امن کی تلاش
مظاہروں کی قیادت کرنے والے مسلمانوں کے گھروں کو انتقاماً بلڈوزروں سے مسمار کردیا گیا ہے
گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان میں بحیثیت مجموعی امن وامان کی صورت حال اطمینان بخش ہی ہے۔ یہاں نہ اب پہلے جیسا دہشت گردی کا ماحول ہے نہ کوئی خونی عوامی احتجاج ہوا ہے ، نہ ہی جلاؤ گھیراؤ کا کوئی واقعہ پیش آیا ہے۔
اب وزیرستان میں ٹی ٹی پی کی جانب سے حملوں میں بھی کمی آئی ہے۔ البتہ ملک میں منعقد ہونے والے ضمنی انتخابات میں امیدواروں کے حمایتیوں کے درمیان مارپیٹ اور فائرنگ کے واقعات رونما ہوئے ہیں ان میں کراچی میں قومی اسمبلی کی خالی نشست NA-240 کی پولنگ کے دوران پیش آنے والا خونی واقعہ قابل ذکر ہے جس سے کراچی کی فضا مکدر ہوگئی ہے۔ یہ انتخابات ایم کیو ایم پاکستان کے ممبر اقبال محمد علی خان کی وفات کی وجہ سے منعقد ہوئے تھے۔ ان انتخابات میں کراچی کی تمام ہی سیاسی پارٹیوں نے حصہ لیا تھا مگر چار سیاسی پارٹیوں کا پلہ بھاری نظر آرہا تھا۔ ان میں ایم کیو ایم حقیقی ، پاک سرزمین پارٹی ، ایم کیو ایم پاکستان اور تحریک لبیک شامل تھیں۔
صبح کے وقت ووٹنگ پر امن طور پر جاری تھی مگر دوپہر کے وقت اندھا دھند فائرنگ شروع ہو گئی۔ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور رہنماؤں کو نشانہ بنانا شروع کردیا گیا۔ پی ایس پی کے مرکزی دفتر پر بھی زبردست فائرنگ کی گئی جس سے وہاں موجود کئی لوگوں کو گولیاں لگیں۔ پی ایس پی کے سربراہ مصطفیٰ کمال کو بھی ایک گولی پیر میں لگی جسے انھوں نے اپنے ہاتھ سے ہی نکال لیا تھا۔ سب سے افسوس ناک پہلو یہ رہا کہ فائرنگ کے نتیجے میں پی ایس پی کے کئی کارکنان شدید زخمی ہوئے جنھیں جناح اسپتال منتقل کرنا پڑا ، ان میں سے ایک کارکن کا اسپتال میں انتقال ہو گیا۔
اس سے قبل اسی دن پی ایس پی کے صدر انیس قائم خانی کی گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کی گئی چونکہ گاڑی بلٹ پروف تھی ، اس لیے وہ محفوظ رہے اور اس طرح ایک بڑا سانحہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔ دن بھر ہنگامے، فساد اور فائرنگ کی وجہ سے یہاں ووٹنگ میں خلل پڑا اور یوں ووٹنگ کا تناسب بہت کم یعنی صرف آٹھ فی صد کے قریب رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ ووٹنگ کی کم شرح اور ریکارڈ توڑ دھاندلی کی وجہ سے یہاں دوبارہ انتخابات ہونے چاہئیں۔ کئی سیاسی پارٹیوں نے اس کی مانگ کی ہے مگر ابھی تک الیکشن کمیشن خاموش ہے۔
پاکستان میں تو یہ حالات ہیں مگر اس وقت بھارت میں پاکستان کے مقابلے میں بدامنی عروج پر ہے۔ وہاں اس وقت بڑے پیمانے پر دنگے فساد، مظاہرے، جلاؤ گھیراؤ اور دہشت گردی جاری ہے۔ جب سے بی جے پی نے بھارت کا اقتدار سنبھالا ہے وہاں مسلمانوں پر مسلسل سرکاری عتاب جاری ہے۔ پورے بھارت میں ناموس رسالتؐ کے گستاخوں کے خلاف مسلمانوں کے مظاہرے جاری ہیں۔ بھارتی پولیس اور بی جے پی کے غنڈوں نے ان مظاہروں کو ناکام بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ کہیں مظاہرین کو بے دردی سے لاٹھیوں سے پیٹا گیا ہے تو کہیں فائرنگ کی گئی ہے۔ سیکڑوں مظاہرین کو شدید زخمی کیا گیا جس سے کئی شہادتیں بھی ہوئی ہیں۔
کئی شہروں میں مسلمان مظاہرین پر مندروں سے بھی فائرنگ کی گئی ہے۔ مظاہروں کی قیادت کرنے والے مسلمانوں کے گھروں کو انتقاماً بلڈوزروں سے مسمار کردیا گیا ہے۔ گزشتہ جمعہ کو مسلمانوں نے پورے بھارت میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ سڑکوں پر مظاہرے کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ان مظاہروں کو ناکام بنانے کے لیے بی جے پی حکومت نے پولیس اور نیم فوجی دستوں کو خصوصی ہدایات جاری کی تھیں۔ کہا گیا تھا کہ مظاہرین سے پوری طاقت سے نمٹا جائے اور گولیاں چلانے سے بھی گریز نہ کیا جائے مگر جمعہ کو بی جے پی کا سارا پلان ہی الٹ ہو گیا اور انھیں مسلمانوں کے بجائے ہندو مظاہرین سے نمٹنا پڑا۔ ہوا یہ کہ بی جے پی حکومت نے بھارت میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری سے نمٹنے کے لیے اور اپنی بھاری بھرکم چودہ لاکھ فوج کے اخراجات کو کم کرنے کے لیے فوج میں معمول کی بھرتیوں سے ہٹ کر چار سالہ مدت کی بھرتیاں شروع کی ہیں۔
اسے اگنی پتھ اسکیم کا نام دیا گیا ہے۔ اس اسکیم کے تحت ہر سال چالیس ہزار نوجوانوں کو بھرتی کیا جائے گا۔ انھیں فوجی ٹریننگ دے کر سرحدوں پر بھی بھیجا جائے گا مگر ان میں سے صرف دس ہزار نوجوانوں کو فوج میں باقاعدہ شامل کیا جائے گا اور باقی تیس ہزار کو فارغ کردیا جائے گا۔ مودی نے اپنے پہلے الیکشن 2014 میں اور دوسرے الیکشن 2018 میں ملک کے بے روزگار نوجوانوں کو نوے لاکھ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا مگر اس نے ایک نوکری بھی نہیں دی اور اب فوج میں بھرتی کے لیے نوجوانوں کا دل دکھانے والی اسکیم پیش کی ہے۔ ان کا سوال ہے کہ وہ فوج سے فارغ ہو کرکیا کریں گے ان کا ذرایع آمدن کیا ہوگا کیونکہ انھیں نہ تو پنشن ہی دی جائے گی اور نہ کوئی بھی سہولت مہیا کی جائے گی۔ چنانچہ اس عوام کو بہلانے والی اسکیم کے خلاف پورے بھارت میں ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں۔
ہر طرف توڑ پھوڑ اور آتش زنی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ کئی ریلوے اسٹیشنوں پر توڑ پھوڑ کی گئی، سیکڑوں ریلوے بوگیوں کو نذرآتش کردیا گیا ہے، اس وقت پورے بھارت میں ریلوے کا نظام ٹھپ ہوگیا ہے۔ کئی تھانوں اور بی جے پی کے رہنماؤں کے گھروں پر حملے ہوئے ہیں چنانچہ بی جے پی کے تمام رہنماؤں کے گھروں اور دفتروں پر پولیس کی بھاری نفری تعینات کردی گئی ہے۔ اگنی پتھ اسکیم کو حزب اختلاف کی تمام سیاسی پارٹیوں نے مسترد کردیا ہے ، ان کا کہنا ہے کہ اس اسکیم کے ذریعے بی جے پی اپنے غنڈوں کو فوجی ٹریننگ دلا کر انھیں اپنے مخالفین کو دبانے کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے۔ اس طرح وہ زور اور جبر کے ذریعے بھارت پر ہمیشہ ہمیشہ مسلط رہنے کا بندوبست کر رہی ہے۔
بھارتی دانشور بھی اس اسکیم کے خلاف ہیں ان کا کہنا ہے کہ فوجی ٹریننگ یافتہ بے روزگار نوجوانوں کی وجہ سے معاشرے میں تشدد، دہشت گردی، چوریوں اور ڈکیتیوں کے واقعات میں اضافہ ہوگا اور یوں پورا معاشرہ تباہ ہوکر رہ جائے گا۔ اس فوجی اسکیم کا نام ''اگنی پتھ'' مشہور فلمی اداکار امیتابھ بچن کے والد ہری ونش رائے بچن کی ایک نظم پر رکھا گیا ہے جس کا عنوان ''اگنی پتھ'' ہے۔ ہری ونش رائے ہندی میں قوم پرستانہ اور متعصبانہ شاعری کرتے تھے۔ انھوں نے ہندوؤں میں جوش اور جذبہ ابھارنے کے لیے یہ رزمیہ نظم لکھی تھی جو بی جے پی جیسی انتہا پسند جماعت کو بہت پسند ہے اور اسی لیے اس نے اس نظم کے نام پر یہ فوجی بھرتی کی اسکیم متعارف کرائی ہے۔ اس چار سالہ مدتی فوجی اسکیم کو بہرحال عوام نے مسترد کردیا ہے۔ اس اسکیم کو ناکام ہوتا دیکھ کر مودی نے فوراً اپنی خاموش توڑ کر اس کے حق میں بیان دیا ہے مگر وہ ناموس رسالتؐ کی بے حرمتی پر مکمل خاموش رہا تھا۔