سودی نظام کا تحفظ نہ کریں
اس وقت ساری دنیا بلا سود بینکاری کے نظام کی جانب بڑھ رہی ہے،چاہے کوئی مسلمان ہے یا غیر مسلم، سبھی سودسے نجات چاہتے ہیں
وفاقی شریعت عدالت کی جانب سے سود کے خاتمے کے حوالے سے واضح فیصلے سے جہاں ملک بھر کی دینی جماعتوں اور اسلام پسند لوگوں کو راحت، سکون اور اطمینان ملا ہے وہاں اسلام بیزار طبقے کی نیندیں بھی حرام ہوچکی ہیں۔
وفاقی شریعت عدالت کا فیصلہ اور اس کے بعد کی صورتحال پر بحث کرنے سے قبل ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ سود کیا ہے اور شریعت محمدی میں حرام قرار کیوں دیا گیا ہے۔ سود کو عربی زبان میں ''ربا''کہتے ہیں، جس کے لغوی معنی زیادہ ہونا، پروان چڑھنا، اور بلندی کی طرف جانا ہے۔ اور شرعی اصطلاح میں ربا (سود) کی تعریف یہ ہے کہ '' کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت وہ کچھ رقم زیادہ لے گا''۔
سود خواہ کسی غریب ونادار سے لیاجائے یا کسی امیر اور سرمایہ دار سے، یہ ایک ایسی لعنت ہے جس سے نہ صرف معاشی استحصال، مفت خوری، حرص وطمع، خود غرضی، شقاوت وسنگدلی، مفاد پرستی، زر پرستی اور بخل جیسی اخلاقی قباحتیں جنم لیتی ہیں بلکہ معاشی اور اقتصادی تباہ کاریوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، اس لیے دینِ اسلام اسے کسی صورت برداشت نہیں کرتا۔ شریعت محمدی نے نہ صرف اسے قطعی حرام قرار دیاہے بلکہ اسے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ قرار دیاہے۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں۔ جولوگ سود کھاتے ہیں وہ یوں کھڑے ہوں گے جیسے شیطان نے کسی شخص کو چھو کر مخبوط الحواس بنا دیا ہو۔ اس کی وجہ ان کا یہ قول ہے کہ تجارت بھی تو آخر سود کی طرح ہے، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام۔ اب جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے یہ نصیحت پہنچ گئی اور وہ سود سے رک جائے تو پہلے جو سود کھا چکا اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے مگر جو پھر بھی سود کھائے تو یہی لوگ جہنمی ہیں، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کی پرورش کرتا ہے۔
وفاقی شریعت عدالت کی طرف سے 28 اپریل 2022 کو جاری کردہ فیصلے میں ربا ( سود ) کی ہر قسم کو حرام اور اس کے لیے سہولت کاری کرنے والے تمام قوانین اور شقوں کو غیرشرعی قرار دیتے ہوئے حکومت کو سودی نظام کے مکمل خاتمے کے لیے پانچ سال کی مہلت دی تھی اور 31 دسمبر 2027 تک تمام قوانین کو سود سے پاک اسلامی اصولوں میں ڈھالنے کا حکم دیا تھا، وفاقی شریعت عدالت نے اس کیس کا فیصلہ 19 سال بعد سنایا تھا۔ جسے سرکاری سمیت تین نجی بینکوں نے چیلنج کردیا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ حکومت نے مذکورہ فیصلے کے آنے کے بعد فوری ردعمل میں تو اسے خوش آئند قرار دیا لیکن اب اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔
آئین میں واضح ہے کہ قرآن و سنت کے منافی کوئی بھی قانون نہیں بنایا جا سکتا۔ اس طرح یہ تضادات خود حکومت کی حیثیت کو متنازع بنانے کا باعث بن رہے ہیں۔اب وقت آگیا ہے کہ حکومت خود واضح کرے کہ وہ اس ملک میں کون سا مالیاتی و بینکنگ سسٹم رائج کرنا چاہتی ہے کیونکہ ایک طرف آئین میں درج قرآن و سنت کے احکامات کو فوقیت دینے والے اصول کو سامنے رکھتے ہوئے وفاقی شریعت عدالت فیصلہ دے رہی ہے اور دوسری جانب ریاست کا مرکزی بینک اور ایک شیڈول بینک اس فیصلے کو چیلنج بھی کر رہا ہے۔
یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ دو ٹوک الفاظ میں اپنے شہریوں پر یہ واضح کرے کہ مالیاتی سسٹم کو کس ڈھب پر چلانا ہے تاکہ لوگوں کو کسی اگر مگر کے بغیر پتا ہو کہ ملک کو کس طرف لے جایا جا رہا ہے۔ وفاقی شریعت عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل سلمان اکرم راجہ نے دائر کی۔ جس میں عدالت عظمیٰ سے درخواست کی ہے کہ وفاقی شریعت عدالت کے فیصلے میں سپریم کورٹ ریمانڈ آرڈر کے احکامات کو مدنظر نہیں رکھا گیا لہٰذا فیصلے میں اٹھائے گئے نکات کی حد تک ترمیم کی جائے۔
مذہبی جماعتوں اور اسلام پسندوں کو مایوسی ہوئی ہے۔ کلمہ طیبہ کے نام پر حاصل کیے گئے ملک میں سود کے خلاف فیصلے کو چیلنج کرنے کے عمل کو مذہبی حلقوں نے پسند نہیں کیا ہے۔ بہرحال عجیب اتفاق ہے کہ جب 1992میں وفاقی شریعت عدالت نے سود کے خلاف فیصلہ دیا تھا اس وقت نواز شریف کی حکومت تھی' اس وقت بھی حکومت نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔ آج جب دوبارہ وفاقی شریعت عدالت نے سود کے خاتمے کا فیصلہ دیا ہے تو ملک میں نواز شریف کے بھائی شہباز شریف کی حکومت ہے اور حکومتی اداروں نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔
پہلے بھی علمائے کرام اور مذہبی جماعتوں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی تھی اور آج بھی صرف دینی جماعتوں نے آواز اٹھائی، علمائے کرام ہی اس اقدام کے خلاف ہمیں اسمبلی کے فلور اور اسمبلی سے باہر توانا آواز اٹھائے دکھائی دے رہے ہیں اس بات کے ہم منتظر تھے کہ پاکستان کی دوسری سیاسی جماعتیں بھی وفاقی شریعت عدالت کے فیصلے کے حق میں آواز اٹھائیں گی مگر افسوس کہ یہ اعزاز ایک بار پھر صرف دینی جماعتوں خصوصاً جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی کے حصے میں آیا۔
جمعیت علمائے اسلام نے حکمرانوں کو جھنجھوڑا اور محض اتحادی ہونے کے ناطے شیخ الہند کے نام لیوا خاموش نہیں رہے۔ اربابِ اقتدار کا یہ طرز عمل کوئی نیا نہیں بلکہ حکومتی سطح پر ہر دور میں سودی قوانین کو تحفظ فراہم کرنے کی پالیسی اختیار کی گئی ہے ، حالانکہ تمام مکاتب فکر کے علماء کرام اس بات پر متفق ہیں کہ سود مکمل طور پر حرام ہے جب کہ وفاقی شریعت عدالت اور سپریم کورٹ آف پاکستان بھی اس سلسلہ میں واضح فیصلہ دے چکی ہیں لیکن ہمارے حکمران طبقات ان وفاقی شریعت اور عدالتی فیصلوں کے باوجود روایتی بینکاری اور مالیاتی قوانین کے تسلسل کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔
اس بار الحمدللہ میرے رب نے بطل حریت حضرت مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ کے پوتے اور امام العلماء حضرت مولانا فضل الرحمان کے فرزند ارجمند مولانا اسد محمود کا انتخاب کیا ہے۔ انھوں نے وفاقی شریعت عدالت کے فیصلے کو چیلنج کرنے کے اقدام کو آڑے ہاتھوں لیا اور دو ٹوک انداز میں کہا ہے کہ حکومت ان اپیلوں کو واپس لے۔ مولانا اسد محمود کی پارلیمنٹ میں تقریر مذہبی طبقے کے جذبات کی حقیقی ترجمانی تھی۔ اسی طرح مولانا فضل الرحمٰن نے اس حساس معاملے پر وزیر اعظم میاں شہباز شریف سے ملاقات کی اور انھیں معاملے کی حساسیت سے آگاہ کیا جس پر وزیر اعظم نے انھیں یقین دلایا کہ حکومت یہ اپیل واپس لے لے گی۔
اس وقت ساری دنیا بلا سود بینکاری کے نظام کی جانب بڑھ رہی ہے، چاہے کوئی مسلمان ہے یا غیر مسلم، سبھی سود سے نجات چاہتے ہیں۔ پاکستان میں بھی بلاسود بینکاری کا نظام چل رہا ہے، حالانکہ بہت سے علماء کے اس پر بھی تحفظات ہیں لیکن سود سے نجات کے لیے اسے ایک قدم قرار دیا جاسکتا ہے۔ پاکستان چونکہ اسلامی ملک ہے یہاں کی حکومت کو تو فوری طور پر سود کے خاتمے کا اعلان کرکے بلاسود بینکاری کی جانب بڑھنا چاہیے تھا۔ ہمارے پاس مفتی تقی عثمانی جیسے جید علماء موجود ہیں جو اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی کرنے کو تیار ہیں۔
موجودہ صورتحال میں سوشل میڈیا کے ہر صارف کا حق بنتا ہے کہ وہ انسداد سود کے حوالے سے اپنی آواز بلند کرے، لکھ سکتے ہیں تو لکھیں، بول سکتے ہیں تو بولیں، ہر صورت اس مہم کا حصہ بن کر اپنا حق ادا کریں۔