ہے کوئی سننے والا
اس دفعہ کا الیکشن پارٹیوں کے ایم این اے اور ایم پی اے حضرات کے لیے بہت امتحان سے لبریز ہوگا
HAZRO:
قارئین گرامی! کچھ عرصہ پہلے اپنے ایک کالم میں آنے والے وقت کے حوالے سے ایک لائحہ عمل پیش کیا تھا مگر افسوس کہ دل کی حسرت دل میں رہی اور قوم بنیادی سہولتوں سے محروم رہی، یقینا یہ قوم کے لیے قابل فخر بات ہے کہ محکمہ موسمیات والوں نے بارشوں کے حوالے سے صورت حال ابتر ہونے کے بارے میں پہلے ہی بتا دیا تھا۔
راقم نے تجویز دی تھی کہ انتظامیہ قبل ازوقت توجہ دے تاکہ مفلوک الحال بے سر و سامان یہ قوم مصیبت سے بچ جائے مگر افسوس تحریر گفتگو کے دریا میں کراچی میں بہتی نظر آئی، تین دن کی بارش نے اداس رنگ لیے قوم کا حساب کتاب مکمل کردیا، گھروں میں پانی تالابوں کا منظر پیش کرتا رہا، سڑکیں دریا کا منظر پیش کرتی رہیں اور بارش دیانت اور تندہی سے ہوتی رہی، ان کے چونچلے ہی پورے نہیں ہوتے قوم کولہو کا بیل بن کر گھروں سے پانی نکالتی رہی۔ اس بارش میں عوام نے جو اذیت برداشت کی اسے تحریر میں لانا بہت مشکل ہے جب محکمہ موسمیات والوں نے چند روز قبل باور کرا دیا تھا کہ ان حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے مگر انتظامیہ نے اس پر توجہ نہیں دی ۔
بارش کے تیور نے سب کے کس بل نکال دیے کچی آبادیاں تو کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی تھیں اور جو پکے گھر تھے وہ بھی اپنی مثال آپ تھے، اسے کہتے ہیں کہ سختیاں جھیل کر بھی کس طرح مسکرایا جاتا ہے، رونے کی بات اس لیے نہیں کی کہ رونا دھونا تو اب قوم کے نصیب میں لکھا جا چکا ہے مگر کب تک؟ ایک دن قوم کا بھی آئے اب کب آئے گا، یہ رب کو معلوم ہے۔ واٹر بورڈ سے ہمیشہ پانی کے حوالے سے گلہ شکوہ رہا مگر اب کوئی شکایت نہیں، بہترین کاوشوں کے تحت گھر گھر پانی ازخود پہنچ گیا، اسے کہتے ہیں حکمت عملی۔ کیا خوب شاعر نے کہا ہے:
مدت سے پنپتی ہوئی سازش نے ڈبو دیا
کہنے کو میرے شہر کو بارش نے ڈبو دیا
ادھر انتظامیہ کا کہنا ہے عوام بلاوجہ گھروں سے باہر نہ نکلیں، ایسا نہ ہو کہ نیپا کے لیے نکلیں اور چھیپا پہنچ جائیں۔ صاحب حیثیت لوگ کہتے ہیں کہ عوام قربانی دیں۔ ارے آپ حضرات بھی تو عوام میں سے ہیں، مگر اپنی مراعات ختم کرنے کو تیار نہیں، یہ کیسا فارمولا ہے جو سمجھ سے بالاتر ہے۔
اس دفعہ کا الیکشن پارٹیوں کے ایم این اے اور ایم پی اے حضرات کے لیے بہت امتحان سے لبریز ہوگا، گزشتہ دنوں ایک بڑی سیاسی پارٹی کے ایم این اے اپنے حلقے میں گئے تو حلقے کے لوگوں کو بنیادی سہولتیں نہ ملنے کی وجہ سے محترم کا جس طرح ووٹرز نے استقبال کیا وہ اپنی مثال آپ تھا کہ اپنی کروڑوں کی گاڑی چھوڑ کر موٹرسائیکل پر بیٹھ کر جانے پر مجبور ہوئے۔ آج کی سیاست کو یہ سیاسی لوگ 15 سال قبل والی سیاست سمجھ رہے ہیں۔
سوشل میڈیا نے سیاست کی وہ عوامی پذیرائی کی ہے کہ رہے نام اللہ کا، حالات تو یہ ہیں کہ مکان بنانیوالے، کار موٹرسائیکل ٹھیک کرنیوالے، بجلی کی وائرنگ کرنیوالے، رنگ و روغن کرنیوالے، ٹی وی، واشنگ مشین ٹھیک کرنیوالے، بال کاٹنے والے، شادی بیاہ کے کھانے پکانیوالے، کار ٹرک، کوچ چلانیوالے، گھر میں کام کرنیوالے ملازمین، فیکٹریوں میں مزدور، گوشت، سبزی فروخت کرنیوالے، گائے بکرا، بھینس، ہوٹل میں چائے فروخت کرنیوالا یہ سب ان پڑھ ہوتے ہیں اور ملک کا نظام خوش اسلوبی سے چل رہا ہے۔
اس ملک کا نظام ان ان پڑھ حضرات نے خراب نہیں کیا، تعلیم یافتہ لوگ کہاں ہیں اور ملک کے لیے کیا کر رہے ہیں؟ جو قوم رو رہی ہے آج معاشرہ اور نظام ایسا ہے کہ تعلیم یافتہ لوگ پریشان ہیں، مہنگائی، بارش کی پریشانیاں، لاقانونیت ان سب کو کون دیکھ رہا ہے، اٹھیں اور کفن باندھ کر قوم کے مسائل کے لیے نکلیں کہ لوگ اب حالات سے بے زار ہوگئے ہیں ۔سیاسی پارٹیاں صرف ایک سیٹ کے لیے دن رات جتن کرتی ہیں کہ یہ ہمیں مل جائے صرف ایک سیٹ کے لیے مگر قوم کے لیے ان کے پاس وقت نہیں ہے کیونکہ وہ ایک سیٹ بھی ان کی بقا کا معاملہ ہے۔ ہمارے سیاسی حضرات کو تیکھے موضوعات پر لڑنے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہے۔
آنیوالے الیکشن میں سب پرامید ہیں کہ ہم اقتدار کے گھوڑے پر دوبارہ سوار ہو جائیں گے جب کہ یہ ان کی بھول ہے۔ اس دفعہ الیکشن بہت سخت امتحان لیں گے کراچی کی سیاست میں اگر پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی ایک پلیٹ فارم پر آگئے تو کراچی میں اس دفعہ بڑی تبدیلی آئے گی اس بات کو کراچی والے بھی سمجھ رہے ہیں ۔
باخبر ذرایع تو یہ بتا رہے ہیں کہ ہو سکتا ہے پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی ایک پلیٹ فارم سے لڑیں گے ادھر پنجاب میں ضمنی الیکشن میں سخت مقابلہ ہوگا کیونکہ پی ٹی آئی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، عمران خان کے جلسے خاصے کامیاب نظر آتے ہیں ان پر مہنگائی کا الزام تھا راقم نے بھی ان کے دور میں مہنگائی پر بہت کچھ لکھا پھر پی ڈی ایم، عدم اعتماد کے ذریعے برسر اقتدار آئی، وقتی طور پر قوم نے سکون کا سانس لیا مگر افسوس کہ مہنگائی پہلے دریا تھی اب سمندر کی شکل اختیار کرگئی اس لیے قوم کو اب عمران خان بے قصور نظر آتے ہیں۔
ضمنی الیکشن میں کچھ نہیں کہہ سکتے اگر الیکشن پرسکون طریقے سے مکمل ہوتے ہیں اور اگر عمران خان ضمنی الیکشن میں اکثریت سے آ جاتے ہیں تو آنے والے الیکشن میں پی ڈی ایم کو مقابلے کی دوڑ کا امتحان ہوگا ۔ ضمنی الیکشن اس ملک کی تاریخ مستقبل میں بدل سکتا ہے کیونکہ مہنگائی کے حوالے سے عمران خان کے زمانے میں جو ووٹر مایوس تھا اب اسے بھی قرار آگیا ہے اور ایک سروے کے مطابق عمران خان کی پی ٹی آئی کی طرف لوگوں کا جھکاؤ نظر آ رہا ہے کیونکہ اصل مقابلہ تو (ن) لیگ اور پی ٹی آئی کا ہوگا دیگر جماعتیں فعال نظر نہیں آرہی ہیں دیکھنا یہ ہے کہ عامر لیاقت مرحوم کی سیٹ پر جو الیکشن ہوگا وہ کون جیتے گا کہ کراچی میں اب پی ٹی آئی کا ووٹ بینک بھی نظر آ رہا ہے یہ ضمنی الیکشن جو پاکستان میں ہو رہے ہیں آنیوالے الیکشن کا اس پر ضرور اثر پڑے گا۔
کیونکہ پنجاب میں 20 حلقوں میں مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے درمیان سخت مقابلہ ہوگا اگر عمران خان وزیر اعظم ہوتے تو شاید مہنگائی کے حوالے سے وہ مشکلات کا شکار ہو جاتے مگر اب حالات نے مہنگائی کی وجہ سے نئی کروٹ لی ہے جو عمران خان کے لیے سود مند بھی ثابت ہو سکتی ہے اگر پی ڈی ایم کی جماعتیں مل کر الیکشن لڑتی ہیں تو پھر عمران خان کے لیے سخت امتحان ہوگا مگر شاید ایسا نہ ہو سکے۔
کہا جا رہا ہے کہ (ن) لیگ اور دیگر جماعتیں پی ڈی ایم سے نہیں الگ الگ الیکشن لڑیں گی یہ تو وقت بتائے گا کہ مقدر کا سکندر کون ہے۔ یہ قوم اب اہل سیاست کے زیر اثر بنیادی سہولتوں سے مکمل طور پر یتیم ہوتی جا رہی ہے سیاست کی بھی عجیب فطرت ہے تنقید جیسی سچائی پر سخت ناراض اور خوشامد جیسی تحریر پر خوشی کا اظہار یہ کیسی روایت ہے الجھے ہوئے مسائل کو سلجھانے کی کوشش کریں قومی مسائل پر توجہ نہ دینے پر قوم مایوس نظر آتی ہے۔
اسے کہنا کہ بے وفائی کا کفارہ نہیں ہوتا
لوٹ بھی آؤ تو یہ دل اب تمہارا نہیں ہوتا
ابھی ان سیاسی حضرات کو معلوم نہیں کہ قوم کن کن مسائل کے بھنور میں آچکی ہے۔ رب خیر کرے اس دفعہ قوم بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے گی، جب تک اقتدار میں ہیں ابھی حالات کی نزاکت کو یہ سیاسی حضرات دیکھ نہیں رہے مگر آنیوالا الیکشن نہ جانے کس کی قسمت کھول دے کہ قوم نے ووٹ کے حوالے سے ذہن بنا لیا ہے یہ مفلوک الحال اور بے سرو ساماں قوم خاموش ہے مگر الیکشن کے نتائج سب کچھ بدل کر رکھ دیں گے یہ بلند و بانگ دعوے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے اور یہ تہی داماں قوم الیکشن میں نہ جانے کیا فیصلہ کر بیٹھے ابھی ہمارے سیاست دانوں کو اس کا احساس نہیں ہے۔