آپا
جب آپا گئیں تومجھے لگاکہ جیسے اب میں بھی گیا، مگراب یہ احساس ہے کہ جورہ جاتے ہیں وہ بھی اسی پلیٹ فارم پرکھڑے مسافرہیں
بچپن سے یہ لفظ میرے کانوں میں بار بارگونجتا تھا اور اسی گونج سے گذری تھی زندگی میری۔ میری آپائیں جو میرا ہی عکس تھیں اور میں جیسے انھی کا بیٹا تھا۔ ان کا گھر سے یکے بعد دیگرے رخصت ہونا سب یاد ہے مجھے، مگر میری عمر چار سے پانچ سال ہی ہوگی۔
گاؤں سے لے کر نواب شاہ کے گھر تک کتنا بڑا آنگن تھا ، گلیاں تھیں ، چوبارے تھے، پریوں کی کہانیاں تھیں ، نیند نہ آتی تھی جب تک بڑی آپا ، اماں یا دادی مجھے کہانی نہ سناتی تھیں۔ میرے بڑے بھائی مجھ کو ڈراتے تھے، جنوں کی باتیں کر کے، کہانی میں جب رونے کی بات ہوتی تو میں روتا اور جب کوئی ہنسنے کی بات ہوتی تو میں ہنس لیتا۔ وہ کہانیاں میرے کوزے تھے شب بھر جن کی آغوش میں، میں سوتا تھا۔ گرمیوں کی راتوں میں اتنی ساری چارپائیاں لگتی تھیں کھلے آنگن میں ، آکاش پر ستاروں کی سیج سج جاتی تھی۔ سب موسم اپنے اپنے رنگوں کے ساتھ ہماری دہلیز پر رکا کرتے تھے۔ کئی تحریکیں ہماری دہلیز سے شروع ہوئیں۔
دہقانوں کی تحریک ہاری الاٹی موومنٹ ، آمریتوں کے خلاف تحریک ، مشرقی پاکستان پرڈھائے گئے ستم ، سندھی زبان کی تحریک اور کئی کتابوں کے انبار ہوتے تھے، مختلف رسالے آتے تھے۔ والد کی وکالت کا چیمبر بھی گھر سے منسلک تھا۔ قانون کی کتابوں کی لائبریری الگ اور دوسرے موضوعات کی کتابوں کی لائبریری الگ۔ ٹائپ رائٹرکی ٹپ ٹپ کرتی آوازیں۔ ایک میلا سا تھا جیسے زندگی میری۔ ہم دس بچے تھے اپنے والدین کے، پانچ بھائی اور پانچ بہنیں سب سے چھوٹا میں۔ میرے پیدا ہوتے ہی سب جیسے آہستہ آہستہ اڑتے گئے اور میں اماں کے ساتھ اکیلا رہ گیا۔ ویرانہ سا تھا پھر جیسے آنگن میں۔ پھر کبھی ایک بہن آتی ،کچھ دن ٹھہرتی تو پھرکوئی اور بہن اپنے بچوں کے ساتھ آ کے ٹھہرتی ، پھر چلی جاتیں پھر آتیں، بس ایسے ہی آنا جانا رہتا تھا۔
یہ میرا اپنا سا غم ہے مگر ہے یہ ہر ایک کے پاس، اپنی طرح سے رہتا کہ موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں۔ پل بھر کو امر ہے ، اور پل بھر میں دھواں ہے۔ میر ی آپا ارشاد ، جس کو ہم ارشی کہتے تھے ، کچھ اس طرح سے رخصت ہوئیں کہ اب وہ کبھی پلٹ کر نہیں آئیں گی، نہ اسٹیشن پر جب ریل گاڑی رکے گی، اس سے اتریں گی، نہ گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے آئیں گی۔ انھیں سرطان ہوگیا تھا گزشتہ پانچ برس سے وہ اس مرض سے بڑی بہادری سے لڑ رہی تھیں پھر آخر کار یہ جنگ ہار گئیں، امریکا میں رہتی تھیں۔ وفات سے دو تین ہفتہ قبل وہ واپس آگئی تھیں ،یہ جانتے ہوئے کہ اب ان کے پاس بس کچھ ہی دن باقی ہیں، ہم سب ان سے ملنے جاتے تھے ۔ ڈھیر ساری پرانی باتیں لے کر بیٹھتے تھے۔ قصے کہانیاں لے کر اور سب یادیں لے کر۔ ان کے چہرے سے مسکان نہیں گئی ہاں مگر آخری بار وہ جاتے ہوئے اپنے ساتھ وہ اپنی مسکان بھی لے گئیں۔
ان کے پاس مسکان ہی تو تھی ، چاہے اندر غموں کا بسیرا تھا۔ میں نے نہیں دیکھی اتنی دلیر اور نڈر عورت۔ یہ میری آپا سب سے زیادہ میرے ابا کے ساتھ رہیں۔ شہید سہروردی سے لے کر استاد بڑے غلام علی تک سب کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ، ان کے پہلو میں بیٹھیں۔ سب جیسے ان کے دوست ہوگئے ہوں۔ یہ کام ابا نے اچھا کیا ، جہاں بھی جاتے اپنے بچوں کو ساتھ رکھتے سکھر جیل سے لے کر حیدرآباد کراچی تک۔ وہ تصویر بھی یادگار کے طور پر ہمارے گھر کی دیوار پر آویزاں ہے جب محمود الحق عثمانی، والد صاحب سے سکھر جیل میں ملنے گئے تھے اور آپا ان کی انگلی پکڑکے کھڑی تھیں۔ ابو ،جس جیل میں ہوتے وہ ہمارے چاچا سے فرمائش ضرور کرتے کہ اگلی بار جب ملنے آئے تو '' ارشی'' کو ضرو ر لے کر آئے۔ وہ بالکل میرے والد کا عکس تھیں۔
بات یہ نہیں، بات اس دکھ کی بھی نہیں جو دل میں گھر کر گیا ہے۔ نہ اس مہک کی ہے جو ان یادوں سے وابستہ ہے، مگر وہ بے لوث محبت جو وہ ہم سب سے کیا کرتی تھیں ، جس کا ہم تنکا بھی ادا نہ کر پائے اور نہ ہی کبھی اس نے مانگا ۔ بات یہ ہے کہ اک حادثہ ہے زندگی کہ آپ چلے گئے اور جو آپ نے بنایا ہے بڑی محنت ، تگ و دو کے بعد سب کا سب زیاں ہو جیسے ، آدمی خسارے میں ہے۔ سب نفی ہے، وقت کے اندر برف کی طرح پگھلتا وجود ، کوئی بہانہ ہے، جس کے پاس جب آ کے دستک دے ، ہر اس دستک کی جو آخری بار ہو تی ہے، کوئی نہ کوئی اس کی وجہ تو ہوتی ہے۔
وجہ تو تھی سو ہوئی ، زرد پتوں کا بن تھا جیسے میرا گھر ہو ، آنگن ، وہ گلیاں ، تتلیاں ، گائوں والی حویلی کے پیچھے جھیل، وہ مسجد، وہ قبرستان ، وہ سندھ کا سب سے بڑا مندر، وہ میداں جہاں تالپوروں کے لشکر نے آخری جنگ لڑی تھی اور کلہوڑوں کو تخت سے بے دخل کیا۔ میں آپا کے ساتھ خوب گھومتا۔ اس پر کوئی روک ٹوک نہ تھی جیسے باقی سب پر تھی، وہ چلی جاتی تھیں ، مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہوجاتی تھیں ۔ حویلی سے اوطاق تک مسجد قبرستان کے زینے پر وہ چلی جاتیں رکتی اور چلی جاتی تھیں میری آپا۔ وہ اتھلیٹ تھیں، اسکول کے زمانوں میں بہت سارے کپ وہ جیت کے آتی تھیں۔ میرے خوابوں میں ان کے کپ گھومتے تھے کہ ایک دن میں بھی ایسے کپ لے کے آئوں گا اور جب ان کی شادی ہو گئی تو جیسے اک سناٹا تھا پورے گھر میں۔ میری یہ آپا وہ واحد گھر کی فرد تھیں جو اپنے والد کے نقش قدم پر چل پڑی تھیں، مجھ سے ابا کے چاہنے والے شکایت کرتے تھے کہ میں کیوں نہیں چلتا اپنے والد کے نقش قدم پر۔ مگر کیا کرتا کہ ابا کی جوتی دراصل بہت بھاری تھی اور میرے پیر بہت ہلکے کہ شاید میں اس کو سنبھال نہ پاتا۔
ان کے تقریبا سب بچوں نے ان کی خوشحالی کا زمانہ دیکھا۔ بیٹے ان سے خفا رہتے تھے کہ ابا نے زمینیں کیوں نہ بنائیں جب کہ وہ بنا سکتے تھے، زمینیں دہقانوں میں بانٹیں! وہ بڑے پائے کے وکیل تھے۔ شیخ مجیب کے بعد پارٹی کے دوسرے بڑے لیڈر بھی تھے، کم از کم مغربی پاکستان میں تو بس وہ ہی تھے۔ پھر پاکستان کا بٹوارہ ہو گیا ، شیخ مجیب چلے گئے ، ابا یہیں رہ گئے ، بھٹو نے جہاز سے اتروایا تو ابا سرحد کراس کرکے ڈھاکا پہنچے پھر لندن میں جلا وطنی کاٹی، پھر وہاں بھی مزا نہ آیا تو واپس چلے آئے اور بھٹو کا تمام زمانہ اسیری میں گذارا ، ان کا اصل پیشہ ، وکالت بکھر کر رہ گیا۔ میں ان کی آخری اولاد ، میری عمر اس وقت اٹھارہ برس تھی جب وہ اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہے تھے ، غربت کے سائے تھے ۔ میں ابا کے نقش ِ قدم پر چلنے سے گھبراتا تھا مگر آپا کوکوئی ڈر نہیں تھا ۔ میں ان سے لڑتا بھی تھا مگر وہ میری سنتی نہیں تھیں۔
مگر آج مجھے جو رونا آیا۔ وہ ساری یادیں ، باتیں قصے کہانیاں جو اپنی بہنوں سے سنتا آیا۔ سب کی سب غم بن کر حلق پہ رک سی گئی ہیں ، ذہن خالی اورگلا رندھ سا گیا ہے۔ دل بھر آیا ہے۔ اْمڈ آئی ہیں ، وہ گلیاں ، وہ چوبارے ، تتلیاں حویلی کے ساتھ کی مسجد،اس کے برابر میں وہ قبرستان جو ہمارے اجداد کا ہے۔ وہ اذانیں، وہ زینے ، وہ اونچی نیچی، بے ترتیب گلیاں ، وہ چرواہے ، وہ گائے کی گردن میں بندھی گھنٹی کی آوازیں۔ میں انکی انگلی پکڑ کر چل پڑتا تھا ، ان تاریخی مقامات پر،کبھی وہ مندر تو کبھی وہ جنگ کا میدان ،کبھی ہمارے خاندانی قبرستان میں۔ وہ جیسے کوئی انسائیکلو پیڈیا تھیں وہ تمام دوست و احباب اور رشتہ دار جو ہم بھول چکے تھے ، وہ سب ان کو یاد تھے وہ ان کے پاس جاتی تھیں اور ان کے ہر خوشی و غم میں شریک بھی ہوتی تھیں، میری آپا میں کہاں لے جائوں ، سب تیری یاد ہے، دشت تنہائی ہے، تیری آواز کے سائے ہیں، تیری باتیں ہیں۔ میں تمہارے جیتے ہوئے کپ دیکھتا رہتا تھا۔ جو تم سجا کے رکھا کرتی تھیں کہ اک دن میں بھی ایسے کپ جیتوں گا ، تمہاری طرح ایتھلیٹ بنوں گا۔ لانگ جمپ ، ہائی جمپ سمر سالٹ لگائوں گا۔ تمہیں ملی تھی آزادی ابا کہ افکار سے کہ اب بیٹیوں کو پڑھانا ہے۔ تم پڑھ لکھ گئیں تو میں تمہاری انگلی پکڑ کر شہر شہر ، نگر نگر چل پڑا علم کو پانے کی خاطر...
اب میں بھی عمر کے اس حصے میں ہوں کہ مجھ سے یہ جدائی کے غم اب اٹھائے نہیں جاتے۔ کیا ابھی اور بھی یہی مجھ کو سننا ہوگا۔ زندگی سے اب کوئی شکوہ نہیں، نہ آسمان سے ، نہ زمین سے۔ ایک رسم ہے جس طرح تم گھر سے رخصت ہوئی ہو، آنسوئوں کی لڑیوں میں سمو کے رکھا ہے، سب کچھ۔ وہ قصے وہ کہانیاں جو تم سنایا کرتی تھی، جس طرح ہنسایا کرتی تھیں۔ نہیں اب کوئی نہیں جو اتنا ہنسائے اور اب تو وہ آنسو بھی نہ رہے جو بہا سکیں۔ ایک ویرانہ ہے بس تمہارے جانے کے بعد۔
میرے گھر سے چند فاصلوں پر ہے تمہاری آخری آرام گاہ ، میں تم سے فرصت میں ملنے آیا کروں گا۔ تم سے ڈھیرساری باتیں کیا کروں گا ۔ وہ یادیں وہ قصے وہ کہانیاں جو تم سنایا کرتی تھی۔ اب وہ تمہیں سنایا کروں گا۔
کبھی سمجھ نہ آئے یہ زندگی، کوئی آئے، یا کوئی جائے یہ بس رواں ہے۔ جب آپا گئیں تو مجھے لگا کہ جیسے اب میں بھی گیا ، مگر اب یہ احساس ہے کہ جو رہ جاتے ہیں وہ بھی اسی پلیٹ فارم پر کھڑے مسافر ہیں۔ وقت ہے کہ بہتا ہے زرد پتوں کی مانند ہر وہ گھر ، اس کا آنگن ، سب میں ایک طویل خامشی ہے کوئی سناٹا ہے مگر ذہن میں سب تازہ ہے اور اب بھی آنکھ بھر آتی ہے۔