبان مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی اور اس نے نا صرف قبائلی علاقوں میں بڑے بڑے حملے کیے بلکہ پشاور، لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی کراچی اور سکھر سمیت ملک کے کئی اور علاقوں میں بھی دہشت گردانہ حملے کیے۔ افغانستان پاکستان کا ایک اہم ہمسایہ ملک ہے، اس کے ساتھ پاکستان کو تعلقات بہتر بنانے اور اپنا اثر بڑھانے کے لیے بھارت کے مقابلے میں موثر اقدامات کی ضرورت ہے، افغانستان کو بھی یہ بات سمجھنی چاہیے کہ پاکستان افغان مہاجرین کو کئی دہائیوں سے پناہ دیے ہوئے ہے اور اس کا پاکستان کی معیشت پر برا اثر پڑا ہے۔
پاکستان میں ایک طاقتور طبقہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کرنے کے لیے ریاستی پالیسی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن دیکھا گیا ہے کہ جب بھی ٹی ٹی پی اور اس کی دیگر سسٹرآرگنائزیشنز کے ساتھ نرم رویہ اختیار کیا گیا، انھوں نے خود کو ازسرنو منظم کیا، مزید طاقت حاصل کی۔
ریاست پاکستان کے ساتھ وفادار لوگوں کو گھات لگا کر قتل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا، لہٰذا حکومت اس بار ٹی ٹی پی کے ساتھ جو بھی مذاکرات کرے، اس کے ماضی کے رویے اور کردار کو سامنے رکھ کر کرے۔ حکومت کو عسکریت پسندوں کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھنی چاہئیں اس لیے نہیں کہ ملک کی اندرونی سلامتی اور تحفظ داؤ پر لگا ہوا ہے بلکہ اس لیے کہ سفارتی، علاقائی اور اقتصادی صورت حال بھی نہایت دگرگوں ہے۔ سیاسی رہنماؤں کو دیانت داری سے کوششیں کرنا ہوں گی تاکہ قومی اتفاق رائے پیدا کیا جاسکے، اب سفارت کاروں کا اصل امتحان ہے دیکھتے ہیں کہ وہ بین الاقوامی برادری کو علاقائی تنازعات اور اپنے تحفظات کے حوالے سے کس حد تک باورکرانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
عسکریت پسندوں کی فتنہ انگیزیوں سے نمٹنے کے لیے نتیجہ خیز سیاسی اور جارحانہ موزوں کارروائیوں کی منصوبہ بندی سے گیند کو بین الاقوامی برادری کے میدان میں پھینکا جا سکتا ہے۔
انتہا پسند گروہ اور دہشت گرد تنظیموں کے پشت پناہوں اور سہولت کاروں کو یہ غلط فہمی کہ حکومت کی رٹ چیلنج کرنا مشکل نہیں ہے اور حکومت کو چکر دینا بھی کوئی مشکل کام نہیں ہے کیونکہ وہ ماضی میں یہ کھیل کھیلتے آئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں کارروائیاں کرنے والے دہشت گرد گروہ ابھی تک فعال ہیں۔ پاکستان کے پالیسی سازوں، عسکری منصوبہ سازوں، سیاستدانوں اور بیوروکریسی کو دھوکا دہی، مکاری، جھوٹ اور منافقت کے کھیل کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ تاریخ میں جن قوموں اور ملکوں نے ایسے ہتھیار بند سفاک اور شاطر جنگجو گروپ کا خاتمہ کیا ہے۔
انھوں نے غیرمعمولی ذہانت، جرات اور زیرو ٹالرنس پالیسی اختیار کرکے ہی اپنے اہداف حاصل کیے ہیں۔ کسی بھی متنازعہ مسئلے سے نمٹنے کے لیے قیادت کا مضبوط اور مصمم ارادوں پر قائم رہنا ضروری ہے کیونکہ باغی اور دہشت گرد گروپوں کی قیادت اور سہولت کار گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہیں اور بچھو کی طرح ڈنگ مارنے سے باز نہیں آتے۔
ہمیں یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہیے کہ ٹی ٹی پی مستقل طور پر افغانستان کے اندر سے پاکستان کی مسلح افواج اور سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا رہی ہے۔ صرف گزشتہ چند ماہ میں ٹی ٹی پی نے افغان سرزمین سے پاکستان پر 30 سے زائد حملے کیے ہیں جن میں ہمارے درجنوں جوان شہید ہوئے۔
افغان حکومت نے کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف اب تک کوئی سنجیدہ اور ٹھوس کارروائی نہیں کی، الٹا پاکستان کو حیلوں بہانوں سے قائل کر رہی ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے ساتھ برابری کی بنیاد پر مذاکرات کرے۔ کیا ماضی میں بارہا وعدے توڑنے والی عسکریت پسند تنظیم پر اعتبار کیا جاسکتا ہے؟ پاکستان کی قیادت تمام پہلو سامنے رکھ کر فیصلے کرنا ہوں گے۔
پاکستان کی سلامتی کو شمال مغربی بارڈر سے سنگین چیلنجز درپیش ہو سکتے ہیں، ماضی اس کا گواہ ہے۔ قیام پاکستان کے بعد افغانستان دنیا کا واحد ملک تھا، جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کی تھی، گزشتہ ستر برس سے افغانستان کے حکمران خواہ ان کا تعلق کسی بھی نظریے یا جماعت سے ہو، انھوں نے پاکستان کے مفادات کو کبھی اہمیت نہیں دی اور ہمیشہ دو عملی کا مظاہرہ کیا ہے ۔
آج بھی افغانستان کی طالبان حکومت بھارت کے ساتھ رابطے میں ہے اور تعلقات بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے جب کہ پاکستان نے افغانستان اور افغانوں کے لیے عالمی سطح پر ترقی یافتہ ملکوں کی مخالفت مول لیے رکھی۔ موجودہ حالات میں ہمیں ایک ایک قدم پھونک کر رکھنا ہوگا اور ہر قدم قومی مشاورت سے اٹھانا ہوگا۔ پاکستان کو ٹی ٹی پی کے معاملے میں بہت محتاط ہونا پڑے گا۔ پڑوسی ہونے کے ناتے پاکستان کو افغانستان سے متعلق پالیسی میں بہت احتیاط سے فیصلے کرنا ہوں گے۔
آخر میں ہمیں اپنے اندرونی معاملات پہ بھی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ پوری پاکستانی قوم سیسہ پلائی دیوار بن کر اور یک جہت ہو کر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے۔