سری لنکا اور پاکستان

پاکستان میں بھی سری لنکا جیسی صورتحال پیدا ہونے کے خطرات منڈلا رہے تھے


Editorial June 30, 2022
پاکستان میں بھی سری لنکا جیسی صورتحال پیدا ہونے کے خطرات منڈلا رہے تھے۔ فوٹو : فائل

کراچی: سری لنکا نے دیوالیہ ہونے کا اعلان تو چند ہفتے پہلے کردیا تھا ،یوں اس کی معیشت زمین بوس ہوگئی ، عوام نے حکومت کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع کردیا اور صدر اور حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا، یہ مظاہرے ابھی تک جاری ہیں لیکن سری لنکا کے صدر نے استعفیٰ دینا مناسب نہیں سمجھا اور وزیراعظم سے استعفیٰ لے کر نیا وزیراعظم مقرر کردیا۔نئے وزیراعظم نے بھی سنگین ترین حالات کو دیکھنے اور سمجھنے کے باوجود اپنے عہدے کا چارج سنبھال لیا۔

ان کی ناکامی دیوار پر لکھی نظر آرہی تھی اور ایسا ہی ہوا ہے ، اب صورتحال یہ ہے کہ سری لنکا میں مانگے تانگے کا جو پٹرول موجود تھا اور صارفین کو ایک مخصوص مقدار میں ملتا تھا، وہ بھی ختم ہوگیا ہے اور حکومت نے سنگین صورتحال کو دیکھتے ہوئے لاک ڈاؤن کا آپشن استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ سری لنکا کی حکومت نے شہریوں سے کہا ہے کہ وہ گھروں میں رہیں اورگاڑیوں، موٹر سائیکل وغیرہ وغیرہ استعمال نہ کریں۔

سری لنکن کابینہ نے 10 جولائی تک ملک بھر میں نجی گاڑیوں کے لیے پٹرول اور ڈیزل کی فراہمی بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور صرف ضروری سروسز کے لیے پٹرول دستیاب ہوگا۔

کابینہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق اس فیصلے کے بعد بین الصوبائی پبلک ٹرانسپورٹ رک جائے گی۔ یوں سری لنکا کے شہر اور دیہات ایک دوسرے سے کٹ جائیں گے اور کاروبار زندگی ساکت ہوجائے گا۔سری لنکن حکومت نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بندرگاہ، طبی سروسز اور فوڈ ٹرانسپورٹ کو پٹرول اور ڈیزل کی فراہمی جاری رہے گی جبکہ دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے درخواست کی جاتی ہے کہ اس مشکل وقت میں گھر میں رہ کر آن لائن سروسز فراہم کریں۔

چند برسوں کے دوران سری لنکا نے خاصی ترقی کی تھی اور اس کی معیشت جنوبی ایشیا میں تیسری بڑی معیشت بن چکی تھی۔سیاحوں کی جنت کہلانے والے اس ملک کی خوبصورت اور سرسبزوادیاں اور ساحل پوری دنیا کے سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتی تھیں۔لیکن سری لنکا کے صدر اور ان کی حکومت نے عالمی صف بندی میں ایسی پوزیشن اختیار کرلی، جو سری لنکا جیسے چھوٹے اور کمزور ملک کے بس کی بات نہیں تھی۔ امریکا، روس اور چین کی تگڑم کی چپقلش میں اتحادی بننے کی کوشش نے سری لنکا اور اس کے عوام کو برباد کردیا۔

آج سری لنکا اپنی تاریخ کے سنگین ترین معاشی بحران کا شکار ہوچکا ہے ، اس بحران سے نکلنے کے لیے جس قوت کی ضرورت ہوتی ہے، وہ سری لنکا کی موجودہ سرکار کے پاس موجود نہیں ہے۔ سری لنکا میں سرکاری اسکول ، کالجز وغیرہ کو پہلے ہی بند کیا جاچکا ہے جبکہ سرکاری ملازمین کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ گھر میں رہ کر کام کریں۔

کیا کوئی حکومت اس طرح ملک کو چلاسکتی ہے؟ آج سری لنکا کی ساکھ اتنی گر چکی ہے کہ امریکا، یورپی یونین، چین، تیل پیدا کرنے والے عرب ملک، حتیٰ کہ بھارت اور بنگلہ دیش اس مشکل ترین گھڑی میں سری لنکن حکومت کی مدد کرنے پر تیار نہیں ہیں۔پورے ملک میں گھیراؤ جلاؤ ہورہا ہے۔ حکومت کے وزراء رعایتی قیمت پر پٹرول حاصل کرنے کے لیے قطر اور روس پہنچے ہوئے ہیں۔یہ قطر اور روس کے حکمرانوں کی مرضی ہے کہ وہ سری لنکا پر ترس کھا کر یا کوئی بھاری پیشگی شرائط طے کرکے تیل دیتے ہیں یا انکار کردیتے ہیں۔

پاکستان میں بھی سری لنکا جیسی صورتحال پیدا ہونے کے خطرات منڈلا رہے تھے، موجودہ حکومت نے حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے آئی ایم ایف کے ساتھ روابط بحال کیے ، امریکا کا سخت رویہ نرم کیا، چین کے ساتھ سرد مہری کا خاتمہ کیا،سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کے ساتھ مثبت مذاکرات کیے، ایف اے ٹی ایف نے لچک کا مظاہرہ کیا ، اور سب سے بڑھ کر پاکستان میں غیرمقبول فیصلے کیے، پٹرول مہنگا کیا، بجلی گیس مہنگی کی لیکن توانائی کی سپلائی رکی نہیں اور نہ ہی قلت پیدا ہوئی ۔

اب حکومت اعلان کررہی ہے کہ ملک کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ ٹل چکا ہے۔ اگلے روز وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف سے2 ارب ڈالر مل جائیں گے مگر اصل منزل خود انحصاری ہے، خود انحصاری ہی کسی قوم کی معاشی، سیاسی آزادی کی ضمانت ہوتی ہے اس کے بغیر کوئی قوم آزادانہ فیصلے نہیں کر سکتی۔ عالمی بحران کے باعث فیول کی قیمتیں بہت بڑھ گئیں، مخلوط حکومت کے کچھ فوائد ہیں لیکن ساتھ کچھ چیلنجز کا بھی سامنا ہوتا ہے۔

اپنی ذمے داریوں کو نبھائیں گے۔ ٹرن اراؤنڈ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا پاکستان میں اربوں روپے کے قدرتی وسائل موجود ہیں مگر آج تک ہم ان کو استعمال نہیں کر سکے، ریکوڈک میں اربوں ڈالر کا خزانہ دفن ہے مگر ہم نے ایک دھیلہ نہیں کمایا اور مقدمے لڑتے ہوئے قوم کے اربوں روپے ضایع ہوگئے۔ حویلی بہادر شاہ ٹو کا ساڑھے1200 میگاواٹ بجلی پیداوار کا جدید منصوبہ2 سال قبل مکمل ہوجانا تھا مگر آج تک نہیں ہوسکا۔ کچھ عرصہ قبل ایل این جی کی اسپاٹ پر قیمت4 ڈالر جبکہ طویل مدتی معاہدے کے تحت اس کی قیمت 4 یا5 ڈالر تھی، اس وقت کسی نے اس کی خریداری کے بارے میں سوچا تک نہیں اور آج جب دنیا بحران کی زد میں ہے تو کسی ملک نے ہمیں ایل این جی دینے کی پیش کش نہیں کی۔

گزشتہ دنوں میں نے خوردنی تیل کے بحران کے دوران انڈونیشیا کے صدر کو کال کی تو انھوں نے فوری پر خوردنی تیل روانہ کیا، یہ ایک مثال ہے، اگر ہم کام کرنا چاہیں تو معاملات کو چلایا جاسکتا ہے، ملک کے جو حالات ہیں اس کا ہم کسی سے کوئی گلہ نہیں کر سکتے۔ مل کر فیصلہ کریں کہ ہم سب نے ایک ہو کر اس قوم کی تقدیر بدلنی ہے تو ہمارا ترقی کی منزل سے فاصلہ بہت کم رہ جائیگا، چین سے 2 ارب ڈالر مل رہے ہیں جن کو خاص طور پر ملک کی معاشی ترقی کے لیے استعمال کیا جائیگا۔ زراعت کے شعبہ کی ترقی کے لیے کسانوں کو سہولیات دی جائیں گی۔

سرخ فیتے، پرمٹ، این او سی، دفاتر اور سفارش کا چکر اب ختم ہونا چاہیے، افغانستان سے کوئلے کی درآمد سے سالانہ دو ارب ڈالر کی بچت ہوگی، بنگلہ دیش نے آئی ایم ایف، عالمی بینک اور کسی دوسرے مالیاتی ادارے کی مدد کے بغیر6 ارب ڈالر کے بنیادی ڈھانچے کا ایک بڑا منصوبہ بنایا ہے۔75 سال میں پاکستان بہت پیچھے رہ گیا۔ سپر ٹیکس سے 230ارب روپے جمع ہوں گے لیکن یہ پیسہ دفتری اور سرکاری اخراجات پر نہیں بلکہ معیشت کی ترقی، خوشحالی، برآمدات اور سرمایہ کاری بڑھانے پر خرچ کیا جائیگا، اس حوالے سے جلد منصوبوں کا اعلان کریں گے۔

سپر ٹیکس کا پیسہ ضائع نہیں ہوگا۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ اگر ہم مستحکم اور پائیدار ترقی کے لیے ٹھوس اقدامات کریں تو ہم بھی10سے20 سال کے عرصے میں قوم کو غربت سے نکال کر مڈل کلاس میں پہنچا سکتے ہیں۔ اگر قوم اپنی معیشت کے حجم کا9 فیصد بھی ٹیکس نہیں دے رہی تو پھر خودداری کی بات نہیں کی جا سکتی۔ امیر پاکستانیوں کو ملک کی ترقی و خودداری میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔ حالات مشکل ضرور ہیں مگر اب ملک کے دیوالیہ ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

پاکستان کی معیشت کو سانس لینے کا موقع مل گیاہے لیکن بیڈگورننس اس موقع کو ضائع بھی کرسکتی ہے۔موجودہ اتحادی حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کے قائدین کو غیرمعمولی ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اچھی حکمرانی کو یقینی بنانے کے لیے حکومت کی مدد کرنی چاہیے۔بیوروکریسی قانون اور ضوابط کی پابند ہوتی ہے، بیوروکریٹس کی سیاسی وابستگی نہیں ہوتی ، وہ کسی بھی ایک سیاسی جماعت کو اچھا سمجھ سکتا ہے لیکن اپنی نوکری سے زیادہ اچھا نہیں سمجھتا ، اس لیے بیوروکریٹس کو سیاسی نہیں بلکہ قابلیت اور ذہانت کے معیار پر دیکھنا چاہیے۔

کسی وزیراعظم کا کوئی منظور نظر افسر نااہل ، چاپلوس ہوگا تو وہ حکومت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا، اس کے برعکس ایک ایسا افسر جو کسی پوسٹ کا اہل ہو،فرض شناس، ذہین افسر اورقواعد وضوابط کے مطابق کام کرنے کی شہرت رکھتا ہو، وہ برسراقتدار جماعت اور وزیراعظم کے سیاسی نظریے سے اتفاق نہ بھی رکھتا ہو تب بھی وہ حکومت کے لیے فائدہ مند ہی ثابت ہوگا کیونکہ اس نے قانون کے مطابق حکومت کے ساتھ چلنا ہوتا ہے نہ کہ ذاتی تعلقات کو سامنے رکھ کر کام کرنا ہوتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں