ساحر‘ مزاحمتی سے فلمی شاعری تک آخری حصہ
ساحر نے بے شمار فلموں میں گیت لکھے اور اس کا لکھا ہوا ہر گیت لاجواب اور بے مثال گیت کہلایا
ساحر لدھیانوی اور موسیقار خیام کے ملاپ سے فلم ''پھر صبح ہوگی'' کے گیتوں نے ایک دھوم مچا دی تھی اور فلم نے بے مثال کامیابی حاصل کی تھی۔ اس فلم کے سارے گیت ہٹ تھے اور فلم کا تھیم سانگ تو بہت ہی جان دار تھا اور ہٹ ہوا تھا۔
وہ صبح کبھی تو آئے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
ان کالی صدیوں کے سر سے
جب رات کا آنچل ڈھلکے گا
جب دکھ کے بادل پگھلیں گے
جب سکھ کا ساگر چھلکے گا
جب امبر جھوم کے ناچے گا
جب دھرتی نغمے گائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
اس گیت کو مکیش نے گایا تھا اور یہ راج کپور اور مالا سہنا پر عکس بند کیا گیا تھا۔ اس فلم نے باکس آفس پر ایک ریکارڈ قائم کیا تھا۔ اس فلم کے بعد ساحر لدھیانوی نے پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا تھا اور پھر ہر بڑا فلم ساز و ہدایت کار ساحر لدھیانوی کے گیتوں کا گلدستہ چاہتا تھا۔
ساحر لدھیانوی کے فلمی گیتوں نے فلمی دنیا کو ایک نئی تازگی اور نغمگی کے ساتھ ادبی خوشبو بھی بخشی تھی۔ پھر ساحر لدھیانوی نے ایک اور فلم ''دھول کا پھول'' کے لیے گیت لکھے تھے اور اس فلم کے ایک گیت نے سارے ہندوستان میں ایک عجب فضا پیدا کردی تھی، یہ بڑے غضب کا گیت تھا جس کے بول تھے۔
تو ہندو بنے گا نہ مسلمان بنے گا
انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا
یہ انسانیت کا ایسا پیغام تھا جس نے دلوں میں ایک عجیب سی ہلچل مچا دی تھی، اس گیت کو محمد رفیع نے گا کر امر کردیا تھا، اس فلم کے موسیقار این دتہ تھے، فلم کے ہدایت کار یش چوپڑا تھے۔ ساحر لدھیانوی مذہب کی تفریق کو پسند نہیں کرتا تھا۔ ساحر لدھیانوی کے گیتوں نے فلمی دنیا میں ایک نئی تاریخ رقم کی تھی۔
ساحر لدھیانوی نے فلمی دنیا میں شہزادے کی طرح زندگی گزاری تھی، اس کو فلمی حلقوں میں پرنس کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ ساحر لدھیانوی نے فلم ساز شاہد لطیف کی فلم ''سونے کی چڑیا'' میں ایک منفرد انداز کا گیت لکھا تھا جو فلم کی ہائی لائٹ تھا، جس کے بول تھے۔
پیار پر بس تو نہیں ہے میرا لیکن پھر بھی
تو بتا دے کہ تجھے پیار کروں یا نہ کروں
میری اجڑی ہوئی نیندوں کے شبستانوں میں
تو کسی خواب کے پیکر کی طرح آئی ہے
کبھی اپنی سی کبھی غیر نظر آئی ہے
کبھی اخلاص کی مورت کبھی ہرجائی ہے
تو بتا دے کہ تجھے پیار کروں یا نہ کروں
ساحر نے بے شمار فلموں میں گیت لکھے اور اس کا لکھا ہوا ہر گیت لاجواب اور بے مثال گیت کہلایا۔ اب میں فلموں کا تذکرہ کیے بغیر صرف ساحر لدھیانوی کے کچھ مقبول ترین گیتوں کے مکھڑے ہی قارئین کی نذر کرتا ہوں، یہ وہ گیت ہیں جو لاکھوں دلوں میں خوشبو کی طرح بسے ہوئے ہیں۔
تقدیر سے بگڑی ہوئی تقدیر بنا لے
اپنے پہ بھروسہ ہے تو اک داؤ لگا لے
...٭...
جائیں تو جائیں کہاں
سمجھے گا کون یہاں
...٭...
ہم آپ کی آنکھوں میں اس دل کو بسا دیں تو
ہم موند کے پلکوں کو اس دل کو سزا دیں تو
آج کی رات پیا دل نہ توڑو
من کی بات پیا مان لو
ساحرلدھیانوی کو بالی وڈ کا سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے شاعر کا درجہ حاصل ہے جو شاید اب تک برقرار ہے۔ ان کے لکھے گیتوں میں غنایت اور آہنگ لا جواب تھا' اس وجہ سے ان کے گیت خاص و عام میں آج تک مقبول چلے آ رہے ہیںاور لوگ انھیںآج بھی بڑے شوق سے سنتے ہیں۔
یہ رات یہ چاندنی پھر کہاں
سن جا دل کی داستاں
...٭...
تری دنیا میں جینے سے
تو بہتر ہے کہ مر جائیں
...٭...
وقت نے کیا کیا حسیں ستم
تم رہے نہ تم ہم رہے نہ ہم
...٭...
چلو اک بار پھر سے
اجنبی بن جائیں ہم دونوں
...٭...
ساتھی ہاتھ بڑھانا
ایک اکیلا تھک جائے گا
مل کر بوجھ اٹھانا
...٭...
میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی
مجھ کو راتوں کی سیاہی کے سوا کچھ نہ ملا
...٭...
ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر
کہ دل ابھی بھرا نہیں
...٭...
چلو اک با رپھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
...٭...
زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات
...٭...
کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے
کہ جیسے تجھ کو بنایا گیا ہے میرے لیے
...٭...
میں پل دو پل کا شاعر ہوں
پل دو پل مری کہانی ہے
میں یہاں ساحر لدھیانوی کے کن کن گیتوں کا تذکرہ کروں، گیت ہیں آبشار کی صورت احساس کے آنگن میں برستے جا رہے ہیں۔ ساحر لدھیانوی نے فلمی دنیا کے ہر لیجنڈ موسیقار کیساتھ گیت لکھے اور ہر گیت کو زبردست مقبولیت حاصل ہوئی، سب سے زیادہ گیت نگار کے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا، نیشنل ایوارڈ کے علاوہ بے شمار دیگر ایوارڈز بھی حاصل کیے، شہرت، دولت، عزت و وقار سب کچھ ساحر لدھیانوی کے پاس تھا، مگر ایک کمی یہ رہی کہ اس نے زندگی بھر شادی نہیں کی، کسی کو بھی اپنی شریک حیات نہیں بنایا، پنجابی زبان کی ممتاز شاعرہ امرتا پریتم سے محبت کی، مگر اسے بھی زندگی کا ساتھی نہ بنا سکا، پھر اس نے دل برداشتہ ہو کر شادی کرلی تھی، مگر وہ زندگی بھر ساحر لدھیانوی کی محبت میں گرفتار رہی۔ ساحر لدھیانوی آخری دنوں میں انتہائی تنہائی پسند ہو گیا تھا۔
ماں کی موت کے بعد وہ زندگی کی رونقوں سے دور ہوتا چلا گیا تھا، اور پھر تنہائی کے اندھیرے اس کی زندگی کی روشنی کو کھا گئے تھے۔ وہ 25 اکتوبر 1980 کی ایک صبح اپنے کمرے میں موت کو گلے لگا چکا تھا اور اس طرح اس کی زندگی کا روشن باب بند ہو گیا تھا۔ اللہ اس کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے ۔(آمین)