جی 20 کا اجلاس اور بھارت

پاکستانی وزارت خارجہ کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے


عثمان دموہی July 12, 2022
[email protected]

بھارتی آئین کی دھجیاں بکھیر کر مقبوضہ جموں کشمیر کو بھارت کا نام نہاد حصہ بنانے کے بعد اب مودی کے حوصلے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ اس نے جی 20 تنظیم کا اجلاس مقبوضہ کشمیر میں منعقد کرانے کے لیے کوششیں شروع کردی ہیں۔ پاکستان نے بھارت کی اس کوشش کی سختی سے مخالفت کی ہے۔

پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو امید ہے کہ جموں کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو مدنظر رکھتے ہوئے جی 20 تنظیم کے ارکان بھارت کی اس تجویز کو مسترد کردیں گے کیونکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ جموں کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک تسلیم شدہ متنازعہ خطہ ہے۔ بھارت نے 1947 سے اس متنازع خطے پر جبری اور غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے۔ یہ مسئلہ گزشتہ ستر دہائیوں سے سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود ہے۔

بھارت مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی مسلسل سنگین خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔ بھارتی افواج اگست 2019 سے اب تک سیکڑوں کشمیریوں کو قتل کرچکی ہیں۔ یہ تمام ماورائے عدالت قتال ہیں۔ عالمی انسانی حقوق کے اداروں نے مقبوضہ وادی میں بھارتی قتل عام کی تصدیق کی ہے۔

بھارت مختلف غیر قانونی حربوں کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کے آبادیاتی ڈھانچے کو بھی تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جی 20 ارکان کا اجلاس منعقد کرانے سے قبل بھارت متحدہ عرب امارات کو اس متنازع خطے میں سرمایہ کاری کرکے کچھ نئے کارخانے قائم کرنے کے لیے دعوت دے چکا ہے مگر ابھی تک اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔

متحدہ عرب امارات وہ واحد عرب ملک ہے جو بھارتی سوا ارب کی منڈی کی چکا چوند میں گم بھارت کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دے رہا ہے وہ تو بھارت کو اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کی رکنیت دلانے کے لیے بھی کافی کوشش کرچکا ہے۔ حالانکہ او آئی سی کے تمام ہی ممالک جموں کشمیر کو ایک متنازع علاقہ تسلیم کرتے ہیں اور وہ وہاں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری کرانے کے حق میں ہیں۔

وہ پاکستان کے کشمیر پر موقف کو بھی تسلیم کرتے ہیں اور کشمیری مسلمانوں کی پاکستان میں شمولیت کی خواہش کو عملی شکل دینے کے لیے اقوام متحدہ سے مطالبہ بھی کرتے رہتے ہیں۔ اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر جب بھی اٹھایا جاتا ہے وہ کشمیر کی بھرپور حمایت کرتے ہیں ان ممالک میں ترکیہ اور ملائیشیا کا کردار سب سے نمایاں ہے۔

ترکیہ کے صدر رجب اردگان اور ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم مہاتیر محمد تو اقوام متحدہ کے گزشتہ اجلاس میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے زبردست وکالت بھی کرچکے ہیں۔ ان مسلم ممالک کے برعکس متحدہ عرب امارات کی حکومت مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دے چکی ہے مگر موجودہ قیادت سے قبل متحدہ عرب امارات کے سابق حکمران جموں کشمیر کو واضح طور پر ایک متنازع خطہ قرار دیتے تھے۔ مودی کی پوری کوشش ہے کہ متحدہ عرب امارات مقبوضہ وادی میں سرمایہ کاری کرے تاکہ وہ پاکستان سے اپنی طاقت اور کسی کو شیشے میں اتارنے کے اپنے فن کی صلاحیت کا لوہا منوا سکے۔

تاہم اس وقت بھارت میں پیغمبر اسلامؐ کی حرمت کے خلاف سرکاری رہنمائی میں اٹھنے والے فتنے نے تمام عرب ممالک کو بھی ہلا دیا ہے اور وہ مودی کی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت سے خوب واقف ہو چکے ہیں۔

مودی کی اس نفرت انگیز مہم کے خلاف تمام ہی عرب ممالک نے بھارت کے خلاف بیانات دیے ہیں ان ممالک میں کویت، قطر اور سعودی عرب بہت نمایاں ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں نے بھی بھارت کے خلاف بیان ریکارڈ کرائے ہیں اور مودی سے اس سلسلے میں معافی مانگنے کا مطالبہ بھی کیا ہے مگر مودی اپنی ڈھٹائی سے باز نہیں آیا اور اس نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

عرب ممالک نے مودی کی اس ڈھٹائی کا ضرور نوٹس لیا ہوگا۔ کویت اور قطر میں اس ضمن میں کافی ہلچل رہی ہے۔ کویت کی پارلیمان میں بھارت کے خلاف قرارداد بھی پاس کی گئی ساتھ ہی وہاں کام کرنے والے بھارتیوں کو بھی ملک بدر کرنے پر سوچ بچار ہو رہا ہے۔

قطر نے تو باقاعدہ اپنے ہاں کام کرنے والے بھارتیوں کو نوکری سے نکالنے اور انھیں بھارت بھیجنے کی دھمکی بھی دی تھی اور لگتا ہے مستقبل قریب میں اس پر عمل بھی کیا جائے گا۔ متحدہ عرب امارات کی شاہی خواتین نے بھارت سے سخت نفرت کا اظہار کیا تھا۔ انھوں نے مودی کے خلاف کئی ٹویٹس بھی کیے تھے۔

اب جہاں تک جی 20 ممالک کا تعلق ہے ان میں زیادہ تر بھارت کے مداح ہیں وہ بھارتی مارکیٹ سے چونکہ فائدہ اٹھا رہے ہیں اور اپنی مصنوعات بھارت کو فروخت کر رہے ہیں ،چنانچہ ان کا جی 20 کا اجلاس منعقد کرنے کے سلسلے میں بھارت کے حق میں رویہ ہوگا؟ خاص طور پر فرانس سے تو کسی طرح بھی امید نہیں رکھی جاسکتی کہ وہ پاکستانی موقف سے اتفاق کرے گا۔ فرانس کے صدر اور برطانوی وزیر اعظم کا رجحان بھارت کی جانب ہے وہ پاکستان کو بھارت کے مقابلے میں کم اہمیت دیتے ہیں۔

دراصل بھارت فرانس سے نہ صرف جنگی جہاز بڑی تعداد میں خرید رہا ہے بلکہ اس کی آبدوزوں کو بھی خریدنے کا آرڈر دے چکا ہے۔ ادھر برطانیہ میں بورس جانسن شروع سے ہی مودی سے متاثر رہے اور وہ اس کے مسلم مخالف رویے پر خاموش رہے۔

ان کے علاوہ دیگر جی 20 کے ارکان پاکستان اور بھارت کے درمیان معتدل رویہ رکھتے ہیں۔ البتہ امریکا جموں کشمیر کو اب بھی ایک متنازع خطہ قرار دیتا ہے اور وہ کشمیریوں کی خواہش کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل نکالنے کا بھی حامی ہے۔ چنانچہ اگر اس نے مقبوضہ وادی میں جی 20 ارکان کا اجلاس منعقد کرنے کی بھارتی کوشش کو رد کردیا تو پھر دیگر ممالک بھی مودی کی تجویز کو رد کردیں گے اور یوں مودی کو منہ کی کھانا پڑے گی۔

اس ضمن میں پاکستانی وزارت خارجہ کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اسے سفارتی سطح پر مودی کی تجویز کو ناکام بنانے کے لیے سینہ سپر ہونا ہوگا۔ اس وقت بھارت کے امریکا کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں کیونکہ بھارت نے پھر روس کو اپنا آقا تسلیم کرلیا ہے۔ امریکا بھارت کے روس سے تیل گیس اور کوئلہ خریدنے کے سخت خلاف ہے۔ چند دن قبل اس نے بھارت میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف ایک سخت مگر حقیقت پسندانہ رپورٹ جاری کی تھی جس کا مودی نے بہت برا منایا تھا مگر مودی امریکا کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، البتہ امریکا اگر چاہے تو اسے بہت نقصان پہنچا سکتا ہے۔

چنانچہ پاکستان بھارت اور امریکا کے درمیان اس چپقلش سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ پاکستان چونکہ اب امریکی کیمپ میں واپس آ چکا ہے چنانچہ پاکستان کی درخواست پر وہ جموں کشمیر میں جی 20 ارکان کے اجلاس کو روک سکتا ہے، پھر بھی اگر ہماری سفارت کاری جان دار رہی تو مودی اپنے مذموم عزائم میں ضرور ناکام ہوگا اور اسے آج نہیں تو کل کشمیریوں کو ضرور ان کا حق دینا ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں