عشرۂ ذوالحج کے فضائل و برکات
اس مہینے کے پہلے دس دنوں میں کیے جانے والے نیک اعمال کا ثواب باقی ایام کے مقابلے میں زیادہ عطا کیا جاتا ہے
ﷲ تعالیٰ نے ماہ ذوالحج کو بالخصوص اس کے پہلے عشرے کو حرمت، برکت، عظمت اور فضیلت عطا فرمائی ہے۔
پہلی فضیلت: اس مہینے کا شمار ان چار مہینوں (ذوالقعدہ، ذوالحج، محرم اور رجب) میں ہوتا ہے، جن کو حرمت عزت والے مہینے کہا جاتا ہے، ان میں خون ریزی، لڑائی جھگڑا وغیرہ کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔
حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ''زمانہ گھوم کر اسی حالت پر آ گیا جیسے اس دن تھا جب اﷲ رب العزت نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا تھا۔ سال کے بارہ مہینے ہیں اور ان میں سے چار حرمت یعنی عزت و احترام والے ہیں: تین تو اکٹھے ترتیب کے ساتھ ہیں یعنی ذوالقعدہ، ذوالحج، محرم اور چوتھا مہینہ رجب والا ہے جو جمادی الثانی اور شعبان کے درمیان میں ہے۔'' (صحیح البخاری)
دوسری فضیلت : اس مہینے کے پہلے دس دنوں میں کیے جانے والے نیک اعمال کا ثواب باقی ایام کے مقابلے میں زیادہ عطا کیا جاتا ہے۔ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''عشرۂ ذو الحج میں کیے جانے والے نیک اعمال دوسرے عام دنوں میں کیے جانے والے نیک اعمال کے مقابلے میں اﷲ تعالیٰ کے ہاں زیادہ فضیلت والے ہیں۔'' صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اﷲ ﷺ! کیا جہاد (جیسی عظیم عبادت) بھی ان کے برابر نہیں؟ ''آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ مگر وہ شخص جو جان و مال لے کر جہاد کے لیے نکلے اور پھر ان جان و مال میں سے کچھ بھی واپس نہ آئے۔'' (یعنی وہ شہید ہو جائے) (صحیح البخاری)
حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ''اﷲ تعالیٰ کے ہاں عشرۂ ذوالحج زیادہ عظمت والا ہے اور ان دس دنوں میں کی جانے والی عبادت باقی عام ایام کی بہ نسبت اﷲ کو زیادہ محبوب ہے۔ ان دنوں میں کثرت کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کی تسبیح کرو یعنی سبحان اﷲ کہو، تہلیل یعنی لا الہ الا اﷲ کہو، تکبیر یعنی اﷲ اکبر اور تحمید یعنی الحمد ﷲ کہو۔''
تیسری فضیلت:اس مہینے کو یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ یہ دین اسلام کے پانچویں اہم ترین رکن ''حج'' کی ادائیگی کا مہینہ ہے۔ اس لیے اس مہینے کا نام ہی ذوالحج رکھا گیا ہے یعنی حج والا مہینہ۔
چوتھی فضیلت: اس مہینے کے مخصوص ایام (نویں ذوالحج کی نماز فجر سے تیرہویں ذوالحج کی نماز عصر تک) میں ہر فرض نماز کے بعد تکبیرات تشریق کہی جاتی ہیں۔ تکبیر تشریق یہ ہے: اﷲ اکبر اﷲ اکبر لا الہ الا اﷲ واﷲ اکبر اﷲ اکبر وﷲ الحمد
پانچویں فضیلت:اس مہینے کے پہلے عشرہ (مراد پہلے نو دن ہیں) کے روزوں کا ثواب بہت زیادہ ہے یہاں تک کہ اس کے ایک دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور اس کی ایک رات کی عبادت لیلۃ القدر کی عبادت کے برابر ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں: اﷲ تعالیٰ کے ہاں عام دنوں کے مقابلے میں عشرۂ ذو الحج کی عبادت زیادہ محبوب ہے، اس ایک دن کا روزہ (عام دنوں کے) ایک سال کے روزوں کے برابر ہے اور (عشرۂ ذوالحج کی) ایک رات کی عبادت لیلۃ القدر کی عبادت کے برابر ہے۔ (جامع الترمذی) نوٹ: یہ فضیلت یکم سے نو ذوالحج تک کے روزوں کی ہے دسویں تاریخ کو روزہ رکھنا جائز نہیں ہے۔
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں: رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ذوالحج کے (پہلے) نو دنوں میں روزہ رکھا کرتے تھے۔ (سنن ابی داؤد)
چھٹی فضیلت: اس میں اﷲ تعالیٰ نے اسلام کو مکمل فرمایا اور اپنی نعمت کو پورا فرمایا۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ ایک یہودی نے ان سے کہا: اے امیرالمومنین! آپ کی کتاب (قرآن کریم) میں ایک آیت ایسی ہے اگر وہ ہمارے اوپر یعنی دین یہود میں نازل کی جاتی ہے تو ہم اس دن عید مناتے۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اس یہودی سے پوچھا کہ کون سی آیت؟ یہودی نے کہا: جس کا مفہوم یہ ہے کہ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو بہ حیثیت دین پسند کرلیا۔
حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اس سے فرمایا: ہم اس دن کو خوب جانتے ہیں اور اس جگہ کو بھی اچھی طرح سے جہاں یہ آیت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پر نازل ہوئی۔ یوم عرفہ (نویں ذوالحج ) بہ روز جمعہ میدان عرفات میں وقوف فرما رہے تھے۔ (صحیح البخاری)
ساتویں فضیلت:اس مہینے کی نویں تاریخ یعنی ''یوم عرفہ'' کا روزہ ہے۔ جس کا احادیث مبارکہ میں بہت زیادہ اجر ذکر کیا گیا ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: عرفہ (نویں ذوالحج) کے دن کے روزے (کا ثواب) ایک ہزار دن کے روزوں کے برابر ہے۔
(شعب الایمان للبیہقی)
حضرت فضل بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ''جو شخص عرفہ کے دن اپنی زبان کی، اپنے کانوں کی اور اپنی آنکھوں کی حفاظت کرتا ہے تو اس دن سے لے کر دوسرے سال عرفہ کے دن تک کے اس کے گناہوں کو اﷲ تعالیٰ معاف فرما دیتے ہیں۔'' (شعب الایمان للبیہقی) حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حج کے دس دنوں میں سے ہر دن کو ہزار دنوں کے برابر جب کہ عرفہ کے دن کو دس ہزار دنوں کے برابر سمجھا جاتا تھا۔ (شعب الایمان للبیہقی)
حضرت ابوقتادہ انصاری رضی اﷲ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''میں اﷲ تعالی سے امید رکھتا ہوں کہ یوم عرفہ کا روزہ اپنے سے پہلے اور بعد والے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جا ئے گا۔'' (صحیح مسلم) نوٹ: پہلے عرض کیا جا چکا ہے یہ عظیم الشان فضیلت ان لوگوں کے لیے ہے جو حج ادا نہ کر رہے ہوں، حجاج کرام کو روزہ کی وجہ سے وقوف عرفہ جیسی عبادت میں سستی پیدا ہونے کا اندیشہ ہو تو بہتر یہ ہے کہ وہ روزہ نہ رکھیں۔
آٹھویں فضیلت: اس مہینے کی نویں تاریخ یعنی یوم عرفہ میں اﷲ رب العزت لوگوں کو جہنم سے کثرت کے ساتھ آزاد فرماتے ہیں۔ حضرت ابن المسیب سے مروی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ''اﷲ رب العزت باقی ایام کی بہ نسبت یوم عرفہ (نویں ذوالحج) والے دن لوگوں کو کثرت کے ساتھ جہنم سے آزاد فرماتے ہیں۔'' (صحیح مسلم)
نویں فضیلت:اس مہینے کی دسویں تاریخ کو نماز عید ادا کی جاتی ہے، عید کا دن بھی فضیلت والا ہوتا ہے اور اس کی رات بھی۔ عیدین کی راتیں ایسی مبارک راتیں ہیں اگر کوئی شخص ان میں اﷲ کی عبادت کرے تو اﷲ تعالیٰ اس کو قیامت کی ہول ناکیوں سے محفوظ فرماتے ہیں۔ حضرت ابوامامہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ''جو شخص دونوں عیدوں (عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ) کی راتوں میں ثواب کا یقین رکھتے ہوئے عبادت میں مشغول رہا تو اس کا دل اس دن نہ مرے گا جس دن لوگوں کے دل مردہ ہو جائیں گے۔'' (سنن ابن ماجہ)
دسویں فضیلت:اس مہینے کی دسویں، گیارہویں اور بارہویں تاریخ کو اﷲ کے نام پر متعین جانور کو ذبح کیا جاتا ہے یعنی قربانی کے مبارک عمل کی ادائیگی کی جاتی ہے اس دن اس عمل سے زیادہ کوئی اور عمل زیادہ اجر و ثواب والا نہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: اﷲ تعالیٰ کے ہاں کسی خرچ کی فضیلت اس خرچ سے ہرگز زیادہ نہیں جو عید قربان والے دن قربانی پر کیا جا ئے۔'' (سنن الدارقطنی)
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے فرمایا، مفہوم: ''عیدالاضحیٰ کے دن کوئی نیک عمل اﷲ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے محبوب اور پسندیدہ نہیں اور قیامت کے دن قربانی کا جانور اپنے بالوں، سینگوں اور کھروں سمیت آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اﷲ تعالیٰ کے ہاں شرفِ قبولیت حاصل کر لیتا ہے لہٰذا تم خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔''
(جامع الترمذی)
حضرت زید بن ارقم رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے: رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کے صحابہ رضی اﷲ عنہم نے سوال کیا: یارسول اﷲ ﷺ! یہ قربانی کیا ہے؟ (یعنی قربانی کی حیثیت کیا ہے؟) آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ''تمہارے (روحانی) باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنّت (طریقہ) ہے۔'' صحابہ رضی اﷲ عنہم نے عرض کیا کہ ہمیں قربانی کے کرنے سے کیا ملے گا؟ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی۔'' صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے (پھر سوال کیا) یارسول اﷲ ﷺ! اون (کے بدلے کیا ملے گا) آپ ﷺ نے فرمایا: ''اون کے ہر بال کے بدلے میں نیکی ملے گی۔'' (سنن ابن ماجہ)
نوٹ: جس شخص نے قربانی کرنی ہو اسے چاہیے کہ ذوالحج کا چاند نظر آنے سے قربانی کرنے تک ناخن اور بال وغیرہ نہ کاٹے۔
حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''جب ذو الحج کا پہلا عشرہ شروع ہوجائے (یعنی ذو الحج کا چاند نظر آجائے) اور تم میں سے کسی کا ارادہ ہو قربانی کا تو اس کو چاہیے (قربانی کرنے تک) اپنے بال اور ناخن نہ تراشے۔'' (صحیح مسلم)
اﷲ کریم ہمیں ان مبارک ایام کی قدر توفیق نصیب فرمائے۔ آمین