جنگلات کی آگ
ہمارے صوبے کے ’’جہانگیراعلی‘‘ معاف کیجیے وزیراعلیٰ نے کہا ہے کہ جنگلات ہماراقومی اثاثہ ہیں
PARIS:
ہمارے صوبے کے ''جہانگیراعلی'' معاف کیجیے وزیراعلیٰ نے کہا ہے کہ جنگلات ہماراقومی اثاثہ ہیں۔ ایک اوربات بھی کہی ہے لیکن فی الحال ذرا ''جہانگیراعلیٰ'' کی وجہ تسمیہ عرض ہے، جب ملک کومرد حق حضرت ضیاء الحق لاحق تھے توصوبے کو بھی ایک مرد حق جنرل فضل حق،لاحق ہوگئے،اس دورمیں ارباب جہانگیر بھی اے این پی چھوڑکرآئے تو وہ فضل حق کو لاحق ہو گئے، اورپھر ایک طویل عرصے تک وزیراعلیٰ ،اس تمام عرصے میں ظاہرہے کہ ان کا نام صوبے میں گونجتا رہا۔ ہمارے گائوں کے ایک سادہ لوح شخص نے نام کو عہدہ سمجھ کر اپنی زبان پر جہانگیراعلیٰ چڑھادیا،جب بھی وزیراعلیٰ کا ذکر کرتا، جہانگیر اعلیٰ کہتا، جائو تم کہاں کے جہانگیر اعلیٰ ہو، زیادہ جہانگیراعلیٰ بننے کی کوشش نہ کرو،تم کوئی جہانگیراعلیٰ کے بیٹے نہیں ہو ۔
ہمارے خیبر پختونخوا کے موجودہ وزیر اعلیٰ بھی تقریباً اپنے بیانات کے حوالے سے جہانگیراعلیٰ بن چکے ہیں کیوں کہ وہ روزانہ تقریباً چار بیانات تودیتے ہی دیتے ہیں بلکہ خود کیاکم ہیں کہ اپنے لیے بیرسٹر سیف بھی رکھ لیاجو ان کے بیانات کے اوپرایسے ایسے ''گرہے'' لگاتے ہیں کہ بیانات کو چارچاند لگ جاتے ہیں لیکن جس بیان کاذکر ہم کررہے ہیں،اس پر جناب بیرسٹرسیف کا بیان آیانہیں یا ہماری نظرسے نہیں گزرا۔
محترم جہانگیراعلیٰ نے جنگلات کی آگ پر دو باتیں کہی ہیں،ایک یہ کہ جنگلات قومی اثاثہ ہیں، دوسری بات کاذکربعد میں کریں گے، فی الحال قوم کو اس خوشخبری پر ناچنے کے لیے کہنا ہے کہ جنگلات بھی ہمارا اثاثہ بن گئے ہیں۔
کیاخوش نصیب قوم ہے جس کے اثاتوں کا نہ کوئی اور ہے نہ چور۔سب سے بڑا اثاثہ تو اس خوش نصیب قوم کا، اس کے ''ملوک''ہیں۔
اثاثوں کے سلسلے میں ''اپنی قوم'' کو اتنی مالامال اور ''رچ''دکھ کر ایک حکایت یادآرہی ہے ،کسی جگہ ایک شخص بہت بڑی جائیداداوراثاثوں کامالک تھا، ہماری پاکستانی قوم کی طرح۔پھراسے جوئے اورعیاشی کی لت پڑ گئی اورسب کچھ'' فنا''کردیا،وہ خود تومردارہڈی تھا، اسے کچھ بھی نہیں ہوا لیکن اس کے مرنے کے بعد اس کابیٹا پاگل ہوگیا اوراپنی فناشدہ اثاثوں کے بارے میں ہانکنے لگا،جس جس کو اس کے باپ نے جائیدادبیچی تھی، ان کے پیچھے پڑگیا،ان لوگوں نے مذاق مذاق میں کہہ دیا کہ تمہاری جائیداد اس سامنے والے پہاڑ نے گھیر رکھی ہے، پھر وہ پہاڑ کے پیچھے پڑ گیا،روزجاتا تھا،پہاڑ کو برابھلاکہتا تھا اوراسے اپنی جائیداد چھوڑنے کاکہتا تھا، کبھی کبھی پہاڑ کے پتھر اٹھااٹھا کر اسے مارتاتھا کہ چلے جائو اورمیری جائیداد چھوڑدو۔ ایک دن ایک شریر آدمی نے پہاڑ میں چھپ کرآوازدی ، دیکھو! مجھ بیچارے پہاڑ کو پتھرمت مارو،میں جاناچاہتاہوں لیکن پیر نہ ہونے کے سبب کہیں جانہیں سکتالیکن سامنے والے دریانے بھی تو تمہاری زمین گھیررکھی ہے، اس سے کہووہ تو دریاہے، کہیں بھی جاسکتاہے۔ اس کے بعد وہ دریاکے پیچھے پڑگیا اورآخر کار دیوانگی میں اپنے اثاثوں کے پیچھے دریا پر حملہ آورہوگیااورڈوب گیا۔
ہم بھی اپنی قوم کے اثاثوں کا سن سن کر حیران ہیں کہ کس کس سے اپنے اثاثے مانگیں، یہ دریا،یہ پہاڑ یہ جنگلات یہ ریگستان یہ شاہراہیں اورساراملک ہی ہمارااثاثہ ہیں اورہم۔۔
اس حسن کے سچے موتی کو ہم دیکھ سکے پر چھونہ سکے
جسے دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں وہ دولت کیاوہ خزانہ کیا
خیراثاثوں کایہ مقدمہ تو ہمارازندگی کاروگ ہے، جہانگیراعلیٰ نے دوسری بات یہ کہی کہ جنگلات کو آگ دہشت گردوں نے لگائی اور وہ انھیں چھوڑیں گے نہیں، اگر پکڑلیے تو ؟
خدا لگتی کہیں تویہ بات کسی بھی طرح حلق سے نہیںاتررہی ہے، جنگلات تو دہشت گردوں کے ٹھکانے ہوتے ہیں، بھلاکوئی اپنے گھر کو بھی آگ لگاتاہے، اورپھر ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ آگ لگانے میں فائدہ کس کاہے۔وہی جوجنگلات کو کاٹ کاٹ ہڑپ کرچکے ہیں، اپنی چوریاں چھپانے کے لیے ثبوت مٹانا ان کے لیے ضروری ہے، اب جلنے کے بعد کس کوپتہ کہ کتنے درخت جلے اورکتنے اس سے پہلے غائب ہوچکے ہیں۔
ایسی آگ ایک مرتبہ پشاور میں بھی لگی تھی اورایک شخص نے اپنی خالی دکان کو بھی لگائی تھی، انشورنس کی رقم حاصل کرنے کے لیے۔
اب دیکھتے ہیں کہ جہانگیراعلیٰ کے جہانگیراعلیٰ جناب بیرسٹرسیف کیافرماتے ہیں، بیچ اس مسلے کے۔