مہنگی بجلی

آہستہ آہستہ ان کمپنیوں سے جان چھڑائی جائے، لیکن اس سے پہلے اپنے ڈیمز کو مکمل کیا جائے


[email protected]

RAWALPINDI: پاکستان کی بدقسمتی رہی ہے کہ قائداعظم کی رحلت کے بعد نہ تو اسے اچھے لیڈر ملے اور نہ ہی بہترین حکمران۔ بس جو آیا ذاتی مفاد کے لیے آیا،ذاتی فائدے لیے، کرپشن کی اور چلتا بنا۔ اسی لیے آج پاکستان معاشی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے، اور اس میں قصور کسی ایک پارٹی یا ایک آمرکا نہیں بلکہ سب نے اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کیا ہے۔

لیاقت علی خان کی حکومت ملک کو امریکا کے کمیپ میں شامل ہونے کی راہ ہموار کر گئے۔ پاکستان کے بنگالی حکمران انتہائی کمزور ثابت ہوئے، ایوب خان نے پاکستان کو امریکا کا باقاعدہ اتحادی بنایا اور بھارت کو پاکستان کے دریاؤں کا پانی تحفے میں دیدیا، یحیٰ خان اور اس کے ساتھیوں نے پاکستان کو ہی دولخت کرادیا۔پھر نچے کھچے پاکستان پر بھٹو حکومت قائم ہوئی، اس دور میں آئین تو ملا لیکن اس میں بھی ایسی خامیاں رکھی گئیں، جو آج تک چلی آرہی ہیں۔

ضیاء الحق حکومت، بے نظیر کے ادوار، ن لیگ کے ادوار اور مشرف حکومت، پھر زرداری دور اور پھر نواز شریف کا دور اور پھر عمران کا دور سب نے اپنی ناک سے آگے دیکھنے کی کوشش نہیں کی ۔ سب حکومتوں کے کیے گئے اقدامات سے امیر امیر ترین اور غریب غریب ترین ہوتاگیا، یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ آپ کسی سیکٹر کو بھی پکڑ لیں ہر جگہ کرپشن اور اقربا پروری کے ڈیرے نظر آئیں گے۔جو جتنا زیادہ نالائق، چاپلوس اور خوشامدی ہے، اتنا ہی بلند عہدے پر فائز ہے۔

پاور سیکٹر کو دیکھ لیں، پاکستان میں اس وقت کم و بیش 25ہزارمیگا واٹ بجلی بن رہی ہے، جن میں سے پانی سے بجلی 8ہزار میگا واٹ، سرکاری تھرمل پاور پلانٹ سے3600میگاواٹ جب کہ آئی پی پیز 13500 میگاواٹ بجلی بنا رہے ہیں، جب کہ آئی پی پیز کی بجلی پیدا کرنے کی کل صلاحیت 18104میگا واٹ ہے۔

انڈیپنڈینٹ پاور پروڈیوسرز جنھیں عرف عام میں آئی پی پیز کہا جاتا ہے ۔ یہ درحقیقت نجی کمپنیاں ہیں، جنھیں1993 میںبے نظیر بھٹوکے دوسرے دور حکومت میں لانچ کیا گیا تھا، میں تو کہتا ہوں کہ وہیں سے پاکستان کی معیشت کے زوال کا آغاز ہوا۔

اس وقت کے حکمرانوں نے بجلی بنانے کی نجی کمپنیوں سے ایسے معاہدے کیے جن کی شرائط کا زیادہ تر فائدہ نجی کمپنی کو تھا، بجلی خریدنے والے سرکاری ادارے اور صارفین کو نہیں۔ ایک تو نجی کمپنیوں کو حکومت نے یہ ضمانت دی کہ وہ ہر حال میں ان کی بجلی کی ایک خاص مقدار کی قیمت لازمی طور پر ادا کرے گی خواہ استعمال کرے یا نہ کرے۔

یہ ضمانت اس لیے دی گئی کہ بجلی کے منصوبوں میں سرمایہ کار اربوں روپے لگاتا ہے۔ وہ بے یقینی کی کیفیت میں سرمایہ نہیں لگا سکتا ۔ دوسرے، ان کمپنیوں سے بجلی خریدنے کا جو نرخ (ٹیرف) مقرر کیاگیا وہ بہت زیادہ تھا۔ اس پراس و قت ماہرین نے بہت شورمچایا لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان میں بجلی مہنگی ہوتی گئی۔جنوبی ایشیا کے تمام ممالک میں سب سے زیادہ مہنگی پاکستان میں ہے۔ اس مہنگی بجلی کے باعث ملک میں کارخانے چلانا مشکل ہوتا چلا گیا کیونکہ مال بنانے پر لاگت دوسرے ملکوں کی نسبت بہت زیادہ ہوگئی۔

بے نظیر بھٹو دور میں کیے گئے معاہدوں کی مدت پچیس سے تیس سال تھی۔لیکن 1997میں نواز شریف کی دوسری حکومت آئی تو آئی پی پیز کو عدالتوں میں گھسیٹا، لیکن حالات مزید بگڑگئے اور ادائیگیاں زیادہ ہونے لگیں۔ بہرحال 17 آئی پی پیز نے مجموعی طور پر 51.80 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی تھی جو چند سالوں میں415 ارب روپے منافع اور 310 ارب روپے کا ڈیوڈنٹ حاصل کرچکی تھیں۔

پھر 12اکتوبر 1999کو جنرل پرویز مشرف کی حکومت قائم ہوگئی ، اس حکومت نے آئی پی پیز کی ایک نئی پالیسی دی۔اس دور میںبھی نجی شعبہ میں بجلی بنانے کے جو معاہدے ہوئے ان میں کم و بیش وہی شرائط تھیں جو ماضی میں تھیں۔ 2002 میں آئی پی پیز کو مزید اضافی مراعات دی گئیں۔یہ سلسلہ پھر ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے اگلے ادوار میں بھی چلتا رہا ۔بہرکیف اس حوالے سے سابقہ حکومت کی کارکردگی قابل ستائش رہی کہ اُس نے جیسے تیسے کر کے ان آئی پی پیز کو ادائیگی ڈالرز کے بجائے مقامی روپوں میں کرنے کا معاہدہ کیا جس سے حالات قدرے سنبھل گئے ۔

اس معاملہ کا حل یہی ہے کہ آہستہ آہستہ ان کمپنیوں سے جان چھڑائی جائے، لیکن اس سے پہلے اپنے ڈیمز کو مکمل کیا جائے، گرین انرجی کی طرف رجوع کیا جائے ، شمسی توانائی سے فائدہ اٹھایا جائے ، سندھ ، جنوبی پنجاب اور بلوچستان میں ونڈ انرجی سے فائدہ اٹھایا جائے تو پاکستان سستی بجلی پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائے گا جس سے ملک کی معیشت میں بہتری آئے گی ، کسانوں کی بچت میں اضافہ ہوگا، کارخانہ داروں کی لاگت میں کمی آئے گی اور ملک آئی پی پیز کا محتاج نہیں رہے گا جب کہ پاکستان اپنی قدرتی گیس اور کوئلے کی بچت میں کامیاب ہوجائے گا۔

لہٰذاہمیں اس حوالے سے لانگ ٹرم پالیسی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہم ان کے چنگل سے نکل سکیں ورنہ حالات یہی رہے تو یہ آئی پی پیز اس خطے کی ایسٹ انڈیا کمپنیز بننے میں دیر نہیں لگائیں گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں