اسحاق ڈار کی واپسی
ایک سوال بہت گردش کر رہا ہے کہ کیا اسحاق ڈار کے آنے کے بعد مفتاح اسماعیل کی چھٹی ہو جائے گی
ملک میں اسحاق ڈار کی واپسی کے حوالہ سے ایک عجیب بحث شروع ہے۔ کچھ لوگ جو اسحاق ڈار کی واپسی کے خلاف ہیں ان کے مطابق انھیں واپس نہیں آنا چاہیے۔ ایک صحافی دوست ٹی وی ٹاک شو پر چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے وہ تو بیمار تھے۔ اب ٹھیک کیسے ہو گئے۔
میں حیران ہوں کہ پہلے اس دوست کو ان کے بیمار ہونے پر اعتراض تھا۔ اب ان کو ان کے صحت مند ہونے پر اعتراض تھا۔ پہلے انھیں اسحاق ڈار کے وطن واپس نہ آنے پر اعتراض تھا۔ اب انھیں ان اسحاق ڈار کے واپس آنے پر اعتراض تھا۔اس لیے مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ وہ چاہتے کیا ہیں۔ وہ نہ آئیں تو اعتراض اور اگر اب آنے کا اعلان کیا ہے تو بھی اعتراض ۔
اسی طرح دوستوں کو یہ بھی اعتراض ہے کہ اب وہ اپنے مقدمات میں پیش ہونے کیوں آرہے ہیں۔ حیرانگی کی بات ہے جب اسحاق ڈار قانون کو مطلوب تھے اور پیش نہیں ہو رہے تھے تو دوست اعتراض کر رہے تھے کہ وہ آئیں خود کو قانون کے سامنے سرنڈر کریں۔ اب جب وہ آنے کی بات کر رہے ہیں تو کہا جا رہا ہے کہ کیوں آرہے ہیں۔ کیوں قانون کے سامنے پیش ہو رہے ہیں۔ ایک دوست کے مطابق وہ نیب کو مطلوب ہیں اب کیوں آرہے ہیں۔ میں نے کہا واپس آئیں گے تو نیب میں پیش ہو جائیں گے۔ عدالت میں پیش ہونگے۔ انصاف ہوگا۔ لیکن دوست کے مطابق وہ کیوں آرہے ہیں۔
ایک سوال بہت گردش کر رہا ہے کہ کیا اسحاق ڈار کے آنے کے بعد مفتاح اسماعیل کی چھٹی ہو جائے گی۔ میں نہیں سمجھتا اسحاق ڈار کے آنے کے بعد مفتاح اسماعیل کی چھٹی ہو جائے گی۔ اسحاق ڈار وزیر بنیں یا نہ بنیں لیکن پاکستان مسلم لیگ (ن) میں ان کا اپنا ایک مقام ہے۔ وہ سب کے لیے قابل احترام ہیں۔ وہ کوئی متنازعہ شخصیت نہیں ہیں۔ ان کی کوئی گروپنگ بھی نہیں ہے۔ اگر وہ وزیر نہیں بھی بنیں گے تب بھی وہ ٹیم کا حصہ ہونگے۔ ان کی رائے اور تجربہ کی اپنی ایک اہمیت ہوگی۔ جس کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اندر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے میری رائے میں اسحاق ڈار کی واپسی کے بعد مفتاح اسماعیل کمزور ہونے کی بجائے مضبوط ہونگے۔
وہ مفتاح اسماعیل کے لیے ایک سیسہ پلائی دیوار ہونگے۔ ان میں لوگوں کو ساتھ لیکر چلنے کی کمال صلاحیت ہے۔ اس لیے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اندر میری جس سے بھی بات ہوئی ہے سب کے مطابق اسحاق ڈار لوگوں کو جوڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کی وجہ سے آج تک کوئی ناراض نہیں ہوا ہے۔ بلکہ انھوں نے ہمیشہ ناراض لوگوں کو منانے کا ہی کام کیا ہے۔اس بات کے بھی شواہد ملے ہیں کہ مفتاح اور اسحاق ڈار کے درمیان ایک اچھی انڈر اسٹینڈنگ موجود ہے۔ دونوں کے درمیان تنائو نہیں ہے۔ نہ ہی کوئی اختلاف ہے۔ اس لیے جو کہانیاں گردش کر رہی ہیں وہ درست نہیں ہیں۔
اسحاق ڈار اور وزیر اعظم شہباز شریف کے درمیان بھی بہترین انڈر اسٹینڈنگ موجود ہے۔ اسحاق ڈار پر عدم اعتماد کی جب گفتگو ہوئی تو وہ شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانے کے پاکستان مسلم لیگ (ن) میں سب سے بڑے حامی بن کر سامنے آئے تھے۔ انھوں نے سب سے پہلے میاں نواز شریف کے سامنے یہ بات کی تھی کہ شہباز شریف وزیر اعظم کے لیے بہترین امیدوار ہیں۔ اس لیے شاید کم لوگوں کو انداذہ ہوگا کہ لندن میں شہباز شریف کے سب سے بڑے حامی اسحاق ڈار ہیں۔ شہباز شریف کے مخالفین کو چپ کروانے اور ان کو نیوٹرل کرنے میں بھی اسحاق ڈار نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ آج شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے میں اسحاق ڈار کا ایک کلیدی کردار ہے۔ اس لیے اسحاق ڈار کی واپسی کے بعد شہباز شریف مضبوط ہونگے ۔ کمزور نہیں ہونگے۔
اسحاق ڈار کی بطور وزیر خزانہ کارکردگی کو پاکستان مسلم لیگ (ن) میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ آج پاکستان مسلم لیگ معاشی محاذ پر اپنی جن کامیابیوں کا ٖفخر سے ذکر کرتی ہے۔ اس میں اسحاق ڈار کا کلیدی کردار ہے۔ اسی طرح اسحاق ڈار کے دور میں ہی پاکستان میں ٹیکس دگنا اکٹھا ہوا۔ اس حوالہ سے یہ بات بھی مانی جاتی ہے کہ انھوں نے دگنا ٹیکس بغیر کسی شور کے جمع کیا تھا۔ ٹیکس کی شرح میں بھی کوئی خاص اضافہ نہیں کیا گیا تھا۔ آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ معاملات حل کرنے کا وسیع تجربہ ہے۔ انھوں نے بہت عرصہ ان سے ڈیل کیا ہے۔ اس لیے ان کی وطن واپسی پر وہ ان معاملات میں مسلم لیگ (ن) کی بہت مدد کر سکتے ہیں۔
اسحاق ڈار کی موجودگی پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نوجوان کی قیادت کے لیے ایک بزرگ کی ہوگی جو مشکل میں اپنے تجربہ سے مدد کر سکے گا۔ اس میں تنازعہ والی کوئی بات نہیں ہونی چاہیے۔ آج چار سال بعد پاکستان کے تمام سٹیک ہولڈر اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ روپے کی قدر کو کنٹرول کرنے میں ہی پاکستان کا معاشی استحکام ہے۔ چار سال قبل ڈالر کو کنٹرول کرنے کی اسحاق ڈار کی پالیسی کے کٹر مخالفین بھی آج اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ روپے کو اس طرح آزاد نہیں چھوڑاجا سکتا۔ کہیں نہ کہیں اس میں حکومتی کنٹرول ضروری ہے۔ ورنہ مارکیٹ اور مافیا روپے کو گرا دیتا ہے۔ چار سال قبل اسحاق ڈار پر سب سے بڑ االزام یہی تھا کہ ڈالر کو کنٹرول کرنے کے لیے وہ ہر ماہ دو ارب ڈ الر مارکیٹ میں پھینک دیتے ہیں۔ اس لیے انھوں نے مصنوعی طریقہ سے ڈالر کو کنٹرول کیے رکھا۔
لیکن اب سوال یہ ہے کہ چار سال سے تو پاکستان دو ارب ڈالر مارکیٹ میں نہیں پھینک رہا۔ ہم نے روپے کی قدر میں بھی سو روپے کمی کر لی ہے۔ پھر پاکستان کے خزانہ میں اسی ارب ڈ الر بچ جانے چاہیے تھے۔ وہ کیوں نہیں بچے۔ وہ کہاں ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اسحاق ڈار کے خلاف بنایا جانے والا بیانیہ غلط تھا۔ اس میں کوئی حقیقت نہیں تھی۔ لیکن اس سب کا شاید اسحاق ڈار کو کم اور پاکستان کو زیادہ نقصان ہوا ہے۔ اسحاق ڈار کی دشمنی میں ہم نے پاکستان کا ناقابل تلافی نقصان کر دیا ہے۔ اور ہم ایسی حکومت لے آئے جس کا وزیر اعظم یہ کہتا تھا کہ اسے روپے کی قد رگرنے کا ٹی وی سے پتہ چلاہے۔ اس لیے اسحاق ڈار کو پاکستان آنے دینا چاہیے۔ وہ پاکستان کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس میں انا پرستی کی نہیں دانشمندی کی ضرورت ہے۔ انا پرستی میں ہم نے پاکستان کو بہت نقصان پہنچا دیا ہے۔