پاکستان کے حالات اور ستم ظریفی

ہمارے ملک کا ہر شعبہ ستم ظریفی کا شکار ہے، ہر ادارے میں نااہل افراد بااثر عہدوں پر فائز ہیں


اکرم ثاقب June 30, 2022
ہر شخص اپنے بارے میں سوچ رہا ہے، ملک کی کسی کو فکر نہیں ہے۔ (فوٹو: فائل)

حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ اب جمہوریت ہے مگر ستم ظریفانہ۔ وہ سیاسی جماعتیں جو کبھی ایک دوسرے کی شکل نہیں دیکھنا چاہتی تھیں، ایک دوسرے کے نام سے نفرت کرتی تھیں، اب ایک چھتری کے سائے تلے ہیں اور ایک بھی ہیں۔ مل کر ستم ظریفی یعنی حکومت کررہی ہیں۔

ہمارے ملک کا ہر شعبہ ستم ظریفی کا شکار ہے۔ ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر کا اصل کام یہ ہے کہ وہ اپنے شعبے میں تحقیق کرے اور اس شعبے میں نت نئی جہتیں تلاش کرکے ملک کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کرے۔ مگر افسوس کہ ہمارے ملک کے پی ایچ ڈی ایسا نہ کر سکے۔ انہیں تو اخلاقیات سکھانے کی بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ کیونکہ جب کسی پی ایچ ڈی ہولڈر کے سامنے ایم فل یا پی ایچ ڈی کا طالب علم اپنی بہت عمدہ اور سخت جانفشانی سے تیار کی ہوئی تحقیقی تجویز (ریسرچ پروپوزل) پیش کرتا ہے تو وہ نام نہاد ڈاکٹر اس تجویز کو دور پھینک دیتا ہے اور طالب علم کی وہ درگت بناتا ہے کہ وہ خود بخود اس کو نذرانے پیش کرنے کا سوچنے لگتا ہے۔ اب اس پی ایچ ڈی ڈگری والے آدمی سے تو وہ اَن پڑھ اچھا ہے جو سرف کے اشتہار کو بھی بڑے ادب سے اوپر رکھ دیتا ہے کہ اس پر کچھ لکھا ہوا ہے۔

ایسی پی ایچ ڈی ڈگری کا کیا فائدہ جنہوں نے انسان سے اچھا سلوک کرنا ہی نہیں سکھایا؟ معیار کے مطابق تو ایک پی ایچ ڈی کو اپنے طلبا کےلیے بالخصوص اور بالعموم ہر فرد کےلیے رول ماڈل ہونا چاہیے تھا مگر ستم ظریفی دیکھیے کہ ہمارے پاکستان میں اس کا ماڈل ہی رول ہوگیا۔ تحقیق کے بجائے ڈگری کا حصول اس نے مقصدِ اولیں بنادیا اور وہ بھی مختلف حیلوں بہانوں سے التوا کا شکار کرکے۔ اس طرح وہ شخصیت جس نے معاشرے کو آگے لے جانا تھا وہ اس کی ترقی کے آگے بند باندھ کر کھڑی ہے۔ اسے صرف اب اپنی ٹور سے یا اپنی جیب بھرنے سے غرض ہے، تحقیق بھاڑ میں جاچکی ہے۔ جو اسے گھر سے گاڑی میں بٹھا کر لائے گا، اس کے لنچ اور اچھے ڈنر کا بندوبست کرتا رہے گا اور اس کی خوشامد میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھے گا اسے ڈگری ملے گی اور جو اپنی محنت کے بل پر نئی تحقیق کرکے لائے گا مگر پاکستانی پی ایچ ڈی کی صفات سے نابلد ہوگا اسے اس کی تحقیق اپنے ہی منہ پر کھانی پڑے گی۔ تبھی تو آج ہمارے پاس کوئی ایسی مثال نہیں کہ ہم کہہ سکیں کہ ہمارے فلاں ڈاکٹر کی یہ تھیوری فلاں ملک میں پڑھائی جارہی ہے۔

یہ تو علم والوں کی بات تھی، اب اختیار والوں کو دیکھیں تو یہاں بھی ستم ظریفی کا ہی راج نظر آتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے نام سے ہر کوئی واقف ہے، یہ سب سے بااختیار ادارہ ہے جس کا کام ملک میں حکومت چلانا ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں یہی انتظامیہ حکومت کو ناکام بنانے کے چکر میں ہی رہتی ہے تاکہ اس کی دھاک بیٹھ جائے اور اسی کا سکہ چلتا رہے۔ یہ تاریخی ستم ظریفی ہے کہ ہر حکومت کو اسی انتظامیہ نے ہی ناکام کیا اور ناکوں چنے چبوائے۔

سیاستدان جو جمہوریت جمہوریت کرتے نہیں تھکتے، اسی جمہوریت کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ اپنی سیاہ کاریوں کو چھپانے اور کرسی کے حصول کےلیے یہ ہمیشہ غیر جمہوری طاقتوں کے آلہ کار بنے اور جمہوریت کو ہی روندتے رہے ہیں۔ اس سے بڑی ستم ظریفی کیا ہوسکتی ہے کہ جس ادارے کو آپ نے پروان چڑھانا ہے اسی کو کسی دوسرے کے ہاں گروی رکھ دیں؟

ہمارے ملک کو زرعی ملک کہا جاتا ہے مگر یہاں بھی وہی سننے اور دیکھنے کا فرق۔ بہت سے زرعی تحقیقاتی ادارے بنائے گئے کہ اس ملک میں زراعت کو ترقی دیں گے مگر ان اداروں کے سربراہان نے تو بہت ترقی کی، اپنی سیڈ کارپوریشنز بنالیں مگر پاکستان کی زراعت کا وہ حشر کردیا ہے کہ اب گندم بھی باہر سے منگوانا پڑتی ہے۔ چینی کی قلت ہے اور خوردنی تیل کی قیمتوں نے کمر توڑ دی ہے۔ ایسے ملک کو کون زرعی ملک کا درجہ دے گا؟

ان اداروں میں کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو واقعی نئے بیج، نئی اقسام دریافت کرتے ہیں مگر غیر ملکی کمپنیوں کے ایجنٹس جو ان کے اوپر سربراہ لگائے ہوئے ہیں ایسی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہونے دیتے اور باہر ہی سے بیج تک منگوانے کی سفارش کرتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کے پاس اپنی زیادہ تر فصلوں کا مستند بیج ہی نہیں ہے۔ سب اقسام درآمد شدہ ہیں، چاہے وہ آلو کی ہوں، مکئی کی ہوں، گنے کی یا گندم کی۔ سبزیوں کا تو نام ہی نہ لیں۔ کوئی بھی مقامی سطح پر تیار بیج ہمارے زرعی ملک میں دستیاب نہیں ہے۔ ستم ظریفی اور کیا ہوتی ہے؟

اسی طرز عمل کے مصداق ہماری عدالتیں ہیں جہاں پر انصاف کا حصول اتنا پیچیدہ عمل ہے کہ جیسے آسمان سے تارے توڑ لانے کے مترادف ہو۔ انصاف ہونا چاہیے اور ہوتا نظر بھی آنا چاہیے مگر ہمارے ہاں دونوں اقسام ہی مفقود ہیں۔

پولیس چور کو پکڑنے کے بجائے اس محفوظ مقام تک پہنچانے کا بندوبست کرنے میں لگی ہے۔ مگر اس کےلیے آپ کے پاس دولت کا انبار ہونا چاہیے پھر آپ تک چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی۔ لیکن کمزور ہیں تو آپ کو چڑیا بھی مار سکتی ہے۔

عوام ہیں کہ وہ ہمیشہ خواص بننے میں لگے ہیں۔ جو بھی استعمال کی چیز، وہ سبزی ہو، پھل ہو، گوشت ہو، چینی ہو یا کوئی دوسری گھریلو ضرورت کی چیز، اگر وہ بہت مہنگی ہے تو ہم عوام جو کہ خواص بننے کے چکر میں ہی ہوتے ہیں وہی خریدتے ہیں اور عام حالات سے زیادہ مقدار میں اور پھر اس چیز والا شاپر سب کو دکھاتے بھی جاتے ہیں کہ بس یہ دو چار کلو چیز ہی دستیاب تھی جو میں نے خرید لی۔

قیمتوں کی دہائی بھی دیتے جائیں گے اور خریداری میں کمی بیشی بھی نہیں کریں گے۔ نہ اس چیز کا استعمال کم کریں گے کہ طلب و رسد کے قانون کے تحت قیمت کچھ کم ہوجائے۔ ہمارے ملک میں دولت کو کچھ ایسے رواج دیا گیا ہے کہ اگر آپ کے پاس بے انتہا دولت ہے تو آپ جو چاہے کرسکتے ہیں، جسے چاہے خرید سکتے ہیں۔ ایسی کئی مثالیں ہمارے سامنے سے ابھی ابھی گزری ہیں جس میں بہت بڑے بزنس ٹائیکونز کو عدالت میں بلایا گیا، اس سے اربوں لیے گئے اور پھر وہ بھی اقساط میں اور اسے نیک نامی کا پرچہ تھما دیا گیا۔

حالات اور تاریخ کی ستم ظریفی ہمیں یہاں تک لے آئی ہے کہ ہم نے ہمیشہ اپنی جیب کا سوچا کہ ہماری جیب بھرجائے۔ اپنے ملک کی، اپنے پیارے وطن کی جس کے وجود سے ہمارا وجود مشروط ہوچکا ہے، جیب کاٹ کر اپنی جیبیں اور تجوریاں بھر بھر کر اسے کنگال کردیا اور آج ملک ملک کی منت کررہے ہیں۔ کبھی آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں اور کبھی کسی دوسرے مالیاتی ادارے کی طرف کشکول لے کر بھاگتے ہیں کہ ہمیں دیوالیہ ہونے سے بچاؤ۔

اس وقت میرے پیارے وطن میں ایسے لوگوں کی انتہائی قلت ہے جو یہ کہہ سکیں کہ یار میری خیر ہے، میرے وطن پر کوئی آنچ نہ آئے۔ میں ایک وقت بھوکا سو لوں گا مگر میرا وطن دنیا کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں