’’چور اور لٹیرے‘‘

سوشل میڈیا پر ان کے لوگوں سازش اورغداری کے ٹرینڈز بناکر ادھم مچایا


جاوید قاضی July 10, 2022
[email protected]

MOSCOW: ہماری سیاست ایک نئی سمت پر چل نکلی ہے۔ کل جو ہم نے پال پوس کے بڑے کیے، پھر سیاسی میدان میں اتارے جب وہ مخصوص نتائج دینے میں ناکام رہے، حالات اور خراب ہونے لگے اور جب وہ ایک آئینی مروج طریقہ کار کے تحت برخاست ہوئے، تو انھوں نے غیرآئینی اور غیرجمہوری کام کرنے میںکوئی کسر نہ چھوڑی ، اسٹیبلشمنٹ تو اپنی جگہ خود ریاست کے مفادات کی بھی پرواہ نہ کی۔

سوشل میڈیا پر ان کے لوگوں سازش اورغداری کے ٹرینڈز بناکر ادھم مچایا، انھوں نے لندن کے چوراہوں پر جوکچھ کیا ، مدینہ منورہ میں مسجد نبوی میں جو رمضان کے آخری دنوں میں عمرے کے لیے وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ جو وفد گیا تھا، ان پر حملہ کرنا۔ پھر یوں بھی ہوا کہ چند سرکاری مراعات یافتہ سابق فوجی افسران بھی ریڈ لائن کراس کرتے نظر آئے۔ ان سب کے پاس جو بنیاد تھی وہ یہ تھی کہ ملک کو اب چور اور لٹیروں کے حوالے کردیا گیا ہے لیکن وہ جو فرح گوگی نے کمال دکھائے وہ کیا تھا؟

جب جنرل ضیا الحق نے اقتدار پر قبضہ کیا ، تو انھوں نے ریاست کے مال پر پلنے والے امراء و شرفاء ایک نیا کلب بنایا، اسی طرح سیاستدانوں اور علماء کا بھی نیا کلب بنایا۔ ان میں مذہبی نما پارٹیاں بھی تھیں، ان کی لاٹری لگ گئی۔ خود میاں صاحب بھی نمودار ہوئے، عمران خان کی سیاسی پرورش بھی اسی دور میں شروع کردی گئی تھی ۔ بات صرف ایک تھی، بس جنرل ضیا الحق اورانتہاپسندی بیانئے کی اطاعت کرو۔ شاید یہ کام بلوچ قوم پرست سرداراس طرح نہیں کرسکے جس طرح ہمارے سندھی قوم پرستوں نے بھٹو دشمنی میں گیا حالانکہ بھٹو نے بلوچ قوم پرست سرداروں کے ساتھ بھی کوئی اچھا سلوک نہیں کیا تھا، مگر وہ کھلے عام اس طرح حمام میں نہیں نہائے تھے۔

جنرل ضیاء الحق سے پہلے جنرل ایوب نے بھی ریاست کے مال پر پلنے والا امراء و شرفا کا ایک کلب بنایا تھا،فرق صرف اتنا تھا کہ اسے مغربی کلچر کا ٹچ دیا گیا تھا، متحدہ پاکستان میں بنگالیوں نے اس ایوبی کلب کلچر کو اپنے اندر جذب نہیں ہونے دیا مگر پنجاب میں لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد، صوبہ سرحد کے وہ شرفاء جو ریاست کے ملازم تھے اور سرکاری مال ہڑپ کرکے امیر بنے تھے، سندھ کے وڈیروں اور بلوچ سرداروں میں یہ شرفا کلب اپنی جگہ بنانے میں کامیاب رہا ، اس لیے کہ مٹی زرخیز تھی۔ وہ جو سردار جعفر جمالی تھے، جنھوں نے ہمت کر کے فاطمہ جناح کے ساتھ کھڑے ہونے کی جرات کی تھی ان سے تو جنرل ایوب نے لینڈ ریفارمز کے ذریعے ہزاروں ایکڑ زمین ریاست کے نام پر واپس لے لی کہ صرف سردار جعفر جمالی کو ہی بھگتنا پڑا۔ مجھے حاصل بزنجو بتایا کرتے تھے کہ پھر جعفر جمالی نے پورے خاندان اور باقی ماندہ جمالی برادری کے معززین کا جرگہ بلایا اور سب نے حلف لیا کہ یہ کام ملک میں جمہوریت کی حمایت کرنا اور آمریت کے خلاف جدوجہد کرنا ، ہم سردار لوگ کر ہی نہیں سکتے۔ اس لیے آیندہ یہ کام ہم نہیں کریں گے۔

بہت ہی محترم ہیں ، میرے لیے غلام مصطفی جتوئی ، ان کے والد ، میرے والد کے سگے بھائیوں کی طرح تھے اور یہ بات غلام مصطفیٰ جتوئی خود مجھے بتایا کرتے تھے مگر جتوئی صاحب سے یہ توقع کرنا کہ وہ بھٹو صاحب کے اس وقت شانہ بشانہ کھڑے ہوں جب وہ کال کوٹھڑی میں موت کے پروانے کے منتظر تھے، وہ ممکن نہیں تھا۔ کم از کم وہ ممتاز بھٹو اور حفیظ پیر زادہ سے زیادہ کھڑے ہوئے ، جنرل ضیاء الحق کے خلاف ایم آر ڈی تحریک کی رہبری کی جب بے نظیر اور نصرت بھٹو جلا وطن تھیں۔ مجھے الٰہی بخش سومرو نے خود بتایا کہ کس طرح جنرل ضیاء الحق نے سی ڈی اے کے چیئرمین کو ہدایات دیں کہ انھیں ایف سیکٹر میں پلاٹ دیا جائے۔

یہ انگریزسرکاری کے تخلیق کردہ رائے بہادر، خان بہادر، نواب ، تمندار، قبائلی ملک و مشران، سفید پوش یہ سب ٹائٹل ہولڈرکیا کرتے تھے، یہ لوگ انگریز کی اطاعت کرتے تھے، اس کے صلے میں ان کو ہزاروں ایکڑ زمینیں انعام کردیں اور سرکاری عہدے دیے جاتے تھے ۔ انگریزوں نے مسلمانوں میں اس طرح ایک بہت بڑا شرفا کلب بنایا۔ ایوب خان اور ضیاء الحق نے اس کلب کے ارکان میں اضافہ کیا ۔

مجھے مخدوم امین فہیم نے کہا کہ کتنا بڑا نقصان ہوا جب ہم نے 1986 غیر جماعتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا ، ایک خلا پیدا ہوا اور جنرل ضیا الحق نے ایک نئے شرفا کلب کو جنم دیا اور یہ بھی ہوا کہ جب بے نظیر بھٹو جلا وطنی گزار کر واپس آئیں 1988 کے انتخابات میں تو پیر پگاڑا سے لیکر جتوئی صاحب تک بڑے بڑے نام اپنے عام سے کارکنوں کے ہاتھوں ہروا کے دکھائے مگر پھر بینظیر بھٹو نے سمجھوتہ کرکے اقتدار لیا ، اسکے بغیر چارہ نہ تھا۔ اسلم بیگ کے گھر میں نے ان کا انٹرویوکیا تو انھوں نے بتایا ، اس گھر میں محترمہ آئی تھیں اور وہ شرائط لیے ہوئے، جس کے تحت خارجہ پالیسی ضیا الحق کے دور کے تسلسل میں رہی۔ اسحاق خان نے بینظیر کو دو سال میں فارغ کیا۔ نواز شریف جو ان کا اپنا تھا اس کو اس لیے فارغ کیا کہ وہ ان کی بالادستی نہیں مان رہا تھا۔ یہاں سے پھر شروع ہوتا ہے پنجاب کا جمہوریت کے لیے سفر۔

کل تک یہ پنجاب جو بھٹو کے ساتھ تھا ، ان کو اب پنجابی رہبر مل گیا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ تو باقی صوبوں سے لیڈران کو سنبھالنا آتا تھا ، مگر یہ کام وہ پنجاب میں نہیں کر سکتے تھے اور اب خان صاحب سامنے آگئے ہیں ، وہ بھی پنجاب سے، کلچر کے اعتبار سے لاہوری اور لندنی مگر سوچ و فکر غیر پنجابی اور غیر انگریزی، شاید سوچ و فکر کے اسی انتشار نے انکی رخصتی کا راستہ بنایا ، اب وہ بھی کہتے پھرتے ہیں ، مجھے کیوں نکالا۔ یاد رہے کہ وہ جو سیاست کرتے ہیں ، اس میں اقتدار میں آنے کا طریقہ فقط ایک ہی ہے کہ اگر آپ کیساتھ اسٹیبلشمنٹ ہو اور اگر نہیں تو پھر آپ لاہور یا باقی بڑے شہروں میں جلسے تو کر سکتے ہیں، سوشل میڈیا میں طوفان تو برپا کرسکتے ہیں مگر اقتدار میں تب ہی آسکتے ہیں جب جہانگیر ترین کا جہاز آزاد حیثیت میں جیتے نمایندوں کو اپنے پرائیویٹ جہاز میں لے آئے۔

یہ جو ہماری سیاست میں '' چور اور لٹیرے '' والی اصطلاح آگئی ہے، اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کون کرے گا ان چوروں لٹیروں کا احتساب ؟ شہزاد اکبر یا نیب کے سابق چیئرمین؟ خود نیب کیا تھی اور کیا وہ نتائج دے سکی؟ہمارے شعور کے اندر کچھ مسئلہ ہے۔ ہم فرد واحد کو سمجھتے ہیں کہ وہ یہ کام کر جائے گا ؟ اس لیے ہم لیڈران کی طرف دیکھتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں آئین میں موجود خرابیوں ، انتظامی اور عدالتی نظام میں موجود خامیوںکی طرف دیکھنا چاہیے ، اختیارات میں تجاوز کو دیکھنا چاہیے ، جو جتنا بااختیار ہو، اس پر جوابدہی کا نظام اتنا ہی سخت اور غیرمبہم ہونا چاہیے۔ سربراہ ملک کا ہو یا فوج کا یا کورٹ کا وہ آئیں گے اور چلے جائیں گے، جب کہ ریاست اور ادارے مستقل ہوتے ہیں ، لیکن چونکہ ان سربراہان کا کوئی آڈٹ، کوئی احتساب نہیں ہوتا، ان کے گرد درباری لگ جاتے ہیں یہ نرگسیت پرست ہو جاتے ہیں اور پھر صرف ان چمچوں کے جھرمٹ میں ہی رہنا پسند کرتے ہیں ، یوں وہ ریاستی اداروں کوکمزورکرجاتے ہیں۔

مختصراً یہ کہ چور اور لٹیرے صرف سیاستدان نہیں ہیں۔ افسر شاہی بھی ہے، بلڈر مافیا بھی، ٹرانسپورٹ مافیا ، ڈرگ مافیا ، منشیات مافیا ، اسمگلرز، ٹیکس چوروں ، مذہب کے ٹھیکیدار اور جو ہم وکیل صاحبان ہیں، یہ بھی اسی کلب کے رکن بن چکے ہیں۔ وہ دن گئے جب وکلاء آمروں کے خلاف چلنے والی عوامی تحریکوں کا ہراولا دستہ ہوا کرتے تھے ۔ پاکستان کو برباد کیا ہے، ان شرفاء نے اور حیرانی کی بات ہے کہ یہ جو ہماری اربن سیاست ہے ، وہ بھی ان شرفا کی دم چھلا بنی ہوئی ہے، شہری سیاستدان طبقاتی شعور کو اجاگر کرنے کے بجائے پرانے نظام کو قائم رکھنے کے لیے کام کررہی ہیں لیکن اسٹیبلشمنٹ اور طبقہ امراء کو یہ بات تسلیم کرلینی چاہیے اب اس طرح ملک نہیں چل سکتا ۔ یہ کیسے ''چور لٹیرے '' سیاستدان ہیں کہ باوجود تمام تر پراپیگنڈا کے اس ملک کے ووٹر انھیں ہی ووٹ دیتے ہیں، مہربانی کرکے ووٹرز کے فیصلے کو تسلیم کرلیں، بس انتخابات شفاف ہوں ، یقین جانیے، یہی چور اور لٹیرے سیاستدان ہی آگے کی راہیں متعین کریں گے نہ کہ ان لوگوں سے جو اپنے آپ کو صادق اور امین سمجھتے ہیں، کورٹ سے ٹھپہ لگا کے آتے ہیں ، جن کے لیے اس ملک کا مال توشہ خانہ کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں