ترقی سے محروم سندھ کے شہر
تاریخ شاہد ہے کہ پیپلز پارٹی نے ایک دفعہ پھر ایم کیو ایم سے کیے ہوئے معاہدہ کو پسِ پشت ڈال دیا ہے
سندھ میں اب تک بلدیاتی نظام کا ڈھانچہ نہیں بن سکا۔ سپریم کورٹ نے چند ماہ قبل بلدیاتی قانون کو غیر آئینی قرار دے کر نچلی سطح کے اختیارات کا قانون بنانے اور میئرکو بااختیار کرنے کے بارے میں ایک مفصل فیصلہ جاری کیا تھا ، مگر سندھ کی حکومت نے ان احکامات کو نظرانداز کیا اور قانون میں تبدیلی کے بغیر بلدیاتی انتخابات کا عمل شروع ہوا۔
صوبہ کی دو بڑی جماعتوں ایم کیو ایم اور تحریک انصاف نے ان انتخابات کے التواء کے لیے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا مگر معزز عدالت نے الیکشن کمیشن کا انتخابی شیڈول برقرار رکھا۔ اب 26 جون کو پہلے مرحلہ کے بلدیاتی انتخابات ہوئے جبکہ کراچی اور بڑے شہروں میں انتخابات 24 جولائی کو ہونگے۔ پہلا مرحلہ بد امنی ، فائرنگ ، آندھی اور ہلاکتوں کی فضاء میں مکمل ہوا۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے گزشتہ سال ایک بلدیاتی قانون کا مسودہ تیارکیا۔ اس قانون میں بے اختیار میئر اور اختیارات کا منبع وزیر بلدیات تھے۔ تمام اپوزیشن جماعتوں نے اس قانون کو مسترد کیا ، مگر پیپلز پارٹی کی حکومت نے بغیر کسی بحث کے اسی طرح یہ قانون صوبائی اسمبلی سے منظور کرایا جس طرح تحریک انصاف کی سابقہ حکومت نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کے ووٹ دینے کے حق کا قانون منظور کرائے تھے۔
گزشتہ سال بلدیاتی قانون کے تناظر میں کراچی ایجی ٹیشن میں مبتلا رہا۔ جماعت اسلامی نے ایک مہینہ سے زائد عرصہ تک با اختیار نچلی سطح تک اختیارکے بلدیاتی نظام کے لیے سندھ اسمبلی کے سامنے دھرنا دیا۔ صوبائی حکومت اور جماعت اسلامی کی قیادت ایک مسودہ قانون پر متفق ہوئی اور یہ دھرنا ختم ہوا۔ مصطفی کمال کی جماعت پی ایس پی کے کارکنوں نے پریس کلب کے سامنے ہفتوں دھرنا دیا۔ پیپلز پارٹی کے وزراء نے پی ایس پی کی قیادت سے بھی بااختیار میئر پر معاہدہ کیا۔
ایم کیو ایم پاکستان نے بلدیاتی نظام کو بااختیار بنانے کے لیے وزیر اعلیٰ ہاؤس پر مظاہرہ کیا۔ پولیس نے مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ منتخب اراکین اسمبلی کو گرفتار کیا گیا۔ جب وفاق میں عمران خان کی حکومت کے خلا ف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم سے اسی تناظر میں معاہدہ کیا۔ ایم کیو ایم نے تحریک انصاف سے اتحاد ختم کیا۔ ایم کیو ایم نے اسی طرح کا معاہدہ مسلم لیگ ن کے ساتھ بھی کیا۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے معاہدہ میں مسلم لیگ ن اور جمعیت علمائے اسلام نے ضامن کا کردار ادا کیا۔
ایم کیو ایم کے وکیل ڈاکٹر فروغ نسیم کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت نے حلقہ بندیوں میں گڑ بڑ کی۔ مقامی انتظامیہ نے پیپلز پارٹی کے مفادات کو اہمیت دی، جن حلقوں میں ایم کیو ایم کے ووٹروں کی اکثریت تھی وہاں زیادہ آبادی پر حلقے بنائے گئے اور جن حلقوں میں ایم کیو ایم کے ووٹروں کی تعداد کم ہے وہاں کم آبادی پر حلقہ بندی کی گئی۔ پیپلز پارٹی نے میئر اور بلدیاتی اداروں کے اختیارات کی بحالی کے لیے قانون سازی سے گریزکیا ہوا ہے۔
یوں ایسے قانون کے تحت انتخابات ہورہے ہیں کہ منتخب نمایندے بے اختیار ہونگے۔ ایم کیو ایم اب اس معاملہ کو سپریم کورٹ میں لے جارہی ہے۔ ایم کیو ایم نے وزیر اعظم شہباز شریف سے بھی رابطہ کیا ہے۔ ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی معاہدہ کے بعد وفاق میں حکومت تو تبدیل ہوگئی مگر سندھ میں وعدہ کے مطابق کوئی تبدیلی نہ ہوئی۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی قیادت کے درمیان مذاکرات کے مختلف راؤنڈ ہوئے۔ اخبارات میں یہ خبریں شائع ہوئیں کہ بلدیہ کراچی اور بلدیہ حیدرآباد کے ایڈمنسٹریٹرز کو فارغ کیا جارہا ہے اور اب ایم کیو ایم کے ایڈمنسٹریٹرز مقرر ہونگے مگر پھر ایم کیو ایم کی رہنما نسرین جلیل کے سندھ کے گورنر بننے کی خبریں بھی ذرائع ابلاغ پر اجاگر ہوئیں۔
پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان مذاکرات کے اب تک کتنے دور ہوئے اس بارے میں کچھ کہنا ممکن نہیں مگر مذاکرات کے ہر دور کے اختتام پر مزید مذاکرات کی نوید سنائی دی جاتی ہے، مگر عملاً صورتحال جوں کی توں ہے۔
دنیا بھر میں شہروں کی ترقی کی سائنس خاصی ترقی کر چکی ہے۔ یورپ اور امریکا کے شہروں میں نچلی سطح تک اختیارات کا بلدیاتی نظام رائج ہے۔ یہ نظام کے تحت مکمل طور پر با اختیار ہوتا ہے اور میئر منتخب بلدیاتی نمایندوں کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے۔ برصغیر میں انگریز حکومت نے سب سے پہلے شہروں کی ترقی کے لیے نچلی سطح کا بلدیاتی نظام رائج کیا تھا۔ بھارت میں آزادی کے بعد اس نظام نے شہروں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں ختم کیں۔ پاکستان میں سابق صدر پرویز مشرف نے نچلی سطح کا بلدیاتی نظام رائج کیا۔ اس نظام کے تحت ناظمین مکمل طور پر با اختیار ہوئے، یوں کراچی، لاہور اور راولپنڈی میں ترقی کا عمل تیز ہوا۔ کراچی کے پہلے ناظم نعمت اﷲ خان نے کراچی کی ترقی کے لیے بنیادی منصوبہ بندی کی۔
ایم کیو ایم کے ناظم مصطفیٰ کمال کی قیادت میں کراچی شہر جدید خطوط پر استوار ہوا۔ اس نظام میں شہر براہِ راست وفاق سے منسلک ہوئے، یوں وفاقیت کا اصول متاثر ہوا ، مگر پیپلز پارٹی کے پہلے دور میں ایم کیو ایم سے اتحاد کے باوجود بلدیاتی نظام پر سمجھوتہ نہ ہوسکا جس نے پورے صوبہ کے انفرا اسٹرکچر کو نقصان پہنچایا۔ کراچی میں کچرے کے مسئلے نے اہمیت اختیار کر لی۔ شہری آبادی کی اکثریت پانی سے محروم رہی مگر مصطفیٰ کمال کے دور میں کراچی کی ترقی کے لیے خاطر خواہ اقدامات ہوئے۔ مڈل کلاس کی آبادی والے علاقوں میں جدید سہولتیں فراہم کی گئیں، مگر ان علاقوں کو جہاں بلوچی، سندھی اور پٹھان رہتے ہیں ، ان کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا۔ اس پالیسی کے نتیجہ میں نئے تنازعات ابھر کر سامنے آئے ۔
پیپلز پارٹی جب 2008 میں برسر اقتدار آئی تو ایم کیو ایم مخلوط حکومت کا حصہ تھی، یوں نئے قانون پر طویل بحث و مباحثے ہوئے۔ سندھ حکومت نے ایک قانون نافذ بھی کیا جس کے تحت مختلف شہروں میں ٹاؤن قائم ہونے تھے۔ میئر کو با اختیار کیا گیا تھا مگر اچانک سندھی قوم پرستوں کو محسوس ہوا کہ نچلی سطح کے اختیارات کے بلدیاتی نظام سے سندھ کی عظمت متاثر ہوگی، یوں پورے صوبہ میں احتجاج ہوا۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے یہ قانون واپس لے لیا۔ ایم کیو ایم کی سندھ حکومت سے علیحدگی کے بعد ایک ایسا بلدیاتی قانون بنا کہ پیپلز پارٹی کے اکابرین نے خود کہنا شروع کیا کہ اس میں ترمیم کی ضرورت ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ پیپلز پارٹی نے ایک دفعہ پھر ایم کیو ایم سے کیے ہوئے معاہدہ کو پسِ پشت ڈال دیا ہے اور سندھ میں پنجاب اور خیبر پختون خوا کی طرح نچلی سطح تک اختیارات کا بلدیاتی نظام پھر قائم نہیں ہوگا۔ سندھ کے شہر اور دیہات ترقی سے محروم رہیں گے۔