سیاحت پر توجہ دیں اور اربوں ڈالر کمائیں

پاکستان نے ایک سال میں صرف 35کروڑ ڈالر کمائے


[email protected]

SEOUL/WASHINGTON: دنیا بھر میں کورونا وباء کے خاتمے کے بعد سیاحت میں تیزی آئی،مگرپاکستان میں سیاحت ریکارڈ کم ہوئی ہے۔حتیٰ کہ عید الاضحیٰ پر بھی لوگ شمالی علاقاجات کی طرف نہیں نکلے اور نہ ہی شہروں میں تفریحی سرگرمیاں دیکھنے میں آئیں جو گزشتہ برسوں میں دیکھنے میں آتی رہیں تھی ، وجہ! تفریحی ذرایع کا کم ہونا ، اگر کہیں ہیں بھی وہاں سہولیات کا فقدان، مہنگائی اور عوام کی عدم دلچسپی! اس سال امریکا نے سیاحت سے 210ارب ڈالر کمائے، اسپین نے 68ارب ڈالر، فرانس نے 61ارب ڈالر، تھائی لینڈ نے 58ارب ڈالر، برطانیہ نے 52ارب ڈالر، اٹلی نے 45ارب ڈالر، آسٹریلیا نے42ارب ڈالر، جرمنی نے 40، جاپان نے 35، چین نے 33ارب ، انڈیا نے 29ارب اور ترکی نے ایک سال میں سیاحت سے 24ارب ڈالر کمائے۔

جب کہ اس فہرست میں پاکستان نے ایک سال میں صرف 35کروڑ ڈالر کمائے۔ یقین مانیں! اگر ہم سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیں تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان بہت بڑا زرمبادلہ کما سکتا ہے، مگر ہماری قسمت ایسی کہاں کہ ہم بھی اپنے سیاحتی، تاریخی اور خوبصورت مقامات کو ''بیچ'' سکیں، سیاحوں کی دلچسپی پیدا کرنے کے لیے سہولیات فراہم کرسکیں۔

ہم نے کبھی غور ہی نہیں کیا کہ سیاحوں کو کیا کیا چیزیں راغب کرتی ہیں، حالانکہ آپ اُن ممالک کو اسٹڈی کریں جہاں سب سے زیادہ سیاح آتے ہیں۔ اور پھر سیّاحوں کو جو چیزیں اپنی جانب کھینچتی ہیں ان میں قدرتی حسین مناظر، تاریخی عمارتیں اور علاقے، نایاب اشیا، قدیم روایتی تہوار، مذہبی اور روحانی مقامات اور نامورشخصیات کی آخری آرام گاہیں اور کسی حد تک مشہور پسندیدہ شخصیات سے وابستہ علاقوں کی سیر وغیرہ شامل ہیں۔خوش قسمتی سے پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جو دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی جانب کھینچنے کے وہ سارے لوازمات رکھتا ہے جن کا ذکر ابھی کیا گیا ہے۔لیکن یہاں حالات پہلے سے زیادہ خراب ہو رہے ہیں۔

پاکستان ٹورزم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن کے اتنے شاندار اور خوبصورت ہوٹلز غیر فعال کیوں ہیں؟ دنیا سیاحت سے اربوں ڈالر کما رہی ہے اور ہمارا حال یہ ہے کہ ہم سے پی ٹی ڈی سی کے چند ہوٹلز نہیں چلائے جا سکے اور ہم نے انھیں بھوت بنگلہ بنا دیا ہے۔ یہاں جب کوئی حکومت فیصلہ کرتی ہے تو اس فیصلے کو درست اور غلط کی بنیاد پر نہیں پرکھا جاتا، بلکہ اسے عصبیت کی بنیاد پر دیکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کسی جماعت نے اپنے اقتدار میں کوئی غلط فیصلہ کیا ہو اور اس پر اسی جماعت کے کارکنان اور رہنماؤں کی جانب سے بامعنی تنقید ہوئی ہو۔تنقید صرف دوسرں کے لیے ہوتی ہے جن کی آنکھ کا تنکا بھی شہتیر نظر آتا ہے۔ اقتدار کی سیاست سے لپٹا یہ ایک ایسا المیہ ہے جس نے ہمارے اخلاقی وجود کو لاغر کر دیا ہے۔

یوں لگتا ہے خلق خدا سیاحت کو نہیں نکلی ، فطرت سے انتقام لینے نکلی ہے۔ آپ سیاحت کو نکلیں ، فیملی کے لیے راستے میں کہیں کوئی ٹائلٹ نہیں ملے گا۔ مرد حضرات تو جہاں چاہیں غلاظت پھیلانے بیٹھ جائیں گے لیکن اس معاشرے نے ابھی یہ شعور پیدا نہیں کیا کہ ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے مسائل کو بھی سمجھ سکے۔ گلیات کی طرح سڑک کنارے فیملی ٹائلٹس بنائے جا سکتے ہیں،اگر سیاحت کا شعور ہو۔شعور کا مگر یہ عالم ہے کہ اوباشوں کی ٹولیاں پھر رہی ہوتی ہیں اور سرراہ اونچی آواز میں میوزک لگا کر جھومنا شروع کر دیتی ہیں۔

کوئی اعتراض کرے تو صوبائیت اور لسانیت خطرے میں پڑ جاتی ہے کہ ہمارے کلچر پر اعتراض کیوں کیا جا رہا ہے۔کلچر سب کا قابل احترام ہے لیکن کلچر کا یہ مطلب تو نہیں ہوتا کہ موقع مقام دیکھے بغیر بے ہنگم انداز سے جھومنا شروع کر دیا جائے۔ تنگ ، تاریک اور گندے ہوٹلز ، نہ حسن تعمیر ہے نہ کوئی ذوق اور نفاست۔ بس مرغیوں کے لیے ڈربے بنا دیے گئے ہیں۔ سیاحتی مقامات ہیں اور لوگوں سے بھرے پڑے ہیں لیکن معلوم ہوتا ہے بستی میں صرف ایک اے ٹی ایم ہے۔جس کے باہر درجنوں لوگ سارا دن لائن میں لگے رہتے ہیں۔کھانا مہنگا مگر ایسا بد ذائقہ کہ الامان، کھا کر آپ ہضم کر جائیں تو آپ کی قسمت۔بظاہر اچھے ہوٹلوں میں بھی بستر وں میں سے بو آتی ہے۔ بندہ کس کس مسئلے کو روئے۔

ایسے میں یہ پی ٹی ڈی سی کے ہوٹل تھے ،جو فیملیوں کی پناہ گاہ تھے۔ صاف ستھرا شاندار ماحول اور بہترین کھانا۔پی ٹی ڈی سی ناران کا ہو ، بالاکوٹ کا ہو ، مالم جبہ کا ہو ، سکردو کا ہو یا ایوبیہ کا ، یہ سب عالم میں انتخاب تھے۔یہ ایسے گوشہ عافیت تھے جن میں داخل ہوتے ہیں سفر کی تھکاوٹ دور ہو جاتی تھی۔بستر صاف ، عملہ خوش اخلاق ، کھانا بہترین ، برتن دھلے ہوئے ، ماحول میں سکینت۔ افسوس ایک حکومت نے انھیں اجاڑ دیا دوسری انھیں آباد کرنے کے بجائے رہن رکھنے جا رہی ہے۔

حالانکہ دیکھا جائے تو دنیا میں جتنے بھی سیاح دوسرے ملکوں کا رخ کرتے ہیں وہ سب سے پہلے سرکاری رہائش گاہوں، ہوٹلوں کا انتخاب کرتے ہیں، کیونکہ بین الاقوامی قوانین کے تحت سیاح کی حفاظت بھی ریاست کی ذمے داری ہوتی ہے اور سیاح بھی سب سے پہلے جن سہولیات کو دیکھتا ہے اُن سب سے پہلے وہ یہ دیکھا ہے کہ جہاں وہ جا رہا ہے وہ علاقہ کتنا محفوظ ہے، وہاں تک پہنچنے اور گھومنے پھرنے کے لیے انفرااسٹرکچر کتنا جدید ہے، ٹرانسپورٹ کتنی اکنامیکل اور جدید ہے،علاج گاہیں کیسی ہیں، کتنی آسانیاں ہیں، مقامی گائیڈ اور لوگ فرینڈلی اور مہذب ہیں، غیر ملکی کرنسی کی مقامی کرنسی میں تبدیلی کے مراکز مناسب جگہوں پر موجود ہیں، ایمرجنسی کی صورت میں ابتدائی طبی امداد اور ریسکیو کا نظام کتنا فعال ہے۔

پاکستان میں بلا شبہ ایسے علاقے اور تاریخ موجود ہے جو غیر ملکی سیاح کے لیے کشش کا باعث بن سکتے ہیں۔ اگر کوئی اونچی برفیلی چوٹیوں کو چھونا چاہتا ہے تو آٹھ ہزار میٹر سے بلند پانچ پہاڑ جو eight thousanders کہلاتے ہیں، چیلنج کرتے ہیں کہ آؤ ہمیں سر کرو۔ ایک دو نہیں بلکہ دنیا کے آٹھ ہزار میٹر بلند کل 14 پہاڑوں میں سے پانچ پاکستان میں شان سے ایستادہ ہیں۔خدارا! حکومت سے دست بستہ التجاہے کہ وہ سیاحت پر رحم کھائے، آہستہ آہستہ چیزوں کو ٹھیک کرے،انھیں بہتر کریں گے تو یقینا حکومت کو ریونیو بھی آنا شروع ہو گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔