یوکرین اور روس تنازعہ عالمی مفادات کا کھیل

جنگ کے نتیجے میں فریقین کا وسیع پیمانے جانی و مالی نقصان ہوا ہے


Editorial June 29, 2022
جنگ کے نتیجے میں فریقین کا وسیع پیمانے جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔ (فوٹو: فائل)

جرمنی میں G7 ممالک کے اجلاس میں عالمی رہنماؤں نے یو کرین کی حمایت جاری رکھنے کا واضح اعلان کرتے ہوئے روس پر دباؤ بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔

جی سیون رہنما توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے نمٹنے ، روسی تیل اور گیس کی درآمدات پر تبادلہ خیال کے بعد حکمت عملی کو آخری شکل دیں گے ، جب جی سیون رہنما جرمنی میں جمع تھے ، عین اْس وقت روس کی فوج نے یو کرین کے دارالحکومت کیف پر میزائل داغے جو جی سیون رہنماؤں کے لیے ایک واضح پیغام تھا کہ روس کسی دباؤ میں نہیں آئے گا۔ روس اور یوکرین جاری تنازع کو چار ماہ ہوچکے ہیں۔

اس جنگ کے نتیجے میں فریقین کا وسیع پیمانے جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔ یہ جنگ دو ممالک کے درمیان نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے عالمی طاقتوں کی رسہ کشی ہے اور ان کے مفادات کی لڑائی ہے۔ روس اور یو کرین کے درمیان تصادم نے دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ یوکرین پر روسی حملے کے بعد محض یورپ ہی نہیں بلکہ عالمی امن کے لیے بھی خطرات پیدا ہوچکے ہیں۔

مغربی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یو کرین پر روس کے حملے نے ظاہرکیا ہے کہ عالمی نظم و نسق اور بین الاقوامی قانون کی حکمرانی کو سخت چیلنج کیا گیا ہے اور بین الاقوامی ادارے اس جارحیت کا مقابلہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں، جب کہ دیگر تجزیہ کار اس نظریے کی شدید مخالفت کرتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ امریکا اور نیٹو ممالک نے حدود سے تجاوز کیا جس کی وجہ سے روس اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے یوکرین پر حملہ آور ہوگیا اور مفادات کے اس کھیل میں یوکرین تباہ ہوگیا۔ بہرحال اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت ڈیڑھ کروڑ سے زائد لوگوں کو انسانی بنیادوں پر امداد کی ضرورت ہے۔

لاکھوں افراد پانی ، خوراک اور بجلی سے محروم ہیں ، اس جنگ کی وجہ سے تقریباً ایک کروڑ چالیس لاکھ افراد کو اپنے گھروں سے بے گھر ہونا پڑا ہے اور یہ بڑے پیمانے پر لوگوں کے بے گھر ہونے کی تاریخی نظیر ہے۔

جنگ کے نتیجے میں 30 لاکھ بچے اسکولوں میں نہیں جارہے اور اسپتال بھی متاثر ہوئے ہیں، دونوں ممالک کو اس جنگ میں بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے اور لاکھوں شہری بے گھر ہوئے ہیں۔ جنگ جاری رہنے کی صورت میں پوری دنیا کو غذائی بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔

بھوک کے خلاف سرگرم دنیا سب سے بڑی انسانی تنظیم، ورلڈ فوڈ پروگرام کے ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلے کے مطابق ''دنیا کی گندم کی برآمدات کا 30 فیصد، مکئی کا 20 فیصد اور سورج مکھی کے تیل کا 75 فیصد حصہ ، روس اور یوکرین پیدا کرتے ہیں، جس میں یوکرین کا حصہ 50 فیصد اور روس کا 25فیصد ہے۔ زرعی اجناس کی پیداوار اور برآمد میں کیمیائی کھادوں کا کردار بھی بہت اہم ہے کیونکہ کھادوں کی کمی سے خوراک کی عالمی منڈی میں بحران بڑھ سکتا ہے۔

یوکرین میں جاری جنگ کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے، امریکا یا روس؟ حملہ روس نے یو کرین پر کیا ہے تو پھر جنگ کا ذمے دار بھی روس ہی ہے۔ یہ دلیل بھی ویسی ہی ہے کہ جیسے امریکا نے یہ کہا تھا کہ صدام حسین امن عالم کے لیے خطرہ بن گئے ہیں لہٰذا امریکا کا عراق پر حملہ نہ صرف جائز بلکہ امن عالم کے حق میں ہے۔ آخر روس نے یو کرین پر حملہ کیا کیوں! کیا روس حملے کے لیے مجبور ہو گیا تھا، پہلے ذرا جنگ کے اسباب تلاش کرتے ہیں۔

دنیا واقف ہے کہ اگر روس کی فوجیں اس کی اپنی سرحد کے باہر قدم رکھیں گی، تو معاملہ کہیں کا ہو بات امریکا اور روس کے درمیان بگڑ جائے گی۔ محض ان دو عالمی طاقتوں کا معاملہ ہی نہیں بلکہ پھر تو تمام مغربی دنیا ایک طرف اور روس اکیلا دوسری طرف ہوگا، جیسا کبھی سابق سوویت یونین کے وقت ہوتا تھا۔ ظاہر ہے کہ پیوٹن کو اس بات کا پوری طرح اندازہ رہا ہوگا کہ روس کے یوکرین پر حملے کے ساتھ ہی ان کو نہ صرف امریکا بلکہ پوری مغربی دنیا اور ناٹو فوج کا سامنا کرنا ہوگا۔

ظاہر ہے کہ اس کے اثرات نہ صرف روس بلکہ خود پیوٹن حکومت کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوں گے۔ پھر بھی پیوٹن نے روس پر حملہ کیا۔ اس کا جواب تلاش کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ سرد جنگ کے خاتمے اور سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد بھی روس اور امریکا کے درمیان یہ مفاہمت رہی کہ امریکا یا مغربی یورپ کی نیٹو فوجیں روس کی سرحد سے ملے مشرقی یورپی ممالک میں داخل نہیں ہوں گے۔ یوکرین بھی ایسا ہی ایک ملک ہے جہاں روس کو مغربی یورپی فوجوں کا داخلہ ہمیشہ سے منظور نہیں ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ روس کی گھیرے بندی کے مترادف ہوگا۔

سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد سے یہ بات چل رہی تھی۔ لیکن ابھی حال میں یوکرین میں امریکی حمایت سے ایک نئی حکومت اقتدار میں آئی اور اس کے صدر نے اعلان کر دیا کہ یوکرین ناٹو یعنی مغربی فوجی بلاک کا ممبر بننے جا رہا ہے۔

یہ بات روس اور اس کے صدر پیوٹن کو منظور نہیں تھی۔ کیونکہ یوکرین کے اس فیصلے سے نیٹو فوجیں روس کی سرحد تک پہنچ جاتیں اور پھر دوسری جنگ عظیم کے بعد سے مغربی اور مشرقی یورپ کے درمیان جو ایک قسم کی امن برقرار رکھنے کی شرط طے کی گئی تھی وہ شرط ٹوٹ جاتی ۔ روس کے صدر پیوٹن نے اعلان کر دیا کہ روس کو یوکرین کا ناٹو فوجی بلاک میں داخلہ منظور نہیں۔ لیکن امریکا کے اشارے پر یوکرین کے مغرب نواز صدر اپنے فیصلے پر اٹل رہے۔

بعدازاں صدر پیوٹن نے یہ اعلان کر دیا کہ اگر ایسا ہوا تو روس یوکرین پر حملہ کر دے گا۔ روسی حملے سے دو روز قبل بھی صدر پیوٹن نے ایک تقریر میں اعلان کیا کہ یوکرین اب بھی یہ اعلان کر دے کہ وہ ناٹو ممبر نہیں بنے گا، تو بات حل ہو جائے گی۔ لیکن یوکرین کے صدر نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ بس پھر جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔ اب روس کی فوجیں یوکرین میں ہیں۔ امریکا کی ہتھیار انڈسٹری کو ایک نئی جنگ مل گئی ہے۔

اب اس جنگ کے پاکستان پر اثرات کی طرف آتے ہیں۔ یوکرین اور روس کی جاری جنگ کی وجہ سے عالمی سطح پر پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ گندم کی قیمتیں بھی شدید متاثر ہورہی ہیں ، پاکستان تیل امپورٹ کرنے والے ممالک میں شامل ہے ۔ پاکستان میں پٹرول کی قمیتوں میں اضافے کی ایک وجہ عالمی سطح پر پٹرول کا مہنگا ہونا بھی ہے ۔ادھر پاکستان کا گندم کی درآمدگی کا زیادہ تر انحصار روس اور یوکرین پر ہے۔

روس اور یوکرین دنیا میں گندم پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں شامل ہیں۔ دنیا میں گندم کی مجموعی تجارت میں دونوں ممالک کا لگ بھگ دو تہائی حصہ ہے۔ روس دنیا میں گندم برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے تو یوکرین چوتھا بڑا ملک ہے۔ پاکستان اپنی گندم کی ضروریات جہاں اس کی مقامی پیداوار سے کرتا ہے تو اس کے ساتھ اسے بیرون ملک سے گندم درآمد کرنا پڑتی ہے۔ پاکستان نے گزشتہ مالی سال کے دوران جو گندم درآمد کی اس کا 80 فیصد سے زیادہ حصہ روس اور یوکرین سے آیا تھا۔ پاکستان نے 2 برسوں میں یوکرین سے 13 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کی جو پچھلے سال کی کل درآمدات کا 40 فیصد ہے۔

جنگ کی یہی صورتحال رہی تو گندم کی درآمدگی مکمل طور پر مفقود ہوجائیگی جس کے باعث دیگر ممالک سے مہنگی گندم درآمدگی مجبوری بن جائی گی اور اس مہنگائی کا براہ راست متاثر عام پاکستانی ہوگا۔ پاکستان میں بننے والی گاڑیوں کے سیمی کنڈکٹر کا زیادہ طور پر انحصار یوکرین سے درآمد شدہ مال پر ہوتا ہے۔ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کی صورت میں سیمی کنڈکٹر کی قیمتوں میں اضافہ متوقع ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی مقامی کئی صنعتوں کو بھی شدید مشکلات کا سامنا ہوگا۔ پاکستان میں یوکرین سے اسٹیل درآمد کیا جاتا ہے جو معیار کے اعتبار سے اچھا اور قیمت کے حساب دیگر ممالک کے مقابلے میں سستا پڑتا ہے اس صورتحال میں اب اسٹیل جو کہ تعمیراتی صنعت کا اہم جزو ہے اس کی درآمدگی بھی مفقود ہوگی اور دوسرے ممالک سے اس کی درآمدگی مہنگی ہوگی تو اس کا اثر بھی عام پاکستانی پر براہ راست پڑے گا۔

اسی طرح پاکستان اور یوکرین کے درمیان کاٹن، ٹیکسٹائل آئٹمز، فارما، آئرن، پلاسٹک، بیج، کھاد، ربڑ، گلاس، کارپیٹ، مشینری، پتھر، چائے، کافی اور کاغذ سمیت دیگر اشیا درآمد کی جاتی ہیں۔ اب اگر یوکرین کے بجائے کسی اور ملک سے ان اشیاء کا خام مال درآمد کیا جائیگا تو لامحالہ مہنگے داموں لینا پڑیں گی تو ظاہر ہے کہ اس سے تیار سامان کی پیداواری لاگت میں بھی اضافہ ہوگا جس سے براہ راست عام پاکستانی متاثر ہوگا۔

پاکستان میں حالیہ کمر توڑ مہنگائی نے پہلے ہی عام پاکستانی کو بے حال کیا ہوا ہے ایسے میں روس اور یوکرین جنگ مزید ملکی معیشت پر براہ راست اثر انداز ہوگی اور براہ راست اثر انداز ہونے کا مطلب عام پاکستانی ایک بار پھر مہنگائی کی چکی میں پس جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں