مصباح الیون تھر کے بچے اور دہشت گرد حاکم
مصباح الیون کومبارک ہوکہ وہ ایشیاکپ کافائنل ہارکربھی نہیں ہاری۔قوم اپنی کرکٹ ٹیم کی انڈیاکےخلاف جیت پرہی خوش ہے۔
مصباح الیون کو مبارک ہو کہ وہ ایشیا کپ کا فائنل ہار کر بھی نہیں ہاری۔ قوم اپنی کرکٹ ٹیم کی انڈیا کے خلاف جیت پر ہی خوش ہے۔ اس ایک جیت نے کرکٹرز کو تنقید سے بھی بچا لیا۔ روایتی حریف سے جیتنے میں جو مزہ ہے وہ یقینا ایشیا کپ جیتنے میں نہیں تھا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ فائنل میں ہم جن غلطیوں کی وجہ سے ہارے انھیں یکسر نظرانداز کر دیا جائے۔ مصباح الحق نے ٹاس جیت کر خود کھیلنے کا فیصلہ کیا تو ہم آدھا میچ ہار گئے تھے۔ کپتان کے ذہن میں یہ خوف موجود تھا کہ ٹارگٹ کا تعاقب کرنا پڑا تو کہیں بیٹسمینوں کے ہاتھ پاؤں نہ پھول جائیں۔
آپ کو یاد ہو گا کہ ٹورنامنٹ کے افتتاحی میچ میں سری لنکا نے پہلے کھیل کر ہمیں 297 رنز کا ٹارگٹ دیا تھا اور عمر اکمل کے بچگانہ شاٹ کی وجہ سے ہم وہ میچ ہار گئے لیکن دونوں ٹیموں میں اسکور کا فرق صرف 12 کا تھا۔ افغانستان جیسی کمزور ٹیم کے خلاف ہم پہلے کھیلے تھے اور عمر اکمل اس میچ میں سنچری نہ کرتے تو ہم ہار بھی سکتے تھے کیونکہ صرف 117 رنز پر ہمارے 6 کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے۔ اس کے بعد انڈیا اور بنگلہ دیش کے خلاف ہم ٹارگٹ چیز کر کے جیتے۔ ان دونوں میچوں کے ہیرو شاہد آفریدی تھے جنہوں نے ناممکن کو ممکن بنایا۔ جو ٹیم دو بار ٹارگٹ کے حصول میں کامیاب ہو چکی تھی اسے ٹاس جیت کر پہلے کھیلنا چاہیے تھا؟
پاکستان اور سری لنکا کے افتتاحی میچ کے سوا پورے ٹورنامنٹ میں بڑی ٹیموں کے درمیان جتنے بھی مقابلے ہوئے سب کا نتیجہ بعد میں کھیلنے والی ٹیم کے حق میں رہا۔ فائنل میں فواد عالم کی سنچری' مصباح اور عمر اکمل کی ففٹیوں کی وجہ سے ہم 260 کے فائٹنگ ٹوٹل تک پہنچ گئے تھے لیکن مصباح اور فواد ضرورت سے زیادہ سست کھیلے اور ہم وننگ ٹوٹل تک نہیں پہنچ سکے۔ ہماری فیلڈنگ تو خراب تھی ہی کپتانی بھی ٹھیک نہیں رہی۔ میری سمجھ سے باہر ہے کہ جنید خان کو نئی گیند سے بولنگ کیوں نہیں کرائی گئی۔ وہ نئی گیند سے اٹیک کر کے دو تین وکٹیں نکالنے کا اہل ہے۔ عمر گل کی بولنگ میں پہلے جیسی کاٹ نظر نہیں آرہی۔ محمد طلحہ کو ابھی انٹرنیشنل کرکٹ کا ٹمپرامنٹ پیدا کرنا ہو گا۔ مجھے لگتا ہے ہماری ٹیم کے پاس جیت کا کوئی پلان ہی نہیں تھا؟
جیت کا پلان کیا کھیل کے میدان میں ہی نہیں ہوتا؟ ہم سرے سے اس صلاحیت سے محروم ہیں۔ پلان سے میرا دھیان تھرپارکر میں ہونے والے موت کے کھیل کی طرف چلا گیا ہے۔ وہاں چند دن میں 128 سے زاید بچے کیسے موت کے منہ میں چلے گئے؟ اس کی صرف ایک وجہ ہے کہ اس ملک اور اس کے صوبوں کی حکومتوں کے پاس کوئی پلان نہیں ہے۔ صحرا میں رہنے والے یہ لوگ غریب ہیں' بے آسرا ہیں۔ حکومتی ایوانوں سے میلوں کے فاصلے پر ہونے کی وجہ سے ان کے دکھ درد کا کسی کو احساس ہی نہیں ہو سکتا۔ تھر کے باسی ہر تین چار سال بعد اس عذاب سے گزرتے ہیں۔ اس بار بھی اب تک بیسیوں بچے بھوک سے مر چکے ہیں' ابھی کتنے ہی موت کے منہ میں جانے کو تیار ہیں۔ قحط زدہ تھر میں خوراک ہے نہ دوائیں۔ ایکسپریس نیوز کی ٹیم نے سب سے پہلے مٹھی اور اس کے آس پاس کے دیہات میں جا کر حقائق دنیا کو دکھائے تو ہمارے حکمرانوں کو بھی ہوش آ گیا۔ اب ہر طرف سے امداد کے اعلانات ہو رہے ہیں۔ ریلیف آپریشن شروع ہو گیا ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ اپنی ٹیم کے ساتھ مٹھی تک گئے اور میڈیا رپورٹس کے مطابق دوپہر کے کھانے میں انھیں جو کچھ پیش کیا گیا تھر کے لوگ خواب میں بھی نہیں کھا سکتے۔ قحط صرف تھر میں نہیں ہے اس ملک کے غریبوں کی اکثریت روزانہ اس کا سامنا کرتی ہے۔ غربت اور بھوک روزانہ کئی جانیں لیتی ہے لیکن جب تک میڈیا کی نظر ان پر نہیں پڑتی حکمران ٹھنڈائی پی کر سوئے رہتے ہیں۔ ان کی نیند ایک عام آدمی کی زندگی سے زیادہ اہم ہوتی ہے۔ سندھ حکومت کے ثقافتی میلے پر اربوں روپے کے اخراجات پر بھی بہت تنقید ہو رہی ہے۔ مجھے اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ معاشرے میں جتنی گھٹن ہے اس طرح کے میلے سجتے رہنے چاہئیں لیکن یہ انسانی جانوں سے زیادہ اہم نہیں ہیں۔ ایک طرف تھر کے بچے بھوک اور بقول شرجیل میمن سردی سے مر رہے تھے اور دوسری طرف ثقافت کا رقص ہو رہا تھا۔
انسانی لاشوں پر رقص قابل مذمت ہے۔ تھر کے لوگوں کے لیے دہشت گردوں اور حکمرانوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ دہشت گردی کی کارروائیوں میں لوگ مرتے ہیں تو حکمرانوں کی بے بسی بھی انھیں زندگی کی قید سے آزاد کرا دیتی ہے۔ تھر کے بے بس لوگ اپنے مرنے والے بچوں کو واپس نہیں لاسکتے۔ ان کے مال مویشی کا نقصان بھی پورا نہیں ہو سکتا لیکن وہ تسلی رکھیں وزیر اعلیٰ سندھ کے بعد وزیر اعظم پاکستان بھی ان کے دکھ درد میں شریک ہونے کے لیے پہنچے ہیں۔ وزیر اعظم اپنا ہیلی کاپٹر بھی ان کے امدادی کاموں کے لیے وقف کر چکے ہیں۔ قائم علی شاہ نے ہر مرنے والے بچے کی قیمت دو لاکھ روپے مقرر کی ہے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ نے وزیر اعظم کے ایک سوال پر یہ اعتراف بھی کر لیا ہے کہ اتنا بڑا انسانی ضیاع صوبائی حکومت کی غفلت کی وجہ سے ہوا۔
حکمران طبقے سے شکوہ بے کار ہے۔ اس ملک کے با اثر افراد اپنے بچوں کو بیرون ملک تعلیم یا بزنس کے لیے بھجوا چکے ہیں۔ ان کے اپنے پاسپورٹوں پر بڑے ملکوں کے ویزے لگے ہوئے ہیں۔ انھیں جب محسوس ہوا حالات حد سے زیادہ خراب ہو گئے ہیں تو وہ کسی ایئر لائین کا ٹکٹ خریدیں گے اور اپنا بیگ پیک کر کے یہ ملک ہمیشہ کے لیے چھوڑ جائیں گے۔ غریبوں کے بچوں کو کھانے میں کچھ نہ ملے اور وہ بھوک سے مر جائیں تو اس سے ان ''بڑوں'' کی صحت پر کیا اثر پڑتا ہے۔ وہ ہر سانحے کے بعد فوٹو شیشن کرا کے امداد کا اعلان کر کے اپنا فرض پورا کر دیں گے۔
تھر والے مرنے والے بچوں کو دفنا چکے۔ وہ بچے جو ابھی موت کے پنجوں سے آزاد ہیں انھیں بچانے کی کوششیں شروع ہو چکی ہیں۔ چند دن اور یہ ہنگامہ رہے گا۔ پھر وہی صحرا ہو گا، وہی بھوک ہو گی۔ تین چا رسال یونہی گزر جائیں گے۔ پھر قحط پڑے گا، پھر ہنگامہ کھڑا ہو گا۔ پھر کوئی وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم امداد لے کر پہنچے گا۔ میڈیا بھی اس وقفے کے دوران دیگر ایشوز پر کھیلے گا۔ تب تک کیوں نہ یہ قصہ دفن کر دیا جائے۔ آئیں! بھوک سے مرنے والے بچوں کی طرح اس ایشو کو بھی دفن کر دیتے ہیں۔