آئی ایم ایف کا شکنجہ ضمنی انتخابات اور محترمہ مریم نواز
آئی ایم ایف نے تاحال پاکستان کو ایک ارب ڈالر کا قرضہ عطا نہیں فرمایا
وزیر اعظم جناب شہباز شریف کی اتحادی حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت پٹرول، ڈیزل اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ تو کر دیا ہے لیکن آئی ایم ایف نے تاحال پاکستان کو ایک ارب ڈالر کا قرضہ عطا نہیں فرمایا۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل، روز بیان دیتے ہیں کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو رہا ہے لیکن یہ معاہدہ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ اِس کے ملکی معیشت پر شدید منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔
مہنگائی نے عوام کا مزید بھرکس نکال دیا ہے۔ ایسے میں سابق وزیر اعظم ، جناب عمران خان، اور اُن کے حواریوں اور ہمنواؤں کو موجودہ اتحادی حکومت کے خلاف عوام کو بھڑکانے اور مشتعل کرنے کے بھرپور مواقع دستیاب ہو رہے ہیں۔ خان صاحب ان مواقع کو بھرپور اسلوب میں بروئے کار بھی لا رہے ہیں اور عوام کو باور کروا رہے ہیں کہ ''امپورٹڈ'' حکومت مہنگائی کنٹرول کرنے اور عوام کو ریلیف دینے میں ناکام بھی ہو چکی ہے اور اپنی ''نااہلی'' بھی ثابت کر چکی ہے۔
خانصاحب اس ناکامی کا ''نیوٹرلز'' کو بھی برابر کا ذمے دار قرار دے رہے ہیں۔ خان صاحب کا غصہ اور بیانیہ قابلِ فہم ہے۔ حیرانی کی بات مگر یہ ہے کہ جناب شہباز شریف کی اتحادی حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ باقاعدہ معاہدہ نہیں کرپا رہی جس کی وجہ سے عوام کو کوئی بڑا ریلیف دینا مشکل ہے ۔
اوپر سے17جولائی کو پنجاب میں 20 حلقوں کے ضمنی انتخابات نون لیگی سینئر قیادت اور وزیر اعلیٰ پنجاب ، حمزہ شہباز، کے سروں پر تلوار کی طرح لٹک رہے ہیں ۔ سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے تحت 22جولائی کو وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کا پھر سے انتخاب ہونا ہے ۔ وزیر اعلیٰ کے انتخابِ نَو میں 20نشستوں کے ضمنی انتخابات مرکزی کردار ادا کریں گے۔
پنجاب کے ان ضمنی انتخابات میں اکثریتی فتح حاصل کرنے کے لیے حکمران جماعت اور اپوزیشن کا پورا زور لگ رہا ہے۔ فریقین کی جانب سے، ایک دوسرے پر، الزامات اور دشنامات کی بارش بھی ہو رہی ہے۔ مہنگائی میں جو ہوشربا اضافہ ہُوا ہے، ایسے میں پنجاب کے ضمنی انتخابات میں ن لیگ کے لیے ووٹروں کو کیسے اور کیونکر قائل اور مائل کیا جا سکے گا؟ جملہ نون لیگی قائدین خود کو مشکلات اور عوامی تنقیدات میں گھرا ہُوا محسوس کرہے ہیں۔
نون لیگی قیادت عوام کو باور کروانے کی سعی کررہی ہے کہ آئی ایم ایف کا شکنجہ ہم توڑنے میں اس لیے بھی ابھی تک ناکام ہیں کہ آئی ایم ایف پاکستان پر اعتبار کرنے پر تیار نہیں اور اس سزا کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خان صاحب کی حکومت نے آئی ایم ایف سے عہد شکنی کی تھی ۔
اِس سزا کا برملا اعتراف وزیر اعظم شہباز بھی کررہے ہیں، وزیر خزانہ بھی، وزیر داخلہ بھی اور نون لیگ کی نائب صدر محترمہ مریم نواز شریف بھی۔ رانا ثناء اللہ خان کہتے ہیں: ''ایک ارب ڈالر قرض کے لیے آئی ایم ایف ہمیں تگنی کا ناچ نچا رہا ہے۔'' ایسے بیانات کے پیش منظر میں عوام سوچتے ہیں کہ آیا یہ ہے ایٹمی اسلامی جمہوریہ پاکستان کی خود مختاری؟اِسی ضمنی میں محترمہ مریم نواز یوں کہتی سنائی دیتی ہیں: ''عمران خان کی وجہ سے آئی ایم ایف حکومت پر اعتبار نہیں کررہا اور حکومت سے ناک کی لکیریں نکلوا رہا ہے۔''مفتاح اسماعیل کہہ رہے ہیں: ''آئی ایم ایف کا پروگرام آگے بڑھ رہا ہے۔ موخر اور معطل نہیں ہُوا۔'' اپنی شدید ناکامیوں اور نااہلیوں کو چھپانے کے لیے ایک دوسرے پر الزام تھوپنے میں عمران خان اور شہباز شریف کی حکومت کا کوئی ثانی نہیں ہے۔
عوام پِس رہے ہیں۔ مہنگائی چنگھاڑ رہی ہے۔ بجلی ، گیس اور پٹرول و ڈیزل کے قیامت خیز نرخ غریب پاکستانی طبقات کا نرخرہ کاٹ رہے ہیں اور حزبِ اختلاف و حزبِ اقتدار ایک دوسرے پر الزامات اور نااہلیوں کا طومار باندھ رہے ہیں۔ خان صاحب کہتے ہیں:موجودہ حکومت آئی ایم ایف کا شکنجہ توڑنے میں اس لیے ناکام ہو رہی ہے کیونکہ یہ حکومت ہے ہی ''غیروں'' کی !!
کمر توڑ مہنگائی ، قیامت خیز بے روزگاری اور پنجاب میں20نشستوں پر ضمنی انتخابات کی اِس گرما گرمی میں کچھ آڈیو لیکس کا بھی غلغلہ ہے۔ ان مبینہ آڈیو لیکس نے عمران خان کے کرپشن اور ''نیوٹرلز'' کے خلاف بیانئے کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ تازہ ترین آڈیو لیکس عین اُس روز منصہ شہود پر آئی جس روز (2جولائی) جناب عمران خان اسلام آباد کی پریڈ گراؤنڈ میں حکومت اور ''نیوٹرلز'' پر یکساں طور پر دھاڑ رہے تھے۔
حیرانی کی بات مگر یہ ہے کہ خان صاحب نے ہنوز ان آڈیو لیکس کی تردید نہیں کی ہے ۔ اس کے دو ہی مطالب ہیں: (۱) اِن مبینہ آڈیو لیکس کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے (۲) یہ کہ عمران خان کو یقینِ کامل ہے کہ اُن کے چاہنے والے اُن کی پاکبازی اور دیانتداری پر اندھا یقین رکھتے ہیں اور ایسی آڈیو لیکس اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ ایسے میں بے پناہ یقین کے ساتھ عمران خان یہ بھی کہتے سنائی دیتے ہیں: ''17جولائی کو پنجاب کے ضمنی انتخابات میں امپائر اگرچہ''امپورٹڈ'' حکومت کے ساتھ ہیں لیکن ہم نے پھر بھی انھیں شکست دینی ہے ۔''
عمران خان براہِ راست کسی کا نام لے کر محض اشاروں کنایوں اور خود ساختہ اصطلاح کی زبان میں اپنے حریفوں کو مطعون کرنے اور عوام تک اپنا پیغام پہنچانے کی بھرپور اور مسلسل کوشش کررہے ہیں ؛چنانچہ شیخ رشید احمد ایسے عشاق متاثر ہو کر کہتے ہیں: '' ضمنی انتخابات میں ہم نون لیگ کو لاہور کے لکشمی چوک میں دفن کر دیں گے''۔ کس قدر بلند خواب ہے!!خان صاحب نے پنجاب کے 20حلقوں میں 16جلسے کرنے کا شیڈول بھی جاری کر دیا ہے۔ میدان گرم ہو رہا ہے ۔
اپوزیشن کی اِس یلغار اور عمران خان کی حکومت مخالف مسلسل للکار کے اثرات زائل کرنے کے لیے نون لیگ اور اتحادی حکومت اپنے ''نسخے'' آزما رہی ہے، جب کہ پاکستان کے چیف الیکشن کمشنر متنبہ کر رہے ہیں کہ '' ضمنی انتخابات میں حکومت کی جانب سے کسی قسم کی ضابطے کی خلاف ورزی برداشت نہیں کریں گے۔'' ایسے میں وزیر داخلہ کھل کر کہہ رہے ہیں کہ 17جولائی کو ہم 17سیٹیں جیتیں گے۔ ضمنی انتخابات جیتنے کے لیے وزیر اعظم، شہباز شریف ، نے نون لیگی قائدین کی الگ الگ ڈیوٹیاں لگا دی ہیں۔ محترمہ مریم نواز شریف کو نون لیگی اُمیدواروں کے لیے مرکزی انتخابی مہم چلانے کا فریضہ سونپا گیا ہے۔
لاہور میں رواں ہفتے محترمہ مریم نواز نے نون لیگی اُمیدوار کے حق میں تین چار زبردست جلسے کیے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ محترمہ مریم نواز ہی نون لیگ کی واحد ایسی شخصیت ہیں جو ضمنی انتخابات میں نون لیگ کے لیے بہترین کمپین کرکے نون لیگ کو فتح سے ہمکنار کر سکتی ہیں۔ عمران خان کی حکومت کے دوران ضمنی انتخابات میں نون لیگی اُمیدواروں کو کامیاب کروانے میں بھی مریم نواز صاحبہ کی کمپین نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔