کورونا پھر حملہ آور
صوبہ سندھ ہی کے شہر حیدر آباد میں بھی یہ وبا بہت تیزی پھیل رہی ہے
ایسے لگتا تھا کہ پوری دنیا اور پاکستان کورونا وائرس سے چھٹکارا پا چکا ہے لیکن دس پندرہ دنوں سے اس وبا کی چھٹی لہر نے ایک بار پھر پوری قوت سے سر اُٹھایا ہے۔ کراچی میں کورونا وبا کی نئی لہر سے متاثر ہونے والے افراد کا تناسب بیس فی صد سے اوپر جا چکا ہے۔
صوبہ سندھ ہی کے شہر حیدر آباد میں بھی یہ وبا بہت تیزی پھیل رہی ہے تاہم حیدرآباد میں متاثرہ آبادی کا تناسب ابھی کراچی کے مقابلے میں قدرے کم ہے۔ دونوں ہی گنجان آباد شہر ہیں،دونوں کے درمیان فاصلہ زیادہ نہیں ہے۔ کراچی سے حیدرآباد اور حیدرآباد سے کراچی کم و بیش دو گھنٹوں میں پہنچا جا سکتا ہے، اس لیے روزانہ لاکھوں افراد ان دو شہروں کے درمیان سفر کرتے ہیں،آمدو رفت میں اس آسانی اور بڑی تعداد کی وجہ سے کورونا وائرس کا ایک شہر سے دوسرے شہر جلدی منتقل ہونا بہت فطری بات ہے۔
ایک اندازے کے مطابق کراچی کی آبادی کسی طرح بھی ڈیڑھ دو کروڑ سے کم نہیں ہو گی۔پاکستان کی سب سے بڑی بندر گاہ اور سب سے بڑے ہوائی اڈے کے یہاں ہونے کی وجہ سے یہاں سے ملک کے دوسرے علاقوں اور شہروں کی طرف بہت بڑے پیمانے پر آمد و رفت ہوتی ہے۔ کراچی سے بذریعہ ہوائی جہاز روزانہ ایک بڑی تعداد میں لوگ اپنے سرکاری اور غیر سرکاری کاموں کے لیے اسلا م آباد کا رُخ کرتے ہیں۔
اس قدر بڑی آمدو رفت کی وجہ سے اس بات کا بہت امکان ہے کہ کورونا وائرس سے متاثرہ افراد ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل بھی ہو رہے ہوں اور اپنے ساتھ وائرس کو بھی غیر محسوس طریقے سے غیر متاثرہ افراد تک منتقل کر رہے ہوں۔ کراچی سے اسلام آباد کے علاوہ لاہور اور کوئٹہ کے درمیان بھی کافی آمد و رفت ہوتی ہے اس لیے اس بات کا قوی امکان ہے کہ کراچی سے یہ وبا ان شہروں میں بھی جلدی متاثر کرنا شروع کر دے۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اب تک کورونا وائرس سے پاکستان میں پندرہ لاکھ تینتیس ہزار کے لگ بھگ افراد متاثر ہوئے ہیں۔ان میں سے 30,691 افراد اس وائرس سے لقمہء اجل بن چکے ہیں۔ اس حساب سے متاثرہ افراد کا 98فی صد متاثر ہونے کے بعد بچ نکلے ہیں جب کہ لقمہ ء اجل بننے والے افراد کا تناسب صرف 2 فی صد رہا ہے۔
ہمارے ملک میں بہت سے کام سرکاری نگاہ میں نہیں آتے اس لیے ان اعداد و شمار پر کلی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا لیکن ایک بات طے ہے کہ اﷲ نے ہمارے اوپر خصوصی کرم کیا ہے اور ہم اب تک اس وائرس سے بہت بڑے پیمانے پر متاثر نہیں ہوئے۔ موجودہ لہر شروع ہونے کے بعد تازہ ترین اعدادو شمار کے مطابق اب تک ساڑھے پانچ سو سے اوپر افراد متاثر ہو چکے ہیں اور اس دوران صرف چار اموات ہوئی ہیں۔
کراچی اور حیدر آباد کے بعد مردان کی آبادی اس لہر سے تیسرے نمبر پر متاثر ہوئی ہے جہاں متاثرہ افراد کی شرح8.51فی صد ہے۔ کراچی اور حیدر آباد تو قریب قریب ہیں اور دونوں شہروں میں متاثرہ افراد کی بڑی تعداد سمجھ میں آتی ہے لیکن مردان میں اتنی بڑی آبادی کا متاثر ہونا حیرانگی کا باعث ہے۔لگتا ہے کہ افغانستان سے آمدو رفت کے باعث کے پی کے متاثر ہورہا ہے ، افغانستان سے محلقہ بلوچستان کے چونکہ اعدادوشمار نہیں ، اگر وہاں ٹیسٹنگ ہو تو حقائق سامنے آسکتے ہیں۔
افغانستان میں تو کسی کو چیک ہی نہیں کیا جاتا، اس لیے وہاں کے اعدادوشمار کا ہی پتہ نہیں ہے لیکن یہ کہنا کورونا وباء وہاں نہیں ہوگا، خود کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ اسلا م آباد جہاں چند دن پہلے یہ شرح0.7تھی وہاں یکدم متاثرہ افراد کی شرح 3.5 فیصد ہو گئی ہے جو بہت تشویش ناک ہے۔ پشاور میں یہ شرح 3.0 فی صد ہے اور لاہور میں متاثرہ افراد کی شرح 2.82 فیصد بتائی گئی ہے۔
فروری 2020میں یہ وائرس چین سے ہوتا ہوا، ایران تک پہنچ چکا تھا لیکن پاکستان اس وقت تک محفوظ تھالیکن اس وقت کی حکومت نے علم ہونے کے باوجود اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔ اگر اس وقت حکومت فضائی اور زمینی راستوں کی کڑی نگرانی کی جاتی اور صرف ان ہی افراد کو پاکستان داخل ہونے دیتے جو وائرس سے پاک ہوتے تو شاید یہ وائرس پاکستان میں داخل ہی نہ ہو سکتا۔
تائیوان اور چند دوسرے ممالک نے ابتدا میں ہی بہت سختی کر کے اپنے ممالک کو اس وبا کی تباہ کاریوں سے قدرے محفوظ کر لیا لیکن اس وقت کی پاکستانی حکومت نے ایران سے آنے والے زائرین جو ایران میں متاثر ہو چکے تھے، انھیں بوجوہ پاکستان میں داخل بھی ہونے دیا اور ان کا کوئی ریکارڈ بھی نہیں رکھا کہ وہ کہاں ہیں اور کیوں آزادانہ وائرس پھیلا رہے ہیں۔
اسی بے احتیاطی کی وجہ سے پاکستان کے اندر یہ وبا پھیلی۔ یہ تو اﷲ کریم کا خاص کرم ہے اور شاید پاکستانیوں کا بیماریوں کے خلاف لڑنے کا مدافعتی نظام بہت مضبوط ہے کہ جس طرح بھارت، اٹلی، اسپین، برطانیہ اور امریکا میں تباہی پھیلی،پاکستان اس تباہ کاری سے خاصی حد تک محفوظ رہا۔ہمارے ہاں اتنی بڑی گنجان آبادی ہونے کے باوجود اس وبا سے مرنے والوں کی تعداد بہت کم رہی۔ ہماری دیہی آبادی تو اتنی محفوظ رہی کہ وہ اس وبا کی موجودگی سے ہی انکار کر تی ہے۔ دیہاتوں میں لوگوں کا مدافعتی نظام شہریوں کے مقابلے میں زیادہ مضبوط بھی ہوتا ہے اور باہر سے متاثرہ افراد کی آمد بھی بہت ہی کم ہوتی ہے۔ اس سے پہلے کہ کورونا وائرس کی تازہ لہر پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لے اس کو پھیلنے سے روکنا از بس ضروری ہے۔
گزشتہ چند ماہ میں یہ وبا بہت حد تک دب گئی تھی اور ایسے لگتا تھا کہ ہم اس سے جان چھڑا بیٹھے ہیں اس لیے ہم نے تمام احتیاطی تدابیر کو چھوڑ دیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک اس وائرس کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہو جاتا ہمیں احتیاط سے کام لیتے رہنا ہو گا۔ملنے جلنے کے مواقع پر جو احتیاط درکار ہے وہ اب کہیں نظر نہیں آتی بلکہ احتیاط کرنے والا اپنا مذاق ہی اڑواتا ہے۔ ہمارے سماجی رویئے بھی احتیاط سے مانع ہیں۔
آمنا سامنا ہونے پر اگر ایک فریق ہاتھ آگے بڑھاتا ہے یا گلے ملنے کے لیے بڑھتا ہے تو ہمارے معاشرے میں اس کو بہت معیوب سمجھا جاتا ہے کہ آپ بڑھے ہوئے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہ دیں۔ہم میں سے ہر ایک کو پتہ ہے کہ کورونا وائرس منہ،ناک اور آنکھ کے ذریعے متاثر کرتاہے اس لیے ہاتھ ملانے گلے لگنے وغیرہ سے مکمل اجتناب کر کے اس سے بچا جا سکتا ہے۔
ادھر عید الاضحی قریب آ لگی ہے۔عید کے تھوڑے ہی دنوں بعد محرم الحر ام کا مہینہ شروع ہو جائے گا۔ ہمیں کورونا وائرس کی چھٹی لہر کا عزم و حوصلہ اور ہوشمندی سے مقابلہ کرنا ہے۔تمام احتیاطی تدابیر بروئے کار لاکر اس کو اپنے سے دور رکھناہے۔اﷲ ہم سب کی اور پاکستان کی حفاظت فرمائے۔