آئین شکنی پر کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے
بیرونی سازش کے بیانیے میں کوئی حقیقت نہیں ہے
سپریم کورٹ نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کو روکنے کے لیے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی رولنگ کے خلاف تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔
یہ فیصلہ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے تحریر کیا ہے۔ جب کہ جسٹس مظہر عالم خیل نے اس میں اضافی نوٹ تحریر کیا ہے۔ یہ پانچوں ججز کا متفقہ فیصلہ ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں واضح لکھ دیا ہے کہ تحریک انصاف وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے پیچھے بیرونی سازش کا کوئی ثبوت عدالت میں نہیں پیش کر سکی۔ اس لیے بیرونی سازش کے بیانیے میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ تحریک انصاف کی اس وقت کی حکومت متنازعہ سائفر بھی عدالت میں پیش نہیں کر سکی۔ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ میں بھی اس سائفر کے کچھ مندرجات کا تو ذکر تھا لیکن مکمل سائفر اس کے ساتھ بھی نہیں تھا۔ سپریم کورٹ نے نا مکمل سائفر کو ناکافی ثبوت قرار دیتے ہوئے سازش کے بیانیے کی بنیاد پر ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پر رولنگ کو خلاف آئین قرار دے دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے مطابق بیرونی سازش کے بیانیے کے کوئی بھی ٹھوس ثبوت عدالت میں پیش نہیں کیے جا سکے ہیں۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر ایسا کوئی سائفر موجود تھا تو تحریک انصاف کی حکومت کو اس کی تحقیقات کے لیے کوئی کمیشن بنانا چاہیے تھا۔ اس سائفر کو قومی اسمبلی میں پیش کرنا چاہیے تھا۔ عمران خان حکومت کے پاس اس سائفر کی تحقیقات کرانے کے لیے کافی وقت موجود تھا لیکن انھوں نے اس کی تحقیقات کے لیے کوئی پیش رفت نہیں کی۔ نہ تو کوئی کمیشن بنایا گیا اور نہ ہی اس کمیشن کے قیام کے لیے کوئی قانون سازی کی گئی اور نہ ہی کوئی آرڈیننس جاری کیا گیا۔
جسٹس مظہر عالم خیل نے اضافی نوٹ میں واضح لکھا ہے کہ اختیارات کا استعمال ایک مقدس فریضہ ہے۔ آئین میں دیے گئے اختیارات کو مقدس امانت سمجھ کر استعمال کیا جانا چاہیے۔ تاہم تحریک عدم اعتماد کے موقع پر وزیر اعظم، صدر مملکت، اسپیکر قومی اسمبلی اور ڈپٹی اسپیکر نے اس مقدس امانت کا درست استعمال نہیں کیا ہے۔ انھوں نے آئین سے انحراف کیا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ آئین کے آرٹیکل چھ کے مرتکب ہوئے ہیں کہ نہیں، یہ بات پارلیمان کو طے کرنی ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ اس طرح کی آئین شکنی کا دروازہ کھلا چھوڑنا ہے یا نہیں، یہ طے کرنا پاکستان کی پارلیمان کا فرض ہے۔
میں سمجھتا ہوں جسٹس مظہر عالم خیل نے دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ انھوں نے جسٹس وقار سیٹھ کی یاد تازہ کر دی ہے۔ انھوں نے ایک دفعہ یہ پھر باور کرایا ہے کہ آئین شکنی کی کوئی معافی نہیں ہونی چاہیے۔ آئین شکن کوئی فوجی آمر ہو یا سول وزیر اعظم دونوں کو سزا دی جانی چاہیے۔
اس بات سے قطع نظر کے کون کتنا طاقتور ہے، آئین شکنی کی کوئی معافی نہیں ہونی چاہیے۔ اس لیے اگر آج آئین شکنی کو معاف کیا گیا تو کل دوبارہ آئین کی پاسداری کا حلف اٹھانے والے پھر آئین شکنی کی جرات کریں گے۔ اس لیے آئین شکنی کا دروازہ بند کرنے کے لیے آئین شکنوں کے خلاف آئین وقانون کے مطابق کاروائی ضروری ہے، اس کی کوئی معافی نہیں ہونی چاہیے۔
تحریک انصاف کا بہت شور تھا کہ سائفر پر عدالت کا فیصلہ آنا چاہیے۔ انھیں پاک فوج کے اس واضح اعلان پر بھی یقین نہیں تھا کہ ملک کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی نے تحقیق کی ہے اور انھیں بیرونی سازش کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ سوال یہ ہے کہ اب سپریم کورٹ کے اس واضح فیصلے کے بعد تحریک انصاف اور ان کا سازش کا بیانیہ کہاں کھڑ اہے۔
کیا تحریک انصا ف نے جس طرح پہلے پاک فوج کا موقف مسترد کیاہے ، اب سپریم کورٹ کے فیصلے کو بھی مسترد کر دیں گے اور اپنے بیرونی سازش کے بیانیے پر قائم رہیں گے۔ کیا وہ صحافی، تجزیہ کار اور اینکرز جو بیرونی سازش کے بیانیے کی ایک قدم آگے بڑھ کر حمایت کر رہے ہیں، وہ اب کہاں کھڑے ہیں۔
میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ اپنے سیاسی مخالفین کو غدار غدار کہنے کے کھیل نے ملک کو کچھ نہیں دیا ہے۔ سیاستدانوں کو اپنے اختلافات کو آئین و قانون اور معاشرتی اور جمہوری اخلاقیات کے دائرے میں رکھنا چاہیے۔ ایک دوسرے کو غدار قرار دینے نے نہ کل ملک کی کوئی خدمت کی تھی اور نہ ہی آج اس سے ملک کی کوئی خدمت ممکن ہے۔ لیکن آئین شکنی کل بھی ملک کے لیے زہر قاتل تھی ، آج بھی ملک کے لیے زہر قاتل ہے، اس کی نہ کل کوئی معافی ہونی چاہیے تھی اور نہ آج ہونی چاہیے۔
ہمیں پاکستان کی عدلیہ سے یہ گلہ رہا ہے کہ اس نے نظریہ ضرورت کے تحت آئین شکنی کو ماضی میں تحفظ دیا ہے۔ ایک آمر آئین کو کاغذ کا ٹکرا قرار دیتا رہا۔ دوسرے کو آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دے دیا گیا ہے۔
تاہم اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے خود لکھا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ نظریہ ضرورت کو دفن کر دیا جائے اور آئین کی سربلندی کے ساتھ کھڑا ہوا جائے۔ آئین سے انحراف نے نہ کل پاکستان کی کوئی بہتری کی تھی اور نہ ہی آج آئین سے انحراف سے پاکستان کی کوئی بہتری ممکن ہے۔ آئین پاکستان کی مکمل متفقہ دستاویز ہے جو ہم نے دو لخت ہونے کی قیمت کے بعد حاصل کی تھی۔ اس لیے ہم آئین سے مزید کسی ایڈونچر کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے آئین سے انحراف کیا ہے۔ اب سپریم کورٹ نے بھی اس حقیقت پر مہر ثبت کر دی ہے۔ کیا قاسم سوری کے اس عمل کو نظر انداز کر دینا چاہیے۔ کیا ان کی غیر آئینی رولنگ کے عمل کو ایک سیاسی عمل سمجھ کر نظر انداز کر دینا چاہیے۔ سپریم کورٹ نے پارٹی سے وفاداری پر بہت زور دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے پارٹی پالیسی سے انحراف کے تمام راستے بند کر دیے ہیں۔
جن ارکان اسمبلی نے پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دیا ، انھیں ڈی سیٹ بھی کیا گیا ہے۔ ان کے لیے اظہار ناپسندیدگی بھی کیا گیا ہے۔ حالانکہ ہم نے حال ہی میں جمہوریت کی ماں کا درجہ رکھنے والی برطانوی جمہوریت میں ارکان پارلیمان کو اپنی ہی جماعت کے وزیر اعظم کے خلاف ووٹ دیتے دیکھا ہے۔
تا ہم سپریم کورٹ نے پاکستان میں اس کے راستے بند کر دیے ہیں اور نظریہ اخلاقیات کے تحت ارکان کو پابند کر دیا ہے کہ وہ چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے پارٹی پالیسی کی پابندی کریں۔ اب سپریم کورٹ نے ایک لکیر کھینچی ہے کہ پارٹی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے آپ آئین شکنی نہیں کر سکتے۔ ورنہ کل ارکان پارلیمان یہ توجیح بھی پیش کر سکتے تھے کہ پارٹی پالیسی پر عمل ہمارا فرض ہے، چاہے پالیسی آئین سے انحراف پر ہی مبنی کیوں نہ ہو۔
یہ دلیل دی جاتی ہے کہ اگر کسی فوجی آمر کے خلاف آئین شکنی پر کارروائی نہیں ہو سکی تو سویلین پر کیوں کی جائے؟ کیا سویلین کے خلاف کارروائی اس لیے ہو گی کہ وہ کمزور ہے۔ لیکن میں یہ دلیل نہیں مانتا۔ سویلین پارلیمانی نمایندوں پر آئین کی پاسداری کی زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے۔
آئین کے تحت اقتدار میں آنے والوں پر آئین کی پاسداری کی زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ جن پر ذمے داری زیادہ ہے ان کی گرفت بھی سخت ہونی چاہیے۔ پاکستان کی پارلیمان اور موجودہ حکومت کو اگر ملک میں آئین شکنی کے راستے بند کرنے ہیں تو سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے تحت آئین شکنی کے ریفرنس بنانے چاہیے۔ یہ کاروائی کوئی انتقامی کاروائی نہیں ہوگی بلکہ یہ آئین کی سربلندی کا تحفظ ہوگی۔