سندھ کے بلدیاتی اور پنجاب کے ضمنی انتخابات
پارلیمنٹ کے یہ نمایندگان بلدیاتی نمایندگان کو اپنا حریف سمجھتے ہیں
LOS ANGELES:
سندھ کی آبادی 5کروڑ سے متجاوزہے اور اضلاع 29 ہیں۔دو مراحل میں سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہو رہا ہے۔پہلے مرحلے میں 14سندھی اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کا رَن پڑا ہے۔ ابھی 15اضلاع کے انتخابات باقی ہیں۔ جناب آصف زرداری اپنے جیالوں کو اگلے بلدیاتی انتخابی فیز میں اُترنے کے لیے کمر کسنے کا حکم دے رہے ہیں۔ اگر عدالت اپنا صاف اور غیر مبہم فیصلہ نہ سناتی تو شاید ہمارے متعلقہ سیاستدان یہ بلدیاتی انتخابات ہونے ہی نہ دیتے۔سچ یہ ہے کہ سینیٹ،قومی و صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھنے والے طاقتور اور دولتمند سیاستدان نہیں چاہتے کہ ان کی سیاسی و انتخابی طاقت تقسیم ہو کر بلدیاتی منتخب نمایندگان کو منتقل ہو جائے۔
پارلیمنٹ کے یہ نمایندگان بلدیاتی نمایندگان کو اپنا حریف سمجھتے ہیں ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جیت کر بھی بلدیاتی نمایندگان طاقتوروں سے اپنے حقوق اور فنڈز وصول نہیں کر پاتے ۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا تو ہے لیکن شریک سیاستدانوں نے بہ امر مجبوری ہی ان میں حصہ لیا ہے۔ان بلدیاتی انتخابات میں جس طرح کی مارکٹائی ہوئی اور چند قتل بھی ہوئے ہیں،ان سانحات کو دیکھ کر کہا جانا چاہیے:کاش ہمارے ہاں کوئی ایسا قومی اور بلدیاتی انتخاب بھی ہوجائے جسے کامل طور پر شفاف اور تشدد سے پاک کہا جا سکے !
پہلے مرحلے میں سندھی بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی، نے بھاری اکثریتی سیٹیں جیت کر فتح کا جھنڈا گاڑ دیا ہے ۔ اس فتح کو پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین، آصف علی زرداری، اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی براہِ راست کامیابی کہی جانی چاہیے ۔ جی ڈی اے،جے یو آئی اور پی ٹی آئی کے اُمیدوار بھی جیتے تو ہیں لیکن بہت کم تعداد میں۔ نون لیگ تو بیچاری کسی شمار قطار میں بھی نظر نہیں آئی ۔ یوں نون لیگی قیادت نے سندھ کے ان بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں شکست کا داغ لے کر ثابت کیا ہے کہ کم از کم بلدیاتی سطح پر سندھ میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے ۔ تو کیا شیخ رشید احمد ٹھیک کہتے ہیں کہ اصلی نون لیگ انتخابات میں حصہ نہیں لے رہی ؟
پیپلز پارٹی نے سندھ کے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں بھاری اکثریت حاصل کرکے میدان تو مار لیا ہے لیکن ان انتخابات میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین، جناب بلاول بھٹو زرداری، نے لاڑکانہ میں اپنا ووٹ ہی نہ ڈالا۔ بتایا گیا ہے کہ وہ کراچی میں زیادہ مصروف تھے کہ اُن کی دادی جان کا انتقال ہو گیا ہے اور وہ پُرسہ دینے والوں کے لیے لاڑکانہ کے بجائے کراچی میں مقیم تھے ۔ سندھ کے بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ تو تکمیل کو پہنچ گیا ہے لیکن ساتھ ہی ان انتخابات کے بارے میں شکوک و شبہات، تنازعات اور شکایات بھی سامنے آ نے لگی ہیں۔ پی ٹی آئی قیادت بھی ان انتخابات سے ناراض ہے اور ایم کیوایم قیادت بھی نالاں نظر آ رہی ہے۔
پی ٹی آئی کے ایک سابق وفاقی وزیر ، علی زیدی صاحب، نے ٹوئٹر پر ایک رنگین کارٹون شایع کیا ہے جودراصل جناب آصف علی زرداری اور سندھ کے بلدیاتی انتخابات پر شائستہ مگر بھرپورطنز ہے۔
ایم کیو ایم کے وفاقی وزیر برائے آئی ٹی الگ ان بلدیاتی انتخابات بارے شکوہ کناں ہیں۔ اس پس منظر میں پیپلز پارٹی کے وفاقی وزیر، خورشید شاہ، نے مناسب پیشکش کی ہے کہ اگر کسی کو چند ایک یو سیز کے انتخابات پر شبہ ہے تو وہاں دوبارہ انتخابات کروائے جا سکتے ہیں۔
سندھ کے بلدیاتی انتخابات کی بھاری جیت پر جہاں پیپلز پارٹی شاداں و فرحاں ہے، وہاں اُن کی حریف اور مقابل جماعتیں غصے اور طیش میں بپھری ہُوئی ہیں ۔ مثال کے طورپر پی ٹی آئی کے سابق وفاقی وزیر، فواد چوہدری، کہتے ہیں کہ سندھ کے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں800لوگ بلا مقابلہ منتخب ہو گئے ہیں، بھلا یہ کیا انتخاباب ہُوئے ؟ یہ تو سلیکشن ہے۔''ہارنے والوں کے شکوے شکایات بڑھ رہے ہیں ۔
سندھ میں جے یو آئی (ایف) کے صدر، مولانا راشد سومرو، بھی ہار گئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کو اس شکست کا بڑا قلق ہے۔ شاید اسی لیے جے یو آئی (ایف) کے ایک ترجمان شکائت کرتے ہُوئے کہہ رہے ہیں :'' سندھ میں مخالفین کے لیے بلدیاتی انتخابات میں شرکت جرم بنا دیا گیا ہے ۔ کیا جمہوری قوتوں نے عمران خان سے یہی زیادتی اور ظلم سہنے کے لیے نجات حاصل کی تھی ؟۔'' جے یو آئی (ایف) مرکزی حکومت میں آصف زرداری کی ہمنوا اور ساجھے دار ہے۔ایسے میں اس جماعت کا سندھ کے مقتدرین سے شکائت اور شکوہ کرنا معنی رکھتا ہے ۔
کہا جارہا ہے کہ سندھ کے بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی اس لیے بھاری اکثریت سے جیتی ہے کہ یہ پارٹی سندھ میں برسراقتدار ہے۔ ساری طاقت ، سارے وسائل، سارے انتظامی اختیارات حکمران پیپلز پارٹی کے ہاتھوں میں ہیں۔ اس نکتہ نظر کو سرے سے مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ گزشتہ روز سوات (پی کے7)کے ضمنی انتخاب میں پی ٹی آئی کے اُمیدوار، فضل مولا، پانچ ہزار کی لیڈ سے اپنے حریف (اے این پی کے حسین احمد) سے جیت گئے ہیں ۔ کیااس جیت کی بھی وجہ یہ ہے کہ سوات میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے؟ حالانکہ یہ سیٹ پہلے اے این پی کے وقار احمد مرحوم کے پاس تھی !
یہ تصور اور تاثر عام ہے کہ جس صوبے میں جس پارٹی کی حکومت ہوگی، اُسی کے اُمیدواران ضمنی انتخابات جیتیں گے۔یہ رواج اور تاثر مگر اتنا پائیدار بھی نہیں ہے ۔ عمران خان کی حکومت کے دوران ہم نے دیکھا تھا کہ پنجاب کے جملہ ضمنی انتخابات میں نون لیگی اُمیدوار جیتے تھے حالانکہ پنجاب میں پی ٹی آئی طاقت اور اقتدار میں تھی۔ اب جب کہ پنجاب میں بھی 17جولائی 2022 کو 20سیٹوں پر ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں تو کہا یہی جارہا ہے کہ پنجاب کی حکمران جماعت ہی اکثریتی طور پر جیت سے ہمکنار ہو گی۔
قیافے لگانے والوں کا کہنا ہے کہ ان ضمنی انتخابات میں نصف سے زیادہ سیٹیں نون لیگ کو جتوانا اس لیے بھی ضروری ہیں تاکہ میاں حمزہ شہباز کی وزارتِ اعلیٰ مضبوط ومستحکم کی جائے۔اگرچہ نون لیگ کی اکثریتی جیت کے واضح امکانات ہیں لیکن پی ٹی آئی بھی حوصلے میں ہے۔
عمران خان پنجاب میں اپنے پارٹی اُمیدواروں کی بھرپور پشت پناہی کررہے ہیں۔ وہ اپنے اُمیدواروں کے حق میںکل 2جولائی سے ایک بار پھر پنجاب میں نئے سرے سے جلسے جلوسوں کا آغاز کررہے ہیں۔ اُن کے مقابلے میں، پنجاب کے ضمنی انتخابات کے حوالے سے، محترمہ مریم نواز بھی نون لیگی اُمیدواروں کی کمپین کے لیے پر تول رہی ہیں۔ اس پیش منظر میں اتنا مگر ضرور کہا جائے گا کہ پنجاب کے یہ ضمنی انتخابات خاصے دلچسپ ہوں گے ۔