کتب و رسائل

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کوئز جناب ذکی احمد ذکی کی تصنیف و تالیف ہے


Naseem Anjum July 12, 2022
[email protected]

اللہ اللہ کرکے گرمی کا زور ٹوٹا اور ابر باد و باراں ٹوٹ کر برسا، مالی و جسمانی نقصانات بھی ہوئے لیکن اس کے ساتھ ہی جی داروں کے دل کا موسم شاد ہوا۔

لوگ پکنک منانے، موسم کو انجوائے کرنے ساحل سمندر اور دوسری تفریح گاہوں پر پہنچے، ایک طرف اللہ کا کرم تو دوسری طرف حکومت کا ستم، ملکی حالات نازک موڑ پر آگئے ہیں۔ اس موضوع کو فی الحال اس لیے موخر کیے دیتے ہیں کہ بہت سی کتابیں اور رسائل میری توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔

ماہنامہ ''اطراف'' سہ ماہی ''انشا''، سہ ماہی ''بیلاگ''، ماہنامہ ''نیرنگ خیال'' یہ تمام کم وسائل کے باوجود پابندی سے شایع ہو رہے ہیں، ماہنامہ ''اطراف'' سیاسی اور معاشرتی حالات کا آئینہ دار ہے، جب کہ دوسرے پرچے مکمل طور پر شعر و ادب، تنقید و تحقیق پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ''نیرنگ ِ خیال'' کے مدیر سلطان رشک ہیں جو نامساعد حالات اور اپنی بیماری کے باوجود علم و ادب سے جڑے ہوئے ہیں اسی وجہ سے ''نیرنگ خیال'' ہر ماہ پابندی سے نکالتے ہیں۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کوئز جناب ذکی احمد ذکی کی تصنیف و تالیف ہے ۔ ''شعور کی دستک'' آمنہ عالم کا دوسرا شعری مجموعہ ہے، ''آئینہ جہاں'' اور فکر انسانی کا ارتقا اور مسلمان'' سید اقبال احمد کی تصنیفات ہیں۔ ''پریوں کی کہانی'' ناول ہے مصنف شاہ نواز اجنبی ہیں۔ انھوں نے انسانوں کے ایک دوسرے پر جبر و قہر، تشدد اور جنسی جرائم کی بہت موثر انداز میں عکاسی کی ہے۔ کردار مربوط اور کہانی رواں دواں ہے۔

''انشا'' کے مدیر اور بانی پروفیسر صفدر علی خان ہیں اس گرانی کے سخت ترین دور میں 29 سال سے رسالہ شایع کر رہے ہیں، یقینا یہ بڑا جان جوکھوں کا کام ہے۔ ملکی حالات اور سانحات نے ہر محب وطن کو غم زدہ کردیا ہے، اس حوالے سے ''انشا'' کا اداریہ بھی قارئین کی توجہ مبذول کراتا ہے۔

صفدر علی انشا نے نہایت درد مندی کے ساتھ خامہ فرسائی کرکے حق کا ساتھ دیا، کہتے ہیں کہ: ''تبدیلی کا نعرہ لگانے والے کو خود تبدیلی کا سامنا کرنا پڑا اور یہ اتنا اچانک ہوا کہ اس نے انصاف کے لیے جو در کھٹکھٹایا جواب ''نا'' میں آیا، پاکستان اپنے بننے سے لے کر آج تک دشمنوں کی نظر میں کھٹکتا رہا ہے اور دشمن بھی وار پر وار کیے جا رہا ہے۔ اصل مسئلہ اس غریب عوام کا ہے جو پچھتر سال سے اسی امید پر زندہ ہیںکہ شاید کوئی غیبی مدد آجائے، جس ملک کو جاپان جیسا ترقی یافتہ اور خوش حال ہونا چاہیے تھا وہ امداد اور بھیک کے سہارے چل رہا ہے۔ غالب کا یہ شعر بھی مضمون کی مناسبت سے درج ہے:

ہم نے چاہا تھا، حاکم سے کریں گے فریاد
وہ بھی کم بخت تیرا چاہنے والا نکلا

سہ ماہی ''انشا'' کے تمام مضامین، افسانے اور شاعری قابل تحسین ہے۔ پروفیسر محمد صابر کا مضمون شان الحق حقی پر عالمانہ و محققانہ روشنی ڈالتا ہے۔ایم فل اسکالر فرزانہ کوثر نے راقم کے ناول ''نرک'' کا بھرپور طریقے سے جائزہ لیا ہے۔

بہت خوبصورت اور معنی آفرینی سے مرصع ڈاکٹر صدف تبسم کی نظم قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے، ''انشا'' میں شامل تبصرے، خطوط اور حصہ غزلیات اور دوسری تحریریں ادب و شعر و سخن سے روشناس کرانے کا ذریعہ ہیں۔سہ ماہی ''بیلاگ'' کے مدیر اعلیٰ پروفیسر عزیز جبران انصاری پابندی کے ساتھ جرائد شایع کر رہے ہیں تازہ شمارے میں 144 صفحات شامل ہیں۔ ''بیلاگ'' کا ہر صفحہ علم و ادب کا ترجمان ہے۔

''بیلاگ'' کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس بار ابتدائیہ حالات حاضرہ ہے جو منظوم لکھا گیا ہے، ہو سکتا ہے اس سے قبل بھی شاعری کی شکل میں سامنے آیا ہو، جو میرے علم میں نہیں، کمال اداریہ ہے 2 جنوری 2022 سے 18 مارچ تک کے ذاتی اور سیاسی حالات کو اس طرح درج کیا ہے جیسے تسبیح میں دانے پرو دیے ہوں۔اختر سعیدی کی تخلیق کردہ نعت سے نبیؐ کی محبت سے مہکتے ہوئے اشعار:

ہوئی ان کے در تک دعا کی رسائی
گلوں تک ہو جیسے صبا کی رسائی

نہیں ہے کسی بھی نبیؐ کو میسر
جہاں تک خیرالوریٰ کی رسائی

بنامِ نبیؐ میں نام روشن کیا ہے
دیے تک نہیں ہے ہوا کی رسائی

پہلا حصہ گلدستہ حمد باری تعالیٰ اور دوسرا گلدستہ نعت رسول مقبولؐ۔ دوسرے حصے میں مضامین، افسانے اور فکاہیے، تیسرے میں رنگ سخن، منظومات اور ''جہانِ کتب'' جس میں تبصرے اور آخری حصہ خطوط پر مشتمل ہے۔ ممتاز شاعر ابن عظیم فاطمی کے دو مضامین بعنوان پروفیسر ہارون الرشید اور افسانہ و ناول نگار، پبلشر اے خیام کے سانحہ ارتحال پر شامل ہیں، سرفراز شاہد ''اک چراغ اور بجھا'' ڈاکٹر غلام شبیر رانا کی تحریر ہے انھوں نے شاہد مرحوم کی ادبی خدمات پر مکمل طور پر محاکمہ کیا ہے۔افسانہ نگار محمد طارق علی کی تحریر کا خاصہ یہ ہے کہ وہ بہت سی تحریروں میں اپنی علیحدہ شناخت رکھتے ہیں۔

''ریس کورس والی'' ان کا بہت اچھا افسانہ ہے۔حال ہی میں شایع ہونے والی اہم کتاب ''ڈاکٹر عبدالقدیر خان کوئز'' شایع ہوئی ہے۔ کتاب کے مولف ذکی احمد ذکی نے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی زندگی پر سوال و جواب کی شکل میں مکمل معلومات فراہم کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ ذکی احمد ذکی کی بہترین کاوش ہے۔ تہنیتی اشعار بھی مختلف شعرا کے شامل ہیں ان شعرا کرام نے ان کے کارناموں، ان کی قدر و منزلت پر شاعری کی شکل میں نذرانہ عقیدت و محبت پیش کیا ہے۔

''فکر انسانی کا ارتقا اور مسلمان'' بھی ان کی اہم کتاب ہے، اس کے بارے میں حیات رضوی امروہوی نے مصنف کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے ''یہ کتاب بڑی تحقیق، محنت اور طویل مطالعہ، مشاہدے اور تجزیوں کے بعد لکھی گئی ہے، تمام قدیم مفکرین سے لے کر دور حاضر کے مفکرین کے چیدہ چیدہ اور اہم نکات اس کتاب میں پیش کردیے گئے ہیں۔

سید اقبال احمد نے اپنے مضمون ''حرف آغاز''میں مسلمانوں کی زبوں حالی اور مسلمانوں کے جذبہ ایمانی اور صلیبی جنگوں کی اہمیت کو بیان کیا ہے۔ علامہ محمد اسد کی کتاب (Road to Macca) کا بھی حوالہ دیا ہے۔ مصنف نے لکھا ہے پوری مسلم دنیا آج جس خلفشار اور زبوں حالی سے دوچار ہے، اس سے ہر مسلمان مضطرب اور پریشان ہے، جنرل گلب پاشا کی کتاب "The lost Centuries" کے بارے میں آگاہی ملتی ہے۔

جنرل گلب پاشا نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ''یورپ میں تاریخ کے جس دور کو عہد تاریک کہا جاتا ہے وہ اسلامی دنیا کا عہد تاریک نہیں تھا بلکہ اس وقت اسلامی دنیا اپنے تہذیبی ارتقا کے عروج پر تھی، اصل میں یورپی مورخین نے مسلمانوں کے اس پورے روشن عہد کو دنیا کی تاریخ ہی سے غائب کردیا۔'' اس کتاب میں مسلمانوں کے علمی اور فنی، معاشرتی عروج کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔

فکر انسانی کا ارتقا میں خاص موضوعات پر بحث کی گئی ہے جو شعور کو جلا بخشتی ہے۔ سید اقبال احمد کی دوسری کتاب ''آئینہ جہاں'' دیکھتا جا شرماتا جا، سفرنامہ ہے۔ مصنف نے جن خاص خطوں کا سفر کیا ہے ان میں استنبول، شکاگو، دبئی اور دوسری کئی جگہیں شامل ہیں۔ تحریر میں سادگی اور شگفتگی عیاں ہے بہت موثر انداز میں سفر کا احوال بیان کیا ہے۔ کتاب کا قاری بہت سی معلومات حاصل کرسکتا ہے۔

''شعور کی دستک'' آمنہ عالم کی شعری تصنیف ہے۔ آمنہ عالم کی شاعری کے بارے میں ظفر محمد خان ظفر لکھتے ہیں ''کوئٹہ میں آنکھ کھولنے والی شاعرہ خوش شکل بھی ہے اور خوش مزاج بھی، خوش کلام اور خوش فکر بھی، وہ علم عروض یعنی فن شاعری اور رموز شاعری سے بخوبی آشنا ہے۔''

متذکرہ مجموعے کی خاصیت یہ ہے کہ حصہ اول میں قرآنی آیات کی منظوم ترجمانی اور حمد و نعتؐ شامل ہیں حصہ دوم سائنسی کلام کا احاطہ کرتا ہے۔ حصہ سوم اور چہارم میں نظمیں، غزلیں، گیت اور منظوم خراج تحسین جو انھوں نے شخصیات اور کتب پر شاعری تخلیق کی تھی، سورہ فاتحہ کی منظوم ترجمانی سے ایک شعر:

تو اپنے نیک بندوں سی، ہمیں بھی خوش نصیبی دے
نہ کر ان سا کبھی، جن پر تیر اغضب و ملامت ہے

آمنہ عالم بہت اچھی شاعرہ ہیں، اللہ ان کی سوچ و وجدان میں مزید برکت عطا فرمائے ۔(آمین۔)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔