جب مہدی حسن نے اپنا ایک گیت جمال اکبر کو بخش دیا
ہر گلوکار مہدی حسن کے انداز میں نہیں گا سکتا
کراچی:
موسیقی کے حلقوں میں ایک بات بڑی جانی مانی تھی کہ مہدی حسن نے اپنا ایک گیت جسے نوجوان گلوکار جمال اکبر نے اپنی گائیکی کا ہم سفر بنایا تھا، اس گیت کو جمال اکبر ہر فنکشن میں گاتا تھا بلکہ اپنے فنکشن کا آغاز ہی مہدی حسن کے گائے ہوئے اس گیت سے کرتا تھا لوگ فنکشنوں میں اس گیت کو جمال اکبر کا ہی گیت سمجھنے لگے تھے، یہ گیت کراچی کی ایک نامکمل فلم کا تھا ''آجا کہیں دور چلیں'' کے لیے ایسٹرن فلم اسٹوڈیو میں کچھ عرصہ پہلے مہدی حسن کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ یہ میرا لکھا ہوا پہلا فلمی گیت تھا، جس کے موسیقار ریڈیو کے ایک کمپوزر اے غفور تھے۔ گیت کے بول تھے:
لے کے چلی ہوا مورا پیارگوری
لے کے چلی ہوا مورا پیار
اور میرے لکھے ہوئے پہلے گیت کی یہ خوش قسمتی اور میرے لیے بڑے اعزاز کی بات تھی کہ مہدی حسن کی جادو بھری آواز کی بدولت میرا یہ گیت ماضی میں ریڈیو سیلون سے بھی بارہا نشر کیا جاتا رہا تھا۔ پھر یہی گیت جمال اکبر نے اپنا لیا اور ہر فنکشن میں اپنی گائیکی کا آغاز اسی گیت سے کرنے لگا تھا۔
یہاں میں یہ بات بتا دوں کہ مہدی حسن کی گائیکی کا ایک الگ اور منفرد انداز رہا ہے۔ ہر گلوکار مہدی حسن کے انداز میں نہیں گا سکتا۔ یوں تو پاکستان اور ہندوستان میں بھی ہزاروں گلوکاروں نے مہدی حسن کی گائیکی سے انسپریشن حاصل کی۔
انڈیا کی لیجنڈ گلوکارہ لتا منگیشکر نے مہدی حسن کی گائیکی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے یہ تک کہا تھا کہ ''مہدی حسن کے گلے میں بھگوان بولتا ہے۔'' انڈیا کا نامور غزل سنگر جگجیت سنگھ، مہدی حسن کی گائیکی کا دیوانہ تھا اور وہ مہدی حسن ہی کو اپنا روحانی استاد سمجھتا تھا۔ مہدی حسن کی زندگی میں ان کے تین گلوکاروں کو بڑی فوقیت حاصل رہی ہے ان میں تین نام بڑے اہم ہیں جنھیں مہدی حسن نے باضابطہ اپنا شاگرد بنایا تھا۔
ان میں ایک پرویز مہدی، دوسرا غلام عباس اور تیسرا شاگرد جمال اکبر۔ ہمیشہ یہ تینوں گلوکار مہدی حسن کی گڈ بک میں رہے ہیں۔ جمال اکبر نے مہدی حسن کے گیت جس کی بنا پر اسے فنکشنوں میں شہرت ملی وہ میرا لکھا ہوا ابتدائی گیت تھا۔ اس گیت کی وجہ سے مجھے بھی بڑی شہرت ملی اور میں اس گیت کی مقبولیت کے بعد ہی لاہور کی فلم انڈسٹری میں چلا گیا تھا اور موسیقی کی محفلوں میں بھی جس گیت کو گا کر فنکشنوں میں شہرت ملی وہ گیت جمال اکبر کی پہچان بنتا چلا گیا اور اس گیت کو جمال اکبر سے بارہا سن سن کر یہ سمجھنے لگے تھے کہ یہ گیت جمال اکبر کا ہی گایا ہوا ہے اور کسی فلم کے لیے اس نے گایا ہے یہ گیت اس کے فنکشنوں میں شناخت بن گیا تھا۔
جب اس بات کا مہدی حسن صاحب کو پتا چلا تو انھوں نے موسیقی کی ایک محفل میں جمال اکبر کے بارے میں کہا '' آج سے میں اپنا ایک گیت ''لے کے چلی ہوا مورا پیا گوری'' جمال اکبر کو ہی بخش دیتا ہوں۔ آج سے یہ گیت میری نہیں بلکہ جمال اکبر کی ملکیت میں آگیا ہے۔'' جمال اکبر کے لیے اپنے استاد کی طرف سے یہ کہنا بڑے فخر کی بات تھی اور یہ دن جمال اکبر کے لیے بڑا یادگار دن تھا۔
پھر جمال اکبر کی گائیکی کا سفر بڑی تیزی سے کامیابی کا سفر طے کرنے لگا۔ پھر جمال اکبر نے لاہور کی فلموں میں کئی گیت گائے۔ جمال اکبر جب ہندوستان ایک میوزک گروپ کے ساتھ گیا تو اس نے وہاں بھی مہدی حسن کے انداز میں گیت اور غزلیں گا کر بڑی دھوم مچائی تھی۔
پھر اس کے بعد یہ لندن چلا گیا وہاں ایک طویل عرصے تک رہا اور اپنی آواز کا جادو جگاتا رہا۔ لندن سے امریکا اور کینیڈا میں بھی اس کے بڑے میوزک کنسرٹ ہوتے رہے اور یہ مہدی حسن کے شاگرد کی حیثیت سے اپنی گائیکی کے ساتھ مہدی حسن کو بھی ٹریبیوٹ پیش کرتا رہا۔ بیرونی ممالک میں جمال اکبر ، مہدی حسن کی گائیکی کی جھلک کے ساتھ اپنے آپ کو خوب منوا چکا ہے اور بیرون ملک میں جمال اکبر کو مہدی حسن کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد اسے گلوکار مہدی حسن کا نعم البدل ہی سمجھتے ہیں اور یہ بات جمال اکبر کے لیے بھی باعث توقیر ہے۔
ان دنوں میں بھی پاکستان میں ہوں اور جمال اکبر بھی یہاں آیا ہوا ہے، گزشتہ ہفتے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جمال اکبر نے اپنی کلفٹن کی رہائش گاہ پر میرے اعزاز میں ایک خوبصورت محفل غزل کا اہتمام کیا جس میں مشہور اداکارہ اور ہدایت کارہ سنگیتا نے بھی بطور خاص شرکت کرکے اس محفل کی رونق بڑھا دی تھی۔ اس محفل میں کچھ ٹیلی وژن اور ڈراموں سے وابستہ شخصیات نے بھی شرکت کی تھی۔ شاعر اقبال سہوانی نے اس تقریب کی وڈیو بنائی۔ جمال اکبر نے سنگیتا کی فلم '' عشق عشق'' کے لیے میرا لکھا ہوا گانا '' نیناں رے تم ہی برے'' بھی سنگیتا کو خراج تحسین کے طور پر پیش کیا جو فلم میں ندیم ، کویتا پر فلمایا گیا جس کی موسیقی کمال احمد نے دی تھی۔ گیت کے بول تھے۔
نیناں رے نیناں تم ہی برے
تم سے برا نہ کوئے
آپ ہی پریت لگائے رے پگلے
آپ ہی بیٹھا روئے
یہ گیت فلم میں اداکار نعیم اور کویتا پر عکس بند کیا گیا تھا اور میں یہاں ایک دلچسپ بات اور بتاتا چلوں کہ فلم ''عشق عشق'' کے اس گیت کا پورا مکھڑا ہندوستان کے موسیقار ہمیش ریشمیا نے اپنی فلم ''عشق ڈینجرس'' میں کاپی کیا تھا ، مگر وہ گیت اور فلم دونوں فلاپ ہوگئے تھے اور سنگیتا کی فلم ''عشق عشق'' نے سارے پاکستان میں نمایاں کامیابی حاصل کی تھی۔ محفل غزل کے دوران اداکارہ و ہدایت کارہ سنگیتا نے اپنے ہدایت کارہ بننے پر کچھ یادیں باتیں شیئر کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہدایت کاری کے میدان میں اس لیے آئیں کہ بہت سے فلم ساز ان کے کرداروں پر توجہ نہیں دیتے تھے اور ہدایت کار بھی مجھے اچھے اور منفرد کردار دینے سے کتراتے تھے۔ انھیں زیادہ تر اپنی من پسند دوسری ہیروئنیں ہی زیادہ اچھی لگتی تھیں اور وہ جس طرح منفرد کردار چاہتی تھیں وہ کردار ان کو نہیں مل پاتے تھے۔ اسی لیے انھوں نے خود ہدایت کار بننے کا فیصلہ کیا۔ ابتدا میں ان کے والدین مہتاب بیگم اور طیب رضوی نے بڑی مخالفت کی کہ ''اگر تم ہدایت کار بن جاؤ گی تو دوسرے ہدایت کار جو تمہیں کبھی کبھی کاسٹ کرتے ہیں پھر وہ کاسٹ کرنا بھی چھوڑ دیں گے اور تم فلموں سے آؤٹ ہو جاؤ گی'' مگر سنگیتا بیگم اپنی ضد پر اڑی رہیں کہ میرا مستقبل میری اپنی ہدایت کاری میں بننے والی فلموں سے تابناک ہوگا۔ سنگیتا کی ضد کے آگے ان کے والدین نے ہتھیار ڈال دیے تھے اور پھر سنگیتا نے بحیثیت ہدایت کار فلم ''سوسائٹی گرل'' کا آغاز کیا اور اس فلم سے بعد کے مشہور مصنف و ہدایت کار سید نور نے بحیثیت کہانی نویس اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ سنگیتا کی فلم ''سوسائٹی گرل'' میں پہلے اداکار محمد علی کو ہیرو کاسٹ کیا گیا تھا، مگر جب محمد علی کو یہ پتا چلا کہ اس فلم کی ہیروئن کے علاوہ ہدایت کارہ بھی سنگیتا ہے تو محمد علی نے یہ کہہ کر سائننگ اماؤنٹ واپس بھجوا دیا تھا کہ میں کل کی بچی کی ڈائریکشن میں کام نہیں کر سکتا۔ سنگیتا نے پھر نئے اداکار غلام محی الدین کو محمد علی کی جگہ '' سوسائٹی گرل '' میں ہیرو کاسٹ کیا۔ ان دنوں غلام محی الدین شباب کیرانوی کی فلم ''میرا نام ہے محبت'' میں بابرہ شریف کے ساتھ ہیرو کاسٹ کیا گیا تھا اور اس کو کراچی سے لاہور بلوایا تھا۔ غلام محی الدین کی بحیثیت ہیرو وہ پہلی فلم تھی اور سنگیتا پروڈکشن کی '' سوسائٹی گرل '' اس کی لاہور میں دوسری فلم تھی۔ پھر ''سوسائٹی گرل'' نے شاندار کامیابی حاصل کی اور گولڈن جوبلی کی تھی۔ لاہور کی فلم انڈسٹری میں سنگیتا کی ڈائریکشن کی ایک دھوم مچ گئی تھی۔ پھر سنگیتا نے بحیثیت ہدایت کارہ و اداکارہ اپنے لیے منفرد کردار لکھوائے۔ سنگیتا پروڈکشن کی ایک فلم ''میں چپ رہوں گی'' کا اسکرپٹ میں نے لکھا تھا وہ بھی منفرد کردار کی حامل فلم تھی اور کریٹکس نے اس فلم کو بڑا سراہا تھا، پھر سنگیتا بیگم نے مشہور رائٹر رابندر سنگھ بیدی کی ایک ناول '' اک چادر میلی سی'' کو فلم کے اسکرپٹ میں ڈھالا اور اس ناول کو فلم کی کہانی کا روپ رائٹر اقبال رضوی نے دیا تھا۔ اس فلم میں سنگیتا ، کویتا کے ساتھ اداکار ندیم ، غلام محی الدین اور راحت کاظمی نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ فلم '' مٹھی بھر چاول '' سکھوں کی زندگی اور ثقافت کی آئینہ دار تھی جس کی تھیم یہ تھی کہ جب کسی عورت کے سر کا سائیں مر جاتا ہے تو وہ عورت ہمارے معاشرے میں بعض اوقات '' مٹھی بھر چاول'' سے بھی محروم کردی جاتی ہے۔ سنگیتا کی فلم '' مٹھی بھر چاول'' نے ناقابل فراموش کامیابی حاصل کی تھی۔ پاکستان کے علاوہ ہندوستان میں بھی اس فلم کے کیسٹ ریکارڈ فروخت ہوئے۔ یہ فلم امریکا اور خاص طور پر لندن میں بڑی پسند کی گئی تھی ، کیونکہ وہاں سکھوں کی بڑی آبادی رہتی ہے۔ اداکارہ سنگیتا نے اس محفل میں اپنی بہت سی قیمتی فلمی یادیں شیئر کیں۔