یہ وہ بجٹ تو نہیں…
پاکستان کا بجٹ مینڈک کے سائز کا ہے اور دفاعی اخراجات کی مثال بڑے ٹرک کی ہے
مرزا غالب واقعی دور بین بزرگ تھے' پاکستان کے بارے میں انھوں نے بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ ۔
؎قرض کی پیتے تھے مے 'لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائی گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
فاقہ مستی واقعی رنگ لا رہی ہے'مفت خوری' قرضہ خوری'دست نگری 'اور بھیک میں ملا لنگر کھانے کی عادت سے اب خیرات و امداد دینے والے بھی تنگ آئے گئے۔ انھیں یہ بھی پتہ چل گیا ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ محنت پر یقین نہیں رکھتا اور عادتاً، فطرتاً نکھٹو اور مفت خور ہے لیکن خیرات و امداد کو ہڑپ کرنا اور پرتیعش زندگی گزارنا، کوئی ان سے سیکھے۔ عمران خان کی نااہل اور بے خبر حکومت نے جو نسخے آزمائے' اور جو سابقہ تمام حکومتوں نے آزمائے تو شہباز شریف کی '' پنجاب اسپیڈ'' بھی اسی راستے پر دوڑ رہی ہے ۔
شہباز حکومت نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کی راہ لے کر خود کو مصیبت میں پھنساکر ایک بڑا چیلنج قبول کرلیا ہے۔ بہت سے دوستوں نے لکھا ہے لیکن میں پریشان ہوں کہ بجٹ پر کیا لکھوں؟ کیونکہ یہ وہ سالانہ بجٹ نہیں جس میں عوام کے لیے کچھ ہو۔
پاکستان کا مالی سال یکم جولائی سے 30جون تک ہوتا ہے' اس مالی سال کے اندر جتنی متوقع آمدنی یا خرچ ہو وہ سب بجٹ میں آجاتی ہے' پندرہ بیس برس پہلے عام لوگ اور کاروباری طبقہ سارا سال جون کا انتظار کرتے تھے کیونکہ بجٹ میں اگلے سال کے لیے اہداف مقرر کردیے جاتے تھے۔ بھلے دنوں میں ریلوے کا الگ بجٹ ہوتا تھا۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ حکمرانوں کے غیر پیداواری اخراجات جن میں دفاعی اخراجات و بیرونی قرضوں پر سود وغیرہ شامل ہیں' روز بروز بڑھ رہے ہیں' اس لیے ہمیشہ اخراجات زیادہ اور آمدنی کم ہوتی ہے' بڑے لوگوں سے ٹیکس وصولی چونکہ مشکل ہے، اس لیے ہمیشہ زائد اخراجات پورے کرنے کے لیے حکومت عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لیتی ہے یا غریبوں پر بالواسطہ یا بلا واسطہ ٹیکس لگا دیتی ہے۔اس لیے عوام کی فلاح و بہبود اور سوشل سیکٹر مثلاً تعلیم ' علاج اور روزگار کے وسائل پیدا کرنے کے لیے بہت کم رقم بچ جاتی ہے' پاکستان نے اپنے قومی غیرت اور جذبہ جہاد کی تسکین کے لیے ہندوستان نامی دشمن بھی پال رکھا ہے' مقابلے کے لیے ایک بڑی فوج بھی رکھی ہوئی ہے۔
انگریزی رسالے ٹائمز (TIMES)نے ایک بار لکھا تھا کہ ''پاکستان کا بجٹ مینڈک کے سائز کا ہے اور دفاعی اخراجات کی مثال بڑے ٹرک کی ہے' معیشت کا یہ چھوٹا مینڈک ' اخراجات کے اس بڑے ٹرک کے نیچے زندگی کی آخری سانسیں لے رہا ہے'' بہرحال یہ تو بجٹ کی عمومی صورت حال ہے' حکومت کو مال چاہیے' مال کمانے کے لیے ٹیکس لگائے جاتے ہیں چونکہ یہ ملک سرمایہ داروں 'جاگیرداروں ' قبائلی اشراف ، روحانی گدی نشینوں اور اعلیٰ ریاستی عہدیداروں کا ہے۔
افغان جہاد کے بعد اب تو مولانا حضرات بھی اس صف میں شامل ہوگئے جب کہ فلاحی اور چیریٹی ٹرسٹوں کے کرتا دھرتا بھی نئی طاقت بن چکے ہیں اور یہ طبقات تو ٹیکس نہیں دیتے' اسی لیے ٹیکس بھی صرف رعایا یا غریبوں پر لگایا جا سکتا ہے اور اس کی سو فیصد وصولی بھی ہے' بے چارے غریب جو بھی چیز خریدتے ہیں، اس پر عائد ہونے والے تمام اقسام کے ان ڈائریکٹ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔
مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے ملازمین چونکہ تنخواہ چھپا نہیں سکتے، اس لیے ان سے ٹیکس وصولی بھی سوفیصد ہے۔ اس ملک کی پوری اکانومی غریب محنت کشوں اور نچلے درجے کے ملازمین اور چھوٹے تاجروں کی آمدنی کے بل بوتے پر چلتی ہے' بڑے لوگ کھاتے ہیں اور چھوٹے لوگ کماتے ہیں، یہ تو ہوا بجٹ کا ایک عام جائزہ ۔ بہت عرصہ قبل میں نے بجٹ پر ایک کالم لکھا تھا اس کے بعد اس موضوع پر لکھنا بند کردیا ہے، کیوں ؟
پہلے عوام بڑی شدت سے بجٹ کا انتظار کرتے تھے' سال میں ایک دفعہ جو کچھ بھی ہونا تھا وہ بجٹ میں ہی ہوجاتا تھا 'مہنگائی کتنی ہوگی' کرایوں میں اضافہ کتنا ہوگا' ٹیکس کتنے لگیں گے 'بجلی کے ریٹ آئندہ سال کیا ہوں گے' تیل اور گیس کے نرخ اگلے سال کتنے ہوں؟ وغیرہ وغیرہ ' ریلوے کے بجٹ میں ریلوے کے کرایوں کا تعین بھی کرلیا جاتا۔
صوبائی بجٹ میں اربن ٹرانسپورٹ کے کرائے مقرر ہوجاتے تھے ، ٹیکسی ، رکشے وغیرہ کے لیے بھی فی کلومیٹر کے حساب سے نرخ مقرر ہوجاتے تھے۔بجٹ تقریر سننے کے بعد ہر فرد ایک سال کے لیے گھر کا بجٹ بنا سکتا تھا' ہر شخص کو آسانی ہوجاتی کیونکہ اگلے سال کے بجٹ تک ان پالیسیوں اور ٹیکسوں وغیرہ میں کمی بیشی نہیں ہوتی تھی' شدید ضرورت کے تحت اسمبلی میں ضمنی بجٹ یا مطالبات زر 'منظوری کے لیے پیش کر دیے جاتے۔
اب صورت حال مکمل طور پر بدل گئی ہے' نہ بجٹ کا تقدس قائم رہا اور نہ حکومت کے وزیر خزانہ کے الفاظ کا' اب بجٹ کے معنی بھی بدل گئے ہیں' سروسز اور اشیاء جو وہ عوام کو مہیا کرتی ہے' ٹرانسپورٹ اور ریلوے کے کرایے' بجلی اور توانائی کے دوسرے ذرایع سمیت بہت سی اشیاء حکومت نے بجٹ کی لسٹ سے نکال دی ہیں ۔
اب حکومت کی مرضی ہوتی ہے کہ کب وہ کسی چیز کے نرخ میں اضافہ کرتی ہے یا کمی ۔کمی کا لفظ میں نے ویسے ہی استعمال کردیا ورنہ ہمیشہ قیمتوں میں اضافہ ہی ہوتا ہے' آج کل حکومت کا نہیں بلکہ نیپرا 'اوگرا اور نہ جانے کن اداروں کی حکمرانی ہے۔ صبح اٹھ کر ٹی وی کھولیں تو بریکنگ نیوز آجاتی ہے کہ رات بارہ بجے اوگرا نے پٹرول کے ' نیپرا نے اچانک بجلی کے نرخ پانچ فی صد بڑھا دیے۔
بجلی کے نرخ کیا بڑھتے ہیں کہ کارخانوں میں بنائی گئی مصنوعات کی قیمتیں بھی خود کار طریقے سے بڑھ جاتی ہیں۔ زراعت کا انحصار بھی ڈیزل، ٹیوب ویل اور کھاد وغیرہ پر ہوتا ہے' بجلی کے نرخ بڑھنے سے ان کے نرخ بھی بڑھ جاتے ہیں۔ ابھی یہ غم تازہ ہوتا ہے کہ مہینے کا آخری دن آجاتا ہے شام کو ہی اعلان ہو جاتا ہے کہ گیس اور پٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتیں پھر بڑھ گئی ہیں' اب پھر مصیبت کیونکہ ٹرانسپورٹ اور بجلی گھر سب کے سب تیل کے محتاج ہیں۔
اسی طرح پھر قیمتیں بڑھنی شروع ہوجاتی ہیں مصیبت تو یہ ہے کہ ہر پندرواڑے کے آخری دنوں میں پٹرول پمپوں والے سپلائی روک دیتے ہیں' کسی دل جلے نے کیا خوب کہا ہے کہ ''نرخ بالاکن کہ ارزانی ہنوز''اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہر روز، ہر پندرواڑے اور ہر مہینے نیا بجٹ آتا ہو تو سالانہ بجٹ کی افادیت اور ضرورت کیا رہ جاتی ہے؟
حکمران اور سیاسی رہنماء ہر وقت پارلیمنٹ کی بالادستی کی باتیں کرتے ہوئے نہیں تھکتے 'اس بالادست پارلیمنٹ سے آج تک کبھی بجلی اور تیل جیسی چیزوں کو مہنگا کرنے یا اشیاء پر ٹیکس لگانے کے بارے میں منظوری نہیں لی گئی' عوام کے نمایندوں کو کبھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ ان اقدامات کے متعلق حکومت سے سوال کریں۔
پاناما لیکس پر شور مچانے والے 'پٹرولیم مصنوعات پر 40/60فی صدٹیکس پر خاموش ہیں۔حکمران ہوں یا حزب اختلاف سب ہی اس بارے میں یک زبان ہیں کہ عوام کا خون چوس لو' لیکن اس نظام اور مراعات یافتہ طبقوں کی مراعات کو نہ چھیڑا جائے، اگر کل ہمارے وزیرخزانہ صاحب نے بجٹ پیش کیا اور آج حزب اختلاف والے اس کو عوام دشمن کہہ رہے ہیں 'تو دونوں قوم کے ساتھ ڈرامہ کر رہے ہیں۔
آخر کل پیپلز پارٹی' تحریک انصاف یا ایم ایم اے نے بجٹ میں کون سے تیر مارے ہیں' ڈرامہ باز کہیں کے۔ اسی نظام زر کو سہارا دینا ہی موجود ہ ریاستی نظام، اس کے کل پرزوں اور سیاست دانوں کا فریضہ ہے۔ آپ بجٹ پر نظر ڈالیں تو غیر پیداواری اخراجات' بیرونی قرضوں کی ادائیگی' دفاعی اخراجات اور دوسرے ان اخراجات کے بعد جو مکمل طور پر حکمران طبقوں کے مفاد میں ہوں کوئی ایسی مد آپ کو نظر نہیں آئے گی۔
جس میں غریب طبقوں کے لیے بھی کچھ ریلیف دیا گیا ہو' اسی لیے میں نے بجٹ پر لکھنا چھوڑ دیا ہے۔ حکمران طبقے جان چکے ہیں کہ عوام کو جتنا نچوڑو ' کچھ نہ کچھ تیل نکل آتا ہے۔ یہ امر بالکل واضح ہے کہ جب تک پاکستان کو سیکیورٹی ریاست کے بجائے فلاحی ریاست نہیں بنایا جائے گا 'عوام کے لیے کچھ نہیں ہوگا۔ بہرحال پاکستان کے عوام آج کی نسل انسانی کا واحد انسانی گروہ ہے جو ہرقسم کا ظلم و جبر، جسمانی اور معاشی استحصال برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ بقول قتیل شفائی،
؎ دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے 'بغاوت نہیں کرتا