عید قرباں اور معیشت

اسلام نے ہمیں دو تہوار ایسے شاندار عطا کیے ہیں کہ جس سے معیشت کو بھی زبردست فروغ حاصل ہوتا ہے



اب عیدالاضحی کے موقع پر ملک بھر میں لاکھوں بچھڑے، بکرے، اونٹ، گائے وغیرہ کی قربانی دی جائے گی۔ عید الفطر کے بعد سے ہی ڈی فریزر وغیرہ کی فروخت میں بے حد اضافہ ہو جاتا ہے۔ فریج، ڈی فریزر کا کاروبار کرنے والوں کا کہنا ہے کہ بقر عید کے 10 روز تو روزانہ رات گئے تک اور چاند رات کو تو صبح 5 بجے تک ڈی فریزر کی فروخت جاری رہتی ہے۔

لوگ گائے، بکرے خریدنے سے قبل ہی بڑے پیمانے پر اس کا گوشت محفوظ کرنے کی خاطر اضافی فریزر خریدتے ہیں اور پوری گائے کا گوشت سری پائے سمیت، سالم بکرے کا گوشت بنا کر رکھتے ہیں۔ رانیں الگ کرلی جاتی ہیں کہ سجی بنائی جائے گی۔ یوں قربانی کا پورا گوشت ان ڈی فریزرز میں غائب کردیا جاتا ہے۔ آہ بے چارے وہ غریب مسکین، سفید پوش غریب بچوں کو چربی و ہڈی سے بھرپور گوشت کے چند ٹکڑوں پر ہی ٹرخا دیا جاتا ہے۔

جی ہاں البتہ ان متمول افراد یا سرکاری افسران یا کسی رشتے دار سے کوئی غرض ہو تو اسے گوشت یا ران بھجوا دی جاتی ہے۔ حالانکہ شریعت کا حکم ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کرلیے جائیں ایک حصہ غریبوں، محتاجوں، ضرورت مندوں کا دوسرا حصہ عزیز و اقارب کا اور تیسرا حصہ اپنے استعمال کے لیے۔ اب بات یہ ہے کہ اگر ان احکامات پر عملدرآمد کیا جاتا تو اضافی ڈی فریزرز خریدنے رکھنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔

اس مبارک دن کے موقع پر یہ دیکھا گیا کہ سفید پوش افراد زیادہ محروم رہ جاتے ہیں کیونکہ وہ کہیں مانگنے نہیں جاتے، اپنا حال کسی پر ظاہر بھی نہیں کرتے۔ شہری علاقوں میں تو پڑوسی کو پڑوسی کی خبر ہی نہیں ہوتی۔

لہٰذا اس موقع پر ایسے افراد کی زیادہ خبر گیری کی ضرورت ہوتی ہے اور غریبوں مسکینوں ضرورت مندوں کو ان کا حصہ دیا جائے اور صاحب خانہ اپنے بچوں کو اس بات کی تعلیم دیں کہ غریبوں مسکینوں محتاجوں اور غریب رشتے داروں کا حصہ ہوتا ہے۔ بصورت دیگر آیندہ دو تین عشروں کے بعد قربانی اس لیے کئی افراد کر رہے ہوں گے کہ گوشت ڈی فریزر میں بھر لیں اور 3 یا 4 ماہ کے لیے گوشت خریدنے کی چھٹی ہو جائے گی۔

اسلام نے ہمیں دو تہوار ایسے شاندار عطا کیے ہیں کہ جس سے معیشت کو بھی زبردست فروغ حاصل ہوتا ہے۔ عید قرباں کی بات کرلیں تو ملک بھر کے کروڑوں افراد گائے، بیل، بچھڑے، بکرے، دنبے وغیرہ کی پرورش، ان کی دیکھ بھال میں جڑ جاتے ہیں ان کی اکثریت کی نظریں اس بات پر لگی ہوتی ہیں کہ عیدالاضحی کے موقع پر وہ قربانی کا جانور فروخت کرلیں گے اور معقول رقم حاصل کرلیں گے۔

اس طرح دیسی معیشت کو بہت فروغ حاصل ہوتا ہے ، لیکن اب بڑے بڑے گروپس تجارتی ادارے آسٹریلین نسل یا دیگر اعلیٰ نسل کے گائے، بیل کی پرورش ان کی نشو ونما پر لاکھوں روپے خرچ کرکے 10/20 لاکھ روپے سے بھی کہیں زائد پر فروخت کرکے لاکھوں روپے منافع کما رہے ہیں۔

یہ اب بہت بڑا کاروبار بن چکا ہے۔ اس کے بعد ملک بھر سے 70 یا 80 لاکھ کھالیں مارکیٹ میں پہنچا دی جاتی ہیں۔ بہت سے مذہبی دینی اور فلاحی ادارے قربانی کی کھالیں جمع کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ فلاحی ادارے جو نام کے ہوتے ہیں کچھ رقم عوام کی فلاح کے لیے خرچ کرتے ہیں اور زیادہ رقم اپنی فلاح و بہبود پر ہی خرچ کردیتے ہیں۔ ملک بھر میں لاکھوں افراد موسمی قصائیوں کا روپ دھار لیتے ہیں۔

شہری علاقوں میں ایک بکرے کا دو سے تین ہزار روپے اور گائے بیل کے 15 سے 20 ہزار روپے لے کر جیسے تیسے جلد ازجلد ایک جگہ کام نمٹایا دوسری جگہ چل دیے۔ اس طرح ان کی جیب میں اچھی خاصی رقم پہنچ جاتی ہے۔

اس کے علاوہ اس موقع پر قربانی کے جانوروں کو سجانے کا سامان فروخت کرنے والوں، چارہ فروخت کرنے والوں، ویٹرنری ڈاکٹرز کی فیس بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہوتی ہیں۔ پھر بغدے، مڈی، چاقو، چھریاں، چٹائیاں، ٹوکریاں وغیرہ کا کام کرنے والوں کی آمدن بھی بڑھتی ہے۔ اس کے علاوہ قربانی کے جانوروں کی دیکھ بھال حفاظت کا انتظام کرنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔

ایک خالی پلاٹ پر یہ بینر لگا دیکھا کہ اس پلاٹ پر قربانی کے جانوروں کو حفاظت سے رکھنے کا انتظام ہے۔ فی بچھڑا ڈھائی ہزار روپے اور فی بکرا ڈیڑھ ہزار روپے فیس ہوگی۔

بہرحال عید قرباں کے موقع پر بہت سے شعبے ایسے کھل جاتے ہیں جن کے ذریعے غریبوں کی آمدن بڑھتی ہے۔ جانوروں کی پرورش سے لے کر قصائی تک اور پھر کھال تک اور اس کے بعد لیدر انڈسٹری فروغ پاتی ہے۔

یوں لاکھوں افراد چند ہفتوں کے لیے روزگار سے جڑ کر معقول آمدن حاصل کرلیتے ہیں اور پھر یہ ساری رقم معیشت کے مختلف شعبوں میں مختلف مصنوعات کی خریداری پر خرچ ہو کر معیشت کا وہ پہیہ جو جام ہو چکا ہوتا ہے اسے حرکت ملتی ہے اور پورے عالم اسلام اور وہ ممالک جہاں مسلمان آباد ہیں ان تمام کی معیشت کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مبارک دن کے موقع پر شریعت کے احکامات کو مد نظر رکھا جائے تو تمام برکات حاصل ہو کر معیشت کو بے حد فروغ حاصل ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔