پنجاب ضمنی انتخابات ن لیگ کو تکنیکی برتری حاصل
پنجاب میں ن لیگ نہ صرف انتخابات لڑنے کاوسیع تجربہ رکھتی ہے بلکہ وہ اپنے مخالفین کو زیرکرنے کی بھی بھرپورمہارت رکھتی ہے
ہماری سیاسی تاریخ جس تیزی کے ساتھ بدلتی ہے، شاید ہی کسی ملک کی بدلتی ہو۔ اسی لیے گزشتہ 75سالوں میں شاید ہی ہمیں سیاسی استحکام نصیب ہوا ہو۔ حالیہ حکومت ہی کو دیکھ لیں، ڈھائی ماہ قبل اپریل میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد 11 جماعتوں کا اتحاد حکومت میں آیا اور وزارت عظمیٰ کا تاج مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کے سر پر سجایا گیا، یوں معاشی اور سیاسی طور پر ہچکولے کھاتے پاکستان کی ڈرائیونگ سیٹ مسلم لیگ ن کو دے دی گئی اور پھر حصہ بقدر جثہ کے مطابق وزارتوں کی تقسیم ہوگئی۔
لیکن ساجھے کی ہانڈی ہمیشہ بیچ چوراہے پر پھوٹتی ہے خاص طور پر سیاسی اور اقتدار کی سانجھے کی ہانڈی پھوٹنے کا دھماکا تو زیادہ تیز اور اثر انگیز ہوتا ہے کیونکہ سیاسی ساجھے داری میں نہ کوئی اصول ہوتے ہیں نہ ضوابط بلکہ صرف مفادات کو دیکھا جاتا اور اقتدار کے حصول کو ہی فوقیت دی جاتی ہے۔ خیر، اس وقت پنجاب میں بھی کشیدہ موسم بنا ہوا ہے۔ یہاں تحریک انصاف اور ن لیگ میں گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے۔ ویسے تو تحریک انصاف اور مخالفین (پی ڈی ایم) کے درمیان پنجاب کی حکومت کے لیے جنگ مارچ کے اوائل سے شروع ہوگئی تھی لیکن اس میں تیزی 25 مارچ کے بعد آئی۔
28 مارچ کو وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے اپنا استعفیٰ اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کو پیش کردیا۔جبکہ 16 اپریل کو پنجاب اسمبلی میں شدید ہنگامہ آرائی کے دوران حمزہ شہباز 197 ووٹ حاصل کرکے پنجاب کے 21ویں وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔پھر حمزہ شہباز کے حلف اُٹھانے کے معاملے پر بحران پیدا ہوا اور 30 اپریل کو لاہور ہائی کورٹ کے حکم کی روشنی میں حمزہ شہباز نے بطور وزیر اعلیٰ اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔
جس کے ٹھیک 2 ماہ بعد 30 جون کو لاہور ہائی کورٹ نے حمزہ شہباز کے بطور وزیر اعلیٰ انتخاب کو کالعدم قرار دے دیا اور اگلے دن دوبارہ الیکشن کروانے کا کہا۔ معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچ گیا، عدالت عظمیٰ نے ''پنچایت'' کا کردار ادا کرتے ہوئے فریقین کو ایک نکتے پر متفق کیا اور اگلے وزیر اعلیٰ کا انتخاب ، 17جولائی کو ضمنی انتخابات کے بعد طے پایا۔
پنجاب میں ن لیگ نہ صرف انتخابات لڑنے کا وسیع تجربہ رکھتی ہے بلکہ وہ اپنے مخالفین کو زیر کرنے کی بھی بھرپور مہارت رکھتی ہے۔ اس حوالے سے آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ن لیگ میں الیکشن لڑنے کے حوالے سے نہایت تجربہ کار ''ٹیم'' سعد رفیق، احسن اقبال، پرویز رشید، ملک احمد خان، خواجہ آصف، رانا تنویر، عبدالرحمن کانجو وغیرہ جیسے منجھے ہوئے کھلاڑی کسی سے پیچھے نہیں۔ پھر'' تجربہ کاری'' کی انتہا دیکھیں کہ انتخابات میں سرکاری مشینری استعمال کرنا اور کیا ہوتا ہے کہ جس جس حلقے میں الیکشن ہو رہا ہے وہاں وہاں لوڈ شیڈنگ نہیں ہورہی، اور اگر ہو رہی ہے تو صرف ایک آدھ گھنٹہ۔ پھر وہاں کی سڑکیں تعمیر کی جا رہی ہیں، حالانکہ الیکشن کمیشن کے رولز کے مطابق جس حلقے میں الیکشن ہو، وہاں ترقیاتی کام روک دیے جاتے ہیں۔
پھر وہاں کے یوٹیلٹی اسٹورز پر اشیائے خورو نوش کا اسٹاک بڑھا کر عوام کو وقتی ریلیف دیا جا رہا ہے، اور پھر جب لگتا ہے کہ جس علاقے میں ووٹ کم ملنے ہیں وہاں پولنگ اسٹیشن نسبتاً دور بنا دیے جاتے ہیں، تاکہ ووٹرز کو مسائل کا سامنا کرنا پڑے، جبکہ اس کے برعکس جس علاقے میں اپنے ووٹ زیادہ ہوتے ہیں، وہاں پولنگ اسٹیشن قریب بنائے جاتے ہیں۔ پھر سب سے بڑھ کر ان پولنگ اسٹیشن پر پولنگ اسٹاف بھی مرضی کا لگایا جاتا ہے۔اس کے علاوہ پولیس ان کی اپنی ہے، ایکسائز انسپکٹر، لیبر انسپکٹر، تحصیل دار اورتمام سرکاری افسران ان کے اپنے ہیں تو کاہے کا ڈر۔بقول شاعر
کیا کیا بتاؤں سینہ کھول کر تجھے اے تخیل
اُمید پر جیتے ہیں کہ شاید درست زمانہ ہو جائے
تحریک انصاف کا ووٹ زیادہ تر مڈل کلاس کا ووٹ ہے۔ان سیاسی جماعتوں کے برعکس بڑی اپوزیشن جماعت تحریک انصاف ابھی ''تعمیر نو'' سے گزر رہی ہے، اُس میں بھی بے شمار مسائل ہیں، خاص طور پر 25 مئی کولانگ مارچ نے خان صاحب اور پی ٹی آئی کو احتجاجی تحریک کا تجربہ بھی دیا، مزہ بھی چکھا مگر ریاستی جبر کا وہ اس طرح مقابلہ نہ کرسکے جیسا بے نظیر بھٹو نے کیا تھا۔ مطلب ایسا ہی کچھ 1986میں بے نظیر بھٹو کے ساتھ بھی ہوا تھا جب انہوں نے 1983کے بعد دوبارہ MRD کی تحریک شروع کرنے کی کوشش کی۔ ناکامی کے باوجود انہوں نے تمام رکاوٹیں توڑیں اور آنسو گیس، گولیوں کے دوران لیاری میں جلوس کی قیادت کی وہ کسی ساتھی کی گاڑی میں چھپ کر وہاں پہنچیں۔
لیکن مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام ہوگئیں۔ احتجاجی تحریک کا ایک بار ٹیمپو ٹوٹ جائے تو اسے دوبارہ شروع کرنا ذرا مشکل ہوتا ہے مگر جماعتیں حکمت عملی تبدیل کرتی ہیں لگتا ایسا ہی ہے کہ خان صاحب لانگ مارچ کے علاوہ احتجاج کے دوسرے طریقہ اپنانے کے موڈ میں نہیں ہیں مثلاً جیل بھرو تحریک، پہیہ جام ہڑتال یا مظاہرہ۔لہٰذا فی الوقت وہ پنجاب کا ضمنی الیکشن دیکھ رہے ہیں، اُس کے بعد حکمت عملی وضع کریں گے کہ آیا وہ قومی اسمبلی میں رہیں گے یا اپنے 130اراکین کے ساتھ استعفیٰ دیں گے ، جسے سیاسی ماہرین تاریخ کی بڑی غلطی قرار دے رہے ہیں۔
خیر بات پنجاب کی ہو رہی تھی تو وہاں پر اس وقت ایوان کی جو صورتحال ہے اس کے مطابق حکومت (ن لیگ و دیگر جماعتیں) اور اپوزیشن تحریک انصاف و دیگر جماعتوں کی نشستیں کم و بیش برابر ہیں، بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ ن لیگ کو معمولی سی برتری حاصل ہے تو اس میں کوئی دورائے نہیں ہوں گی۔ لہٰذاضمنی انتخابات میں دونوں جماعتوں کی طرف سے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جائے گا اور ایک ایک سیٹ پر گھمسان کا رن پڑے گا۔ کیوں کہ ایک ایک جیتی ہوئی سیٹ پنجاب کی برتری میں نمایاں کردار ادا کرے گی۔ لہٰذااگر ہم ان نشستوں پرجہاں ضمنی انتخاب ہونا ہے وہاںکھڑے اُمیدواروں کے حوالے سے بات کریں تو ن لیگ کا پلڑا بھاری دکھائی دیتا ہے ، اور ہر علاقے میں مضبوط اُمیدوار ہے۔
ضمنی انتخابات میں ن لیگ تاریخ میں ایک منفرد ریکارڈ رکھتی ہے کہ اُس کے دور حکومت میں آج تک جتنے بھی ضمنی انتخابات ہوئے وہ ن لیگ نے ہی جیتے ہیں، جیسے 2013کے وفاقی دور میں 13میں سے 12ضمنی الیکشن ن لیگ نے جیتے پھر پنجاب کے 2008سے 2018تک کے دور میں 21ضمنی انتخابات ہوئے سبھی میں ن لیگ بھاری رہی۔ ایسا اس لیے بھی ہے کہ اُنہیں علم ہے کہ سیاسی کھیل کیسے کھیلا جاتا اور ووٹر کو کیسے قائل کیا جاتا ہے۔ لہٰذاتحریک انصاف دل چھوٹا نہ کرے اور جنرل الیکشن کی بھرپور تیاری کرے تاکہ 2023ء کے الیکشن میں فیصلہ کرنے والی قوتیں بھی دیکھ لیں کہ عوام حقیقی طور پر کس کے ساتھ ہیں۔